بد گمانی ۔ مہلک روحانی بیماری
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار
باہمی حقوق وآداب معاشرت ، جماعتی اور اجتماعی زندگی ، خاندان ، گاؤں اور سماجی ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کہ ہر قسم کی بدگمانی سے بچا جائے، یہ بد گمانی گناہ کبیرہ تو ہے ہی آپسی تعلقات کے تاروپودبکھیرنے میں سب سے زیادہ مو ئثر ہے، اسی لیے اللہ رب ا لعزت نے سورة الحجرات آیت ۲۱ میں جن چیزوں کے کرنے سے منع کیا ہے ان میں ایک بد گمانی بھی ہے، ایمان والوں کو حکم دیا گیا ہے کہ بہت سے گمان سے بچتے رہیں اس لیے کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، یہ جو گناہ والے گمان ہیں انہیں کو اردو میں بد گمانی سے تعبیر کیا جاتا ہے، اسی لیے تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ مطلق گمان گناہ نہیں ہے، بلکہ بعض گمان ہی گناہ ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بلا دلائل قوی اور حجت تام کے کسی پرکوئی الزام دھر دے اور تہمت لگادے۔ مثلا اللہ تعالیٰ سے بدگمانی رکھنا کہ وہ مجھے عذاب دے گا اور مصیبت میں مبتلا رکھے گا، ایسی بد گمانی حرام ہے، اس قسم کی بد گمانی سے بندوں میں مایوسی اور قنوطیت پیدا ہوتی ہے، اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہو جاو ¿ اور یہ کہ اللہ کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ تم میں سے کسی کو بغیر اللہ کے ساتھ اچھے گمان کے موت نہ آئے، ایک حدیث قدسی میں ہے کہ میں بندے کے ساتھ وہی برتاؤکرتا ہوں، جیسا وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے، کم سے کم بندے کو یہ گمان تو ضرور رکھنا چاہیے کہ اگر اللہ عذاب دے تو ہم اس کے بندے ہیں اور اگر وہ بخش دے تو غالب حکمت والا ہے۔ فقہاءنے لکھا ہے کہ اللہ کے ساتھ حسن ظن فرض ہے، اور بدگمانی حرام ہے۔
اللہ رب العزت یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ ایک بندہ دوسرے بندے سے بد گمان رہے، اس لیے کہ یہ بدگمانی دنیا وآخرت دونوں کی تباہی کا ذریعہ ہے، واقعہ افک کو یاد کیجئے، جب حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگی، یہ تہمت اسی بدگمانی کے نتیجے میں لگی، اس میں بڑا ہاتھ یقینا منافقین کا تھا،لیکن اس موقع سے دو مسلم مرد اور ایک عورت بھی اس بدگمانی کے حصہ دار بنے، گو بعد میں اللہ رب العزت نے ان کی مغفرت کا اعلان کر دیا، اللہ رب العزت نے اس بدگمانی کے بارے میں یہ بات صاف کر دی کہ مسلمانوں نے جب یہ خبر سنی اسی وقت ان کے بارے میںوہ حسن ظن رکھتے اور کہدیتے کہ یہ کھلا جھوٹ ہے، اس سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ کسی مسلمان کے بارے میں جب تک کسی گناہ یا عیب کے بارے میں دلیل شرعی سے معلوم نہ ہوجائے اس وقت تک نیک گمان رکھنا ضروری ہے اور جب تک دلیل سے ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک کسی بات کو اس کی طرف منسوب کرنا ایمانی تقاضوں کے خلاف ہے۔
اب اگر کوئی شخص کسی کے بارے میں غلط افواہ پھیلا تا ہے اور لوگوں میں بدگمان کرنے کی مہم چلاتا ہے تو اس سے دلائل طلب کرنے چاہیے اور دلائل نہ پیش کر سکے تو اسلامی حکومت میں حد قذف یعنی اسی(۰۸) کوڑے لگائے جائیں گے اور ایسے لوگوں کی گواہی عند القضاءقابل قبول نہیں ہوگی، ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ فاسق ہیں۔
یہ بد گمانی کا ناپھوسی سے پیدا ہوتی ہے اور جو لوگ کسی کے خلاف مہم چلاتے ہیں تو کھلم کھلا بولنے کی ہمت نہیں ہوتی، کان بھرتے رہتے ہیں، سرگوشی کرکے باتوں کو پہونچاتے ہیں، اللہ رب العزت نے اس سے سختی سے منع کیا ، سورة مجادلہ کی آیت نمبر آٹھ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ جب تم کان میں بات کیا کرو تو گناہ کی زیادتی کی اور اللہ کے رسول کی نا فرمانی کی مت کیا کرو، بات کرنی ہی ہو تو احسان اور پر ہیز گاری کی کیا کرو اور اللہ رب ا لعزت سے ڈرتے رہو اس لیے کہ تمہیں اسی کے پاس جمع ہونا ہے۔ اس تفصیل کے بعد اللہ رب العزت نے اسے شیطان کا کام قرار دیا اور فرمایا کہ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں تاکہ ایمان والوں کو صدمہ پہونچائیں، حالاں کہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے، ایمان والوں کو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
قرآن واحادیث کی روشنی میں بد گمانی کے مفاسد اور اس پر اللہ کی جانب سے وعید وں کے ذکر کے بعد یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ بد گمانی آخر انسان کرتا کیوں ہے؟ اس کی دو وجہ ہوتی ہے، ایک تو یہ کہ دوسرے کے بارے میں بد گمان کرکے اگلے کی نظر میں مقام ومرتبہ حاصل کرنا ، اور دوسری وجہ علم کی کمی اور جہالت ہے۔بہت سے لوگ بات بات پر بدگمان ہوجاتے ہیں، مثلا آفس میں کوئی مسئلہ پیدا ہو گیا تو آدمی بدگمان ہوتا ہے کے میرے خلاف سازش کی گئی، کاروبار میں نقصان ہو گیا تو دوسرے کاروباری سے بدگمانی کے یہ سب اسی کا کیا دھرا ہے، دعا میں اگر رقت طاری ہوگئی تو بدگمانی کے دکھاوے کے لیے رورہا ہے، گھر سے کوئی چیز غائب ہوگئی تو کام کرنے والے سے بدگمانی کے اسی نے چرائی ہوگی، قانونی رکاوٹ کی وجہ سے کسی نے کام نہیں کیا تو بدگمانی کہ رشوت چاہتاہے، کسی نے آتے وقت توجہ نہ دی تو یہ گمان کہ بڑا کھمنڈی ہے، رشتہ بنتے بنتے رہ گئی تو یہ گمان کہ ہمارے پڑوسی نے کچھ لگا بجھا کیا ہوگا، بہو نے دعا لمبی کردی تو ساس کو گمان کے کام کرنے کے ڈر سے لگی ہے، یا میرے لیے بد دعا کر رہی ہے، بہو ہی کی طرف توجہ تھوڑی کم ہوئی تو ساس سے بدگمانی کے شوہر کے کان ساس نے بھر دیے، قرض لینے والے سے رابطہ نہ ہو سکا تو یہ گمان کہ ہمارا روپیہ کھا گیا، کسی کو آنے میں تاخیر ہوئی تو بدگمانی کے وعدہ کرکے مگر گیا، ویزا ٹکٹ کے روپے جس کو دیے تھے وہ نہیں مل رہا تو یہ گمان کے روپے لے کر بھاگ گیا، کامیابی پر کسی نے مبارکباد نہیں دی تو یہ گمان کہ ہم سے جلتا ہے یہ اور اس قسم کی دوسری بدگمانیاں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے، کبھی مصنوعی افواہ کے ذریعہ لوگوں کے قلوب میں بد گمانی کا بیج ڈال دیا جاتا ہے، تاکہ اپنی طہارت ، پاکیزگی کا پرچم بلند کیا جا سکے، حالاں کہ ایسے ہی لوگوں کے لیے شاعر نے کہا ہے۔
اتنا نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
ادارے، تنظیموں ، جماعتوں میںبدگمانی کی یہ بیماری عام ہے، ہر ڈگر ہر نگر ایک سا حال ہے،کسی ملازم اورکارکن کو خوش حال دیکھ لیا تو یہ گمان کہ ضرور کہیں ہاتھ مارا ہے، اس کا بڑا نقصان سماجی طور پر ہوتا ہے۔ آپ نے کسی کے بود وباش ، تھاٹ باٹ ، مکان ودوکان کے بارے میں لوگوں کو کسی خاص شخص کے بارے میں بدنام کر دیا، اس کے تو بڑے مکانات ہیں، گاڑیاں ہیں، اور تنخواہ تو اقل قلیل ہے، اب لوگ بد گمان ہو گیے کہ ضرور مدرسے، مسجد ادارے کی رقم مارا ہے، یہ بدگمانی بعض لوگوں نے پھیلائی اور جس طرح واقعہ افک میں بعض مسلمان بھی اس کو ماں بیٹھے تھے، ویسے ہی عوام کے ساتھ خاص ادارے کے ذمہ دار بھی بد گمانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اسی بدگمانی سے روکنے اور غلط خبروں کی تشہیر سے بچنے کے لیے اللہ رب العزت نے سورة الحجرات کی آیت نمبر چھ میں فرمایا کہ اگر تمہارے پاس کوئی شریر آدمی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرلو، اس لیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انجانے میں کوئی تکلیف پہونچا دو اور بعد میں اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔
لیکن صورت حال اس قدر خراب ہے کہ کوئی تحقیق کی زحمت نہیں گوارا کرتا اور آنکھ بند کرکے کان میں جو کچھ ڈال دیا گیا، اسے مان لیا ، حالاں کہ جن ظاہری امور کی وجہ سے وہ بدگمانی میں مبتلا ہوا ہے اس کی تحقیق کرلیتا تو اس نتیجہ تک پہونچنا بہت آسان تھا کہ متعلقہ شخص کے پاس آمدنی کے دوسرے اور بھی ذرائع ہیں، ہو سکتا ہے وہ زمیندار ہو، ممکن ہے اس نے گھر زمین بیچ کر ہی بنایا ہو ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے خاندان کے دوسرے لوگ بڑی بڑی تنخواہوں پر کام سے لگے ہوں، خاندان میں آپسی تعاون کا مزاج ہو اور دوسرے بیٹے اور بھائیوں نے اس ترقی میں ہاتھ بٹایا ہو، خاندان کے لوگ ملک سے باہر کما رہے ہوں اور ان کی یافت اس قدر ہو کہ وہ ٹھاٹھ باٹ کی زندگی گذار سکتے ہوں، اور اگر اس کا شمار اہل اللہ میں ہوتا ہے تو ہدیہ، نذرانہ کی آمدنی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ، مساجد کے ائمہ اور مدارس کے اساتذہ کی بود وباش کا بڑا حصہ ہدیہ ، نذرانہ، قاضیانہ وغیرہ سے ہی آجاتا ہے اور وہ اس قدر ٹھسے سے زندگی گذار تے ہیںکہ لاکھ روپے کمانے والا اس معیار کے ساتھ زندگی نہیں گذار تا، اب لوگوں کو تجسس ہوتا ہے کہ تنخواہ تو ہم پانچ ہی ہزار دیتے ہیں، یہ اس قدر معیاری زندگی کس طرح گذارتا ہے، ظاہر ہے اس نے کسی کی جیب نہیں کاٹی ہے، یہ اللہ کے کلام کے دربان ہونے کی برکت ہے کہ قلیل تنخواہ کے باوجود اللہ اس کی ساری ضرورتوں کی کفالت کرتا ہے، اور اسے ایک معیاری زندگی نصیب ہوتی ہے، اس لیے لوگوں کے کہنے سے بدگمان نہیں ہونا چاہیے، تحقیق کرنی چاہیے، تاکہ سب لوگ بدگمانی کے گناہ سے بچ سکیں اور آپس میں سماجی آہنگی قائم رہے۔
کیوں کہ بدگمانی ام الامراض ہے یہ بہت سارے گناہ کا سبب بنتی ہے، گھر ، خاندان، میاں بیوی کے تعلقات سب پر اس کے بُرے اثرات پڑتے ہیں، اگر یہ بدگمانی ادارے، تنظیموں اور جماعت کے ذمہ داروں کے دلوں میں پیدا ہوجائے تو اعتماد کی فضا ختم ہوجاتی ہے اور انفرادی فعل پوری تحریک پر اس طرح اثر انداز ہوجاتا ہے کہ بہت سے تحریک سے ہی برگشتہ ہو کر دامن جھڑا لیتے ہیں