مقصد تخلیق پر نظر Maqsad e takhliq par nazar
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم، امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ
ہر انسان اپنی ضروریات کے اعتبار سے تگ ودو میں لگا ہوا ہے- اسلام میں چوں کہ رہبانیت نہیں ہے اس لیے جائز حدود و قیود میں کی جانے والی سر گرمی کو بُرا کہنے کا کوئی جواز نہیں ہے، لیکن کیا ہم جن کاموں میں صبح و شام لگے رہتے ہیں اور جن مشاغل میں رات و دن گذار دیتے ہیں، یہی زندگی کا مقصد ہے؟ اگر اسی کو مقصد قرار دیا جائے تو معاشی تگ ودو تو پرندے، چرندے اور جانور بھی کیا کرتے ہیں، بلکہ وہ اس اعتبار سے ہم سے ممتاز ہیں کہ وہ دن بھر کھا پی کر رات کو سو جاتے ہیں- انہیں اللہ کے نظام رزق رسانی پر اتنا اور ایسا اعتماد ہے کہ کل کے لیے وہ کچھ نہیں رکھتے- ان کے گھونسلے اور گھروں میں کل کے لیے کوئی چیز محفوظ نہیں ہوتی- انہیں یقین ہوتا ہے کہ صبح، بھوکے پیٹ ہوگی, لیکن اللہ بھوکے پیٹ سلائے گا نہیں، لیکن انسان میں یہ کیفیت نہیں پائی جاتی وہ برسوں نہیں، کئی پشتوں کے لمبے سامان راحت و معیشت جمع کرنے کی دھن میں اپنی پوری زندگی گذار دیتا ہے اور مرتے وقت خالی ہاتھ دنیا سے چلا جاتا ہے، اس نے جائز نا جائز طریقے پر جو دولت جمع کی تھی وہ یہیں کی یہیں رہ جاتی ہے، لے بھی کیسے جائے، کفن میں کوئی جیب نہیں ہوا کرتی۔
اسی لیے اللہ رب العزت نے صاف صاف اعلان کیا کہ تمہارا اصل کام معاشی تگ ودو نہیں ہے، یہ کام توہم نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے اگر تم نے تقویٰ کے ساتھ زندگی گذاری تو رزق ہم اس طرح دیں گے جس کا تمہیں وہم و گمان بھی نہیں ہے- اللہ رب العزت نے واضح کر دیا کہ تمہاری تخلیق صرف میں نے اپنی عبادت کے لیے کی ہے-
آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:- دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے پیدا کیے گئے ہو- اس کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے سارے کام کے ساتھ مقصد تخلیق کو نہ بھولیں، ہر حال میں اللہ کی عبادت اور فکر آخرت کو زندگی کا اصل کام سمجھیں۔
موبائل کا اصل کام کیا ہے؟
اس کو ایک مثال سے سمجھیے، موبائل آج کل ہر کس و ناکس کے ہاتھ میں ہے- موبائل والے نے اللہ کی عطا کردہ عقل و خرد کا استعمال کر کے قسم قسم کے موبائل ایجاد کئے- دن بدن اس کے فنکشن اور قوت کار میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے- ایک موبائل اپنے اندر پوری دنیا رکھے ہوا ہے- آپ اس کی ساری صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، لیکن آپ دوسرے کوئی بھی کام موبائل پر کر رہے ہوتے ہیں- کوئی مضمون کمپوز کر رہے ہیں- کسی کو اس ایم ایس (پیغام) بھیج رہے ہیں- کوئی ویڈیو دیکھ رہے ہیں- کلکولیٹر پر حساب کر رہے ہیں، جیسے ہی فون آیا آپ دیکھیں گے کہ موبائل کی وہ صلاحیت وقتی طور پر رک جاتی ہے- ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ موبائل کا اصل کام فون کرنا اور ریسیو کرنا ہے- دوسرے سارے کام وقتی اور ضرورت کے اعتبار سے ہیں۔
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ بے جان موبائل تو اس طرح اپنے مقصد تخلیق کا خیال رکھے اور ہم انسان جو اللہ کی سب سے بہتر مخلوق ہیں، صورتاً اور سیرتاً بھی اور جس کو اللہ تعالیٰ نے مکرم بنایا وہ اس حقیقت سے غافل رہے اور بھول جائے کہ اللہ نے اسے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور وہی اس کا اصل کام ہے- اگر انسان اس بات کو سمجھ لے تو وہ سارے کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضیات کے مطابق کرنا شروع کر دے گا اور بازار کی رونق، دوکان کی چکاچوند اور گاہکوں کی بھیڑ اسے اذان کے بعد مسجد جانے سے نہیں روکے گی-اسے پورے طور پر اس کا خیال رہے گا کہ جب اذان ہو جاتی ہے تو سارے دروازے چاہے وہ گھر کے ہوں یا دوکان کے، بند ہو جاتے ہیں اور صرف ایک دروازہ کھلا رہتا ہے اور وہ ہے مسجد کا دروازہ۔ وہ دروازہ جہاں سے بندہ کبھی مایوس نہیں لوٹتا-آ رزوئیں، تمنائیں، مرادیں لے کر جاتا ہے اور جھولی بھر کر واپس آتا ہے-
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں تجارت کی مصروفیات اور کاروبار اللہ کے ذکر نماز وزکوٰة کی ادائیگی سے غافل نہیں کرتی، ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ ان کے اموال و اولاد اللہ کے ذکر میں حائل نہیں ہوتے- اللہ نے خود ہی اعلان کر رکھا ہے- مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا- میں تمہاری شہ رگ سے بھی قریب ہوں- تمہاری ضرورتوں کے بارے میں ہم سے زیادہ کون جان سکتا ہے- بندہ کی اس سپردگی کے نتیجے میں وہ اللہ کا ہو جاتا ہے اور اللہ بندے کا اور اللہ جس کا ہو جائے- اس کی تمام ضرورتیں پوری ہوتی رہتی ہیں۔