بلقیس بانو کو انصاف Bilqis Bano ko Insaaf
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے گجرات سرکار کے ذریعہ بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی کے حکم کو رد کرکے بتا دیا ہے کہ گجرات سرکار کو یہ حق نہیں تھا کہ وہ ان گیارہ مجرمین کی رہائی کا حکم جاری کرے، جنہوں نے 3؍ مارچ 2002ء کو بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کی تھی ، اس کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا تھا،جس میں بلقیس بانو کی تین سالہ بیٹی بھی شامل تھی ، خود 21؍ سال کی بلقیس بانو پانچ ماہ کی حاملہ تھی، یہ ایسا درد ناک واقعہ تھا جو گجرات فساد میں نسل کشی کا عنوان بن گیا تھا، 2004ء میں ملزمین گرفتار کیے گیے ، 2008ء میں خصوصی عدالت نے گیارہ مجرمین کو عمر قید کی سزا سنائی، مئی 2017ء میں بمبئی ہائی کورٹ نے اس فیصلہ کو بر قرار رکھا، 15؍ اگست 2022ء کو گجرات سرکار نے معافی دے کر ان مجرموں کو رہا کر دیا، 8؍ جنوری 2023ء کو سپریم کورٹ نے گجرات سرکار کے فیصلے کو رد کرکے دو ہفتہ کے اندر مجرمین کو خود سپردگی کا حکم دیا ہے، پورے ملک نے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے حق وانصاف کی جیت قرار دیا ہے ۔
اس مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے جسٹس بی وی ناگر تھنا اور اُجل بھوئیاں نے گجرات حکومت کو سخت پھٹکار لگائی کہ اس نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرکے یہ فیصلہ لیا، اسے اس طرح کا حکم صادر کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا، اس قسم کا کوئی فیصلہ صرف گجرات حکومت لے سکتی تھی کیوں کہ اس کی سماعت مہاراشٹر ا میں ہوتی تھی اور وہی حکومت رہائی کا حکم دے سکتی تھی ، بینچ نے دفعہ ۳۲؍ کے تحت بلقیس بانو کی عرضی کو قابل سماعت قرار دیا اور دفعہ 432؍ کی تشریح کے ضمن میں یہ ثابت کیا کہ گجرات حکومت کا یہ فیصلہ قابل اعتراض اور قانونی تقاضوں کے خلاف تھا، جسٹس بی وی ناگرتھنا نے مشہور فلسفی افلاطون کا یہ قول نقل کیا کہ ’’منصف کی حیثیت ڈاکٹر کی ہوتی ہے جو مریضوں کی صحت یابی کے لیے کڑوی دوائیں تجویز کرتا ہے۔‘‘
بلقیس بانو کے ہونٹوں پر کوئی ڈیڑھ سال بعد مسکراہٹ نظر آئی ، انہوں نے خود بھی اقرار کیا کہ ڈیڑھ سال کے بعد میں مسکرائی ہوں، جب سے مجرمین کو رہا کیا گیا تھا میں انتہائی کرب میں تھی، مجھے پھر سے ان مجرمین کی جانب سے خطرہ لاحق ہو گیا تھا، کیوں کہ کسی بھی مرحلہ میں مجھے حکومت کی جانب سے تحفظ فراہم نہیں کیا گیا، اور رہائی کے بعد ان کے حوصلے اس قدر بڑھ گیے تھے کہ وہ پھر سے کسی اور حد تک جا سکتے تھے، ان کے دو بارہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے کے حکم سے مجھے انتہائی اطمینان اور سکون ملا ہے، اور یقین ہو گیا کہ انصاف ابھی زندہ ہے۔بلقیس بانو نے ان تمام لوگوں کا بھی شکریہ ادا کیا ہے، جو ان کی پشت پر مضبوطی سے کھڑے رہے اور ان کا حوصلہ بڑھایا، ان لوگوں میں خواتین بھی ہیں اور مرد بھی، یہ تعداد ہزاروں تک پہونچتی ہے، معلوم ہوا کہ فیصلہ یقینا ہمارے بس میں نہیں ہوتا لیکن مظلوموں کا ساتھ دے کر اسے کیفر کردار تک پہونچانے میں معاون تو بن ہی سکتے ہیں۔