اسپتال سے جیل تک _ ڈاکٹر کفیلل خان کی شخصیت | Dr kafeel khan اسپتال سے جیل تک _ ڈاکٹر کفیلل خان کی شخصیت | Dr kafeel khan biography in urdu in urdu
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
ڈاکٹر کفیل خان بن شکیل خان (م3؍ مارچ 2003) ساکن محلہ بسنت پور ، گورکھپورگذشتہ پانچ سالوں سے سر خیوں میں رہے ہیں، 10؍ اگست 2017ء کی وہ بھیانک رات جس میں گورکھپور اسپتال میں آکسیجن کی سپلائی رک جانے کی وجہ سے ترسٹھ(63) بچوں اور اٹھارہ(18) بالغوں کو اپنی جان گنوانی پڑی ، یہ انتہائی المناک طبی حادثہ تھا، ڈاکٹر کفیل خان کو مریضوں کی جان بچانے کی جد وجہد کایہ صلہ ملا کہ وہ پہلے معطل کیے گیے، پھر بر طرف ہوئے اور آٹھ ماہ کی طویل قید انہیں نصیب ہوئی ،ا نہوں نے اپنی یاد داشت انگریزی میں The Gorakhpur Hospital Tragedyکے نام سے لکھی تھی ، اردو داں حلقہ کو اس کے ترجمہ کا انتظار تھا، چنانچہ اس کتاب کا انتہائی رواں ترجمہ امام محمدشعیب وارم فاطمہ نے کیا، نظر ثانی کا کام محمد علیم اللہ اور گلزار صحرائی کے حصہ میں آیا، فاروس میڈیا اینڈ پبلشنگ پرائیوٹ لمیٹڈD-84، ابو الفضل انکلیو-۱، جامعہ نگر نئی دہلی سے یہ کتاب طبع ہوئی ہے ، تین سو بارہ صفحات کی اس کتاب کی قیمت تین سو پچھہتر(375) روپے ہے جو معیاری کاغذ وطباعت اور کارڈ بورڈ پر شاندار اور دیدہ زیب ٹائٹل کے لیے ٹھیک ہی ہے ، ملنے کا پتہ الگ سے کہیں درج نہیں ہے ، اس کا مطلب ہے کہ ناشر کے یہاں سے ہی دستیاب ہو سکتی ہے ۔
کتاب کا انتساب ان معصوم بچوں کے نام ہے جو بی آر ڈی میڈیکل کالج گورکھپور میں اگست 2017ء میں اپنی زندگی کی جنگ ہار گیے اور ان بہادر والدین کے نام ہے ، جنہوں نے غموں کے لا متناہی سلسلے کو برداشت کیا اور بے انتہا تلخیاں جھیلیں اور آج بھی انصاف کے منتظرہیں، اس کے بعد کتاب میں مذکور تمام افراد کا تعارف کرایا گیا ہے، سانحہ سے متعلق تاریخ وار واقعات کو یک جا قلم بند کیا گیا ہے مصنف کے قلم سے کتاب کا مقدمہ ہے جو ایک خواب اور ایک ڈراؤنا خواب کے عنوان سے ہے ، مصنف نے اس اہم اور قیمتی کتاب پر کسی کاپیش لفظ وغیرہ نہیں لکھوایا ہے ، جس کا آج کل فیشن سا چل پڑا ہے اور اتنی تحریریں کتاب کی تعریف میں مختلف عنوانات سے دوسروں سے لکھوائی جاتی ہیں کہ اس کا حجم کتاب کے ایک تہائی صفحات پر چلا جاتا ہے، ڈاکٹر کفیل خان کو اپنی تحریر پر اعتماد ہے ،ا س لیے اپنی تحریر کو باوزن بنانے کے لیے وہ کسی اور کی تحریر کا سہارا نہیں لیتے، مقدمہ کی آخری ان سطروں کو کو پڑھ کر ہم اس کتاب کے مصنف کے سوز دروں تک پہونچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’میرے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ آنے والے سال میں میرے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ بھڑکائی جائے گی، میں گورکھپور میں ہی پلا بڑھا تھا، مگر مجھے اس کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ شہر میرے لیے ایک میدان جنگ بن جائے گا، جس میں خود مجھے اپنی زندگی اور بقا کی جنگ لڑنی پڑے گی۔ میری یہ کتاب اسی کی داستان ہے‘‘۔ اس داستان کا آغاز 8؍اگست 2017ء سے ہوتا ہے اور 3؍ فروری 2022ء تک کی داستان قلم بند کرنے کے بعد مصنف کا قلم خاموش ہوجاتا ہے ۔‘‘
کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے، پہلا حصہ فرض، دوسرا حصہ قید، تیسرا حصہ تلاش اور چوتھا حصہ عزم وارادہ کا بیانیہ ہے، ہرحصہ کے اندر کئی کئی باب ہیں، جو بات کو زیادہ واضح کرنے میں ممد ومعاون ہے، اس طرح پوری کتاب بائیس(22) ابواب تک پہونچ گئی ہے ۔اس کے بعدکتاب کا خاتمہ ہے ، جس میں ایک ڈاکٹر اور ایک شہری ، شکر گذاری ذرائع پر تبصرے اختصارات اور تصویروں کا البم شامل کیا گیا ہے ۔
پوری کتاب ایک المیہ داستان ہے ، جس میں جذبات کی شدت ، احساس ذمہ داری ، کچھ کر گذرنے کی جرأت، حالات سے مردانہ وار مقابلہ کی خواہش کی موجیں ابلتی نظر آتی ہیں، حالات کے مد وجزر ، میں جرم بے گناہی کی سزا کاٹ رہا اس کتاب کا مصنف قارئین سے بھر پور ہمدردی بٹورتا ہے، یہ ہمدردی مصنوعی اور دکھاوے کی نہیں، بلکہ حقیقتاً ہم یہ محسو س کرتے ہیں کہ ایک شخص کو غلط بھٹی میں تپا یا جا رہا ہے۔
کتاب کے بڑے حصہ سے میڈیا کے ذریعہ کفیل خان کو بدنام کرنے اور جھوٹے افسانے گڑھنے کا بھی پتہ چلتا ہے ، ان عہدوں سے ان کے استعفیٰ کے چرچے بھی خوب کیے گیے جس پر کفیل خان کبھی تھے ہی نہیں، یہ سب ایک سازش کا حصہ تھا، شروع میں ان کے کام کو سراہا گیا ، ان کے کام کو ایک ہیرو کی طرح پیش کیا گیا، لیکن جب گندی سیاست کی شعلہ باری ہوئی تو کفیل خان کا سب کچھ جل کر خاکستر ہو چکا تھا، ان میں ان کے وہ زریں خواب بھی تھے جو انہوں نے شعبۂ اطفال کی ترقی کے لیے سجوئے تھے، وہ فطری محبت بھی تھی ، جو بچوں سے ان کو تھی ، اور قوم کے لیے کچھ کر گذر نے کا جذبہ بھی تھا، جو ان کو خاندان کی طرف سے ورثہ میں ملا تھا، وہ گنگا جمنی تہذیب کو گلے لگانے کے قائل تھے، جسے نفرت کی آندھیوں نے کہیں دور جا پھینکا تھا۔
اس کتاب کے مطالعہ سے ہم ہندوستانی جیلوں میں قید لوگوں کے مصائب او ر پریشانیوں کو محسوس کر سکتے ہیں، جیلر کا رویہ قیدیوں کے ساتھ کیسا ہوتا ہے اور خود ایک قیدی دوسرے قیدی کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے، انسانیت کی دبی چنگاری کبھی یہاں بھی کام کرجاتی ہے ۔
اس کتاب کا مطالعہ اس لیے بھی مفید ہے کہ کس طرح لوگوں کو پھنسا یا جاتا ہے ، کیسے کیسے جال بچھائے جاتے ہیں، جب جال میں کوئی پھنس جاتا ہے اس کی تڑپ کیا ہوتی ہے اور اس کے بند کس طرح کسے جاتے ہیں، اور ظلم وجور کی بھٹی میں کس طرح گرمایا اور جلایا جاتا ہے ، پڑھیے ایک کہانی جو صداقت پر مبنی ہے، ایک داستان جو دھیرے دھیرے دراز ہو جاتی ہے، ایک ناول جس کا ہر کردار ہمیں متوجہ کرتا ہے، اور بتاتا ہے کہ نا انصافی اس دنیا کی حقیقت ہے ، اور ہمیں خواہی نخواہی اس نا انصافی کا سامنا کر نا پڑتا ہے، یہاں عہدے منصب، جواہر اور سیم وزر سے فیصلے متاثر ہوتے ہیں اور انصاف کی دیوی جو دیو مالائی روایتوں کے مطابق اندھی ہے ، اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے ، اس کے پلڑے میں کوئی بھی دولت مند سیم وزر رکھ کر دوسرے پلڑے کو جھکا دیتا ہے ، دیوی دیکھتی نہیں ہے اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب جرم بے گناہی کا پلڑا جھک گیا اورکب معصوم خطا لائق سزا قرار پاگئے، پڑھئے اور اس کتاب کو ضرور پڑھیے، یہ ایک آئینہ ہے ہمارے سماج کا آئینہ اس میں اپنی شکل بھی نظر آنے لگے تو مت گھبرائیے، یاد رکھیے۔
سچ بات مان لیجئے چہرے پر دھول ہے
الزام آئینوں پر لگانا فضول ہے (انجم رہبر)