حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒکی سیاسی زندگی wali Rahmani ki siyasi zindagi
امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی ؒ (ولادت 5؍جون 1943ء وفات 3؍اپریل 2021 ء ) امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی ؒ (1991ء ۔ 1912ء )بن قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری ؒ کی شخصیت ہمہ جہت اور خدمات کے اعتبار سے متنوع تھی ،ان کی خدمات کا بڑا میدان ملی اور سیاسی تھا ،وہ ملی کاموں کو آگے بڑھانے اور مقاصد تک پہونچانے کے لئے سیاست کا سہارا لیتے تھے ،ان کے ہاتھ میں ٹیڑھا میڑھا ڈنڈا ہوتا تھا ،جب سیدھے سے کام نہیں نکلتا تو وہ ٹیرھے میڑھے ڈنڈے کا استعمال کر کے بھی کام نکلوانے کی صلاحیت رکھتے تھے ،رائٹ ٹو ایجو کیشن کے مسئلے پر وہ مرکزی وزیر قانون کپل سبل سے بھڑ گئے تھے ،اور بالآخر کپل سبل کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور مکاتب، گروکل اور پاٹھ شالوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ،اور مسلمانوں کے بنیادی تعلیمی ڈھانچے کا تحفظ ممکن ہو سکا ۔
مولانا محمد ولی رحمانی ؒ کو سیاست اپنے نامور والد سے ورثہ میں ملی تھی ،ان کے والد امیر شریعت رابع انڈپنڈنٹ پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر اسمبلی پہونچے تھے ،انگریزوں کے عہد حکومت میں مسلم لیگ اور کانگریس کی رسہ کشی کے درمیان ایک نئی پارٹی سے کھڑے ہو کر اسمبلی پہونچنا معمولی کام نہیں تھا ،مولانا منت اللہ رحمانی ؒ نے اس غیر معمولی کام کو کر دکھایا ،اس زمانہ میں خانقاہ رحمانی مونگیر مجاہدین آزادی کا مرکز بنا ہوا تھا اور ہینڈ بل ،پمفلٹ وغیرہ کی طباعت کے لیے وہاں ایک چھوٹی مشین ہوا کرتی تھی ،سیاسی لوگوں کی مسلسل آمد و رفت کی وجہ سے خانقاہ میں پروان چڑھ رہے اس بچے کے ذہن و دماغ میں بھی سیاسی رنگ جا گزیں ہوتا رہا ،آزادی کے وقت امیر شریعت سابع کی عمر صرف چار سال تھی ،یہ عمر شعور کی نہیں ہوتی ،لیکن اللہ رب العزت نے جو ہمیں حواس خمسہ ظاہرہ اور حواس خمسہ باطنہ دیا ہے وہ کسی بھی عمر میں ماحول کے اثرات کو قبول کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے ،آزادی کے بعد بھی نقل مکانی اور قتل و غارت گری کا جو سلسلہ شروع ہوا ،اس نے اس بچے کے ذہن و شعور کو متأثر کیا ،اوراس نے اپنے والد کی سیاسی جد و جہد اور ملی مسائل کے لئے ان کے طریقۂ کار کو قریب سے سمجھا ،دیکھا اور سیکھا ،مولانا نے محسوس کیا کہ جمہوری ملک میں باعزت زندگی گزارنے کا طریقہ سیاست کی گلیاروں سے ہو کر گذرتا ہے ،وہاں رہ کر اپنے اثر و رسوخ سے ملت کے بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور حل کئے جا سکتے ہیں،چنانچہ سیاسی میدان میں اپنے قدم جمانے کے لئے وہ کانگریس پارٹی سے منسلک ہو گئے اور اس پلیٹ فارم سے پوری حساسیت اور سیاسی شعور کے ساتھ کام کرنے لگے ،سیاست میں مضبوط حصہ داری اور سرگرم رہنے کی وجہ سے کانگریس کے لیڈران ان کی بڑی قدر کرتے تھے ۔
ایمرجنسی کے رست و خیز سے پہلے 2؍جولائی 1973 ء کو عبدالغفور صاحب کانگریس پارٹی کی طرف سے بہار کے وزیر اعلیٰ بنے،ان کی نگاہ اس بانکے سجیلے جوان پر ٹک گئی ،جس نے سیاست کی خار دار وادیوں میں اپنی ایک شناخت بنا لی تھی ،انہوں نے گورنر کوٹے سے امیر شریعت سابع ؒ کو پہلی بار ودھان پریشد پہونچا دیا ، رام چندر دھون دیبا بھنڈارے 4؍فروری 1973 ء کو بہار کے آٹھویں گورنر بن کر آئے تھے ،انہوں نے وزیر اعلیٰ کی سفارش کو قبول کر لیا ،اور مولانا کو 8؍ مئی 1974ء کوایم ال سی نامزد کر دیا ، اس کے بعد بہار کی سیاست میں بھونچال آیا ،ایمرجنسی کے اثرات پڑے ،1977 ء کے انتخاب میں مرکز میں اندرا گاندھی کی حکومت ختم ہوئی ، راج نرائن نے انہیں رائے بریلی سے شکست فاش دی ،جے پرکاش نرائن کنگ میکر بنے،بہار کی عبدالغفور حکومت بھی جے پی اندولن کی بھینٹ چڑھ گئی ،مرکزی حکومت نے صدر راج لگا دیا ،یہ سب ہوتا رہا ،لیکن مولانا نے 6؍مئی 1980ء تک اپنی میقات مکمل کر لی ،اس دوران آپ نے مختلف برسوں میں وزیر اعلیٰ کے طور پرجگن ناتھ مشرا کے دو میقات کو دیکھا ،1977ء کے انتخاب میں جنتا پارٹی برسر اقتدار آئی تو کرپوری ٹھاکر اور ان کے بعد رام سندر داس نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ،آپ کا تعلق چونکہ کانگریس پارٹی سے تھا ،بلکہ کہنا چاہئے کہ جب کانگریس تقسیم ہوئی اور اندرا گاندھی کی قیادت والی پارٹی کو کانگریس آئی کا نام دیا گیا تو مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کانگریس آئی خیمے میں چلے گئے ،جگن ناتھ مشرا کے وزیر اعلیٰ کی تیسری میقات 14؍اگست 1983ء کو ختم ہوئی ،اور چندر شیکھر سنگھ جو خود بھی ایم ایل سی رہے تھے ،وزیر اعلیٰ کی کرسی پر 14؍اگست 1983ء کو قابض ہوئے تو انہوں نے دوسری بار مولانامحمد ولی رحمانی کو باضابطہ انتخاب کے ذریعے ودھان پریشد تک پہونچا یا ،یہ میقات 6؍مئی 1990ء کو اختتام پذیر ہوئی ،اور 7؍مئی 1990ء کو آپ سہ بارہ ایم ایل سی چن لئے گئے ،اور 6؍مئی 1996ء تک ایم ایل سی رہے ،اس پوری مدت میں آپ نے کئی وزراء اعلی کا دور دیکھا،چندر شیکھر کے بعد علی الترتیب بندیشوری دوبے ،بھگوت جھا آزاد ،ستندر نرائن سنگھ ،جگن ناتھ مشرا اور لالو پرشاد یادو کے دس سالہ دور اقتدارمیں سیاسی اقدار کو بدلتے دیکھا ،لالو پرشاد یادو 10؍مارچ1990ء کو وزیر اعلیٰ بنے تھے،اور دوسری میقات میں 25؍جولائی 1997ء تک بر سر اقتدار رہے ،اس کے بعد وزیر اعلیٰ کی کرسی لالو پرشاد یادو کے آنگن میں چلی گئی اور رابری دیوی وزیر اعلیٰ بنیں ،یہیں سے سیاست میں لالو ازم کا دور شروع ہوا ،جس کا مطلب یہ ہے کہ کرسی تو بیوی کے پاس ہوتی ہے ،استعمال اس کاشوہر کرتا ہے ،لالو ازم کی وجہ سے ہی بیوی مکھیا ،میئر ،ڈپٹی میئر ،سرپنچ وغیرہ ہوتی ہے اور سارا کام اس کا شوہر کرتا ہے،بلکہ سماج میں بیوی کو کم شوہر کو اس منصب کے حوالہ سے زیادہ جانا جاتا ہے ،کیوں کہ بیوی تو نام کی ہوتی ہے ،خواتین کے لئے محفوظ سیٹوں کی مجبوری ہوتی ہے ،جیت کر تو وہ شوہر کے بل پر ہی آتی ہے ۔اس لئے کرسی آنگن میں ہوتی ہے ،اور اقتدار سارا دروازہ پر شوہر کی شکل میں ہوا کرتا ہے ۔
مولانامحمد ولی رحمانی کے ایم ایل سی کی مدت لالو پرشاد کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے ختم ہو گئی ،اس کے بعد سے کانگریس برسراقتدار نہیں آئی اور مولانا اس کے بعد ایم ایل سی نہیں منتخب ہوئے ،اپنے ایم ایل سی کے عہد میں دو مرتبہ انہیں ودھان پریشد کے نائب صدر (ڈپٹی چیئرمین) بننے کا بھی موقع ملا،لیکن یہ انتہائی قلیل مدت کے لئے تھا ،پہلی بار وہ 29 ؍ جنوری سے 30؍جولائی 1985ء تک صرف چھ ماہ اور دوسری بار 23؍جنوری 1990ء سے 6؍مئی 1990ء تک تین ماہ سے کچھ زیادہ دن تک ودھان پریشد کے نائب صدر کی حیثیت سے کام کیا ۔
ایم ایل سی کی تیسری میقات ختم ہونے کے بعد مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے اپنے کو سرگرم عملی سیاست سے دور کر لیا،لیکن ایک طویل عرصہ تک سرگرم سیاسی زندگی میں انہوں نے بہت سارے اتار چڑھاؤ دیکھے ،خود بھی نشیب و فراز سے گزرے ،اس کی وجہ سے ان کی پکڑ سیاست دانوں پر آخر تک باقی رہی ،وہ ایک ماہر سیاست داں کی طرح جانتے تھے کہ سیاسی بساط پر کس ’’مہرے ‘‘کو کیسے پیٹاجاتا ہے ،اور کس طرح مہرے سے بساط پر’’ شاہ‘‘ کو اس طرح گھیرا جا سکتا ہے کہ ’’بادشاہ‘‘ کے’’ شہ‘‘ سے نکلنے والے ارد گرد کے تمام قریبی خانے مخالف مہروں کی زد پر ہوں اور کوئی صورت ’’بادشاہ‘‘ کے لئے ’’شہ ‘‘سے نکلنے کی باقی نہ رہے تو’’ بادشاہ‘‘ کی’’ شہ‘‘ مات ہو جائے گی ،انہیں خوب معلوم تھا کہ’’ بادشاہ‘‘ کو براہ راست نہیں ماراجا سکتا ،انہیں بساط کے سارے سولہ مہروں ایک بادشاہ ،ایک وزیر ،دو فیلے،دو گھوڑے ،دو رخ اور پیادوں کا استعمال خوب آتا تھا ،کس ’’پیادے‘‘ کو کب کس کام پر لگا دینا ہے اور اس سے کیا نتیجہ بر آمد ہوگا وہ اپنی سیاسی بصیرت سے تاڑ لیتے تھے اور اس کا استعمال وہ بڑی فن کاری کے ساتھ کیا کرتے تھے اور کبھی ناکام نہیں ہوتے تھے ،بلکہ کبھی کبھی تو وہ بعض مہرے کو اس طرح استعمال کر لیتے تھے کہ ’’بادشاہ‘‘ ’’وزیر‘‘ سے مات کھا جاتا تھا ،اور ’’پیدل‘‘ ’’ فیل‘‘ کو رگڑ دیا کرتا تھا ،یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی ،فلسفہ کی زبان میں کہیں توکہنا چاہیے کہ وہ ’’سیاست مدن‘‘ کے جملہ اقسام اور اس کے طریقہ ٔ کار سے واقف تھے ،اور موقع دیکھ کر سیاسی ؛بلکہ غیر سیاسی معاملات میں بھی اس کا استعمال فنی مہارت کے ساتھ کیا کرتے تھے،اس مہارت کی وجہ سے غیر سیاسی میدان میں بھی ان کی عظمت کا ڈنکا بجتا تھا اور ماہر سیاست داں بھی ان سے مشورے لیا کرتے تھے ۔ وہ بے باک اور جری تھے ،سیاسی اور ملی مسائل ومعاملات پر جس جرأ ت اظہار کے وہ مالک تھے وہ خالص سیاسی لوگوں میں تو مفقود ہے ہی ،دوسرے شعبۂ حیات سے منسلک لوگوں میں بھی اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ،انہوں نے بابری مسجد انہدام کے بعد برپا ہونے والے فساد پر ایک انٹرویو میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ممبئی بم دھماکہ نے فساد کی اس نئی لہر کو قابو میں کیا ،ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا اس میں پاکستان کا ہاتھ ہے تو فرمایا کہ’’ اگرہم 1971ء میں مشرقی پاکستان میں کاروائی کر سکتے ہیں تو یہ ناممکن نہیں کہ ممبئی حادثہ میں پاکستان کا ہاتھ ہو،دوسروں کے گھروں میں تاک جھانک کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے آنگن پر بھی نگاہ جمائی جا سکتی ہے ‘‘۔
ان کے جرأت اظہار کا ایک واقعہ وہ بھی ہے ،جب انہوں نے 23؍نومبر 2012ء کو مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے صدسالہ اجلاس میں وزیر اعلیٰ بہار کو کھری کھری سنائی تھی اور وزیر اعلیٰ منہ دیکھتے رہ گئے تھے ،اس بے باکی کا چرچا کافی عرصے تک سیاسی گلیاروں میں رہا،وزیر اعلیٰ کو مدرسہ شمس الہدیٰ کے لئے اس موقع سے جن ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کرنے والے تھے،اس سے باز رہے اور خبر گرم تھی کہ مولانا محمد قاسم بھاگلپوری رحمۃ اللہ علیہ کو جو ان دنوں مدرسہ کے پرنسپل تھے ،سبکدوشی کے بعد دو سال کی مزید مدت کار فراہم کرائی جائے گی وہ بھی نہیں ہوا۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی ؛بلکہ 15؍ اپریل 2018ء کو تاریخی ’’دین بچاؤ دیش بچاؤ ‘‘کانفرنس بھی حضرت رحمہ اللہ کی زیر صدارت ہوا ،وزیر اعلیٰ نے اس کانفرنس کے اثرات کو سبوتاز کر نے کا کام کیا، جتنی بڑی بھیڑ جمع ہوئی تھی اور جو پیغام مسلمانوں کو دیا گیا تھا اس پر شکوک و شبہات کی ایسی لکیر وزیر اعلیٰ نے کھینچی جس کو مٹانے کی کوئی صورت باقی نہیں رہی اور جس کی تلافی لاکھ وضاحت کے بعد بھی نہیں ہو سکی ۔
بھاجپا کی گونگی ،بہری سرکار میں بھی مولانا نے ملی مسائل کو حل کرانے کے لئے بڑی جد و جہد کی ،امارت شرعیہ ،مسلم پرسنل لا بورڈاور خانقاہ رحمانی( جس کے وہ علی الترتیب امیر شریعت ،جنرل سکریٹری اور سجادہ نشین تھے) کی افرادی قوت کو بھی کام پر لگایا ،سی اے اے ،این آر سی کے مسئلے کو پہلے سے بھانپ لیا ،تین طلاق کے لئے خواتین کو سڑکوں پر لائے اور دستخطی مہم چلوائی،بابری مسجد مقدمہ کی کامیاب پیروی میں لگے رہے ،لیکن تقدیر کا لکھا پورا ہوا ، سی اے اے ،این آر سی قانون بن گیا،اب اس کے لئے ضابطہ بنانے کی مدت میں تیسری بار توسیع ہوئی ہے ،تین طلاق کو عدالت نے غیر قانونی اور قابل سزا جرم سقرار دے دیا اور بابری مسجد سارے دلائل حق میں ہونے کے باوجود ہاتھ سے نکل گئی اور وہ جو شاعر نے کہا ہے نا ؎
بدلتی ہے جب ظالم کی نیت
نہیں کام آتی دلیل اور حجت
وہی ہوا ،اس طرح مولانا کی آخری زندگی متواتر ان المناک حادثوں کی وجہ سے انتہائی بے چینی اور کرب میں گزری ،بے چینی ملت کی پریشانی اور کرب آنے والے ہندوستان کے نئے خد و خال کی وجہ سے تھی ،جس میں ہندتوا آگے بڑھتا جا رہا تھا،مسلمانوں کا موب لنچنگ ہو رہا تھا اور کوئی طریقۂ کار سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سیاسی گلیاروں سے اٹھ رہے اس طوفان بلاخیز کو کس طرح روکا جائے، صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ مولانا دل کے مریض تھے ،اس کے باوجود ۔ع
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا