یونیفارم سول کوڈ کے نقصانات uniform civil code ke nuqsan
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ
دستور کے رہنما اصولوں میں سے ایک دفعہ 44 کا سہارا لے کر حکومت ہند یو سی سی لانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے- وزیر اعظم نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ایک ملک دو قانون کے ذریعہ نہیں چل سکتا، حالاں کہ ہمارے تجربات و مشاہدات تو یہی کہتے ہیں کہ ہندوستان سارے پرسنل لاز کے ساتھ ہی پہلے ترقی پذیر اور پھر ترقی یافتہ ملک کے زمرے میں آیا- مختلف مذاہب کے لوگوں نے اپنے اپنے پرسنل لاز کے ساتھ ملک کو ترقی کی راہ پر لگایا- سب متحد رہے تو ملک کی سا لمیت محفوظ رہی- اب حکومت کو لگتا ہے کہ ایک ملک کو ایک ہی قانون چاہیے تویہ ہمارے تجربات و مشاہدات کے بالکل بر عکس ہے۔ اس کے نفاذ سے دستور کے بنیادی حقوق کے دفعات کالعدم ہوجائیں گے۔ جس کی وجہ سے ہندوستان کے عام شہریوں میں بے چینی بڑھے گی اور اس کے نتیجے میں ملک کی یک جہتی اور سالمیت کو غیر معمولی نقصان پہونچے گا- یہ دستور کے خلاف بھی ہوگا کیونکہ دفعہ 44 کی حیثیت صرف مشورے کی ہے اور اس کی حیثیت دستور کے ان دفعات سے بالکل الگ ہے جو ہمارے قانون کا حصہ ہے، کیوں کہ رہنما اصول کے ذریعہ بنیادی دفعات پر تیشہ نہیں چلایا جا سکتا، یہی وجہ ہے کہ عدالتیں اس دفعہ کا تذکرہ تو کرتی ہیں، لیکن اس کے سہارے کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتیں- اس بنیادی نکتہ کی طرف اگر آپ کی توجہ مبذول ہو گئی ہو تو سمجھنا چاہیے کہ یونی فارم سول کوڈ کے خلاف لا کمیشن کو رائے بھیجنا در اصل ہندوستان کے دستور اور یک جہتی سے جڑا ہوا ہے، جسے ہم کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔
یونی فارم سول کوڈ نافذ ہونے سے یہاں کی رنگا رنگ تہذیب متاثر ہوگی- یہاں ہر مذہب کی اپنی ایک تہذیب ہے- زندگی گذارنے کا اپنا طریقہ ہے- یہ معاملہ کا لر اوربے کالر کرتے کے انتخاب کا نہیں ہے- یہ معاملہ اس سطحیت سے بہت اوپر کا ہے- یونی فارم سول کوڈ سب کچھ بدل کر رکھ دے گا- کئی لوگ اس کے اثرات کو عائلی معاملات و مسائل تک محدود سمجھتے ہیں- یہ قطعا صحیح نہیں ہے- بغیر یونی فارم سول کوڈ کے مسجد کے باہر تک صفیں لگنے پر ایف آئی آر درج ہو رہا ہے- جیل کی سزائیں دی جا رہی ہیں- کئی جگہ مائیک سے اذان دینے پر پابندی ہے، بعض جانور کے ذبیحہ پر پابندی ہے اور اس کے گوشت پائے جانے کا الزام لگا کر ماب لنچنگ ہو رہی ہے- ایسے میں یونی فارم سول کوڈ ہماری عبادت اور خورد و نوش کو بھی متاثر کر دے گا، جو غیر اعلانیہ طور پر ابھی بھی کم نہیں ہے۔
یہ نکاح کے نظام کو متاثر کرے گا- ہمارے یہاں لڑکے لڑکی جس عمر میں بالغ ہو جاتے ہیں ان کی زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ سال ہے- ماحول اور موبائل کا کثرت سے استعمال اس سے بہت پہلے ان دنوں بچے بچیوں کو بلوغیت کے مرحلہ تک پہونچا دیتا ہے- ایسے میں یونی فارم سول کوڈ میں کم سے کم کورٹ میریج اور اس کے رجسٹریشن کو لازم کیا جائے گا- اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی یونی فارم سول کوڈ میں جرم ہونے کی وجہ سے ہو نہیں سکے گی اور تاخیر کی وجہ سے جو مفاسد پیدا ہوں، اس کا مشاہدہ لوگ کھلی آنکھوں کر رہے ہیں- شریعت نے بعض حالات میں بلوغیت سے قبل بھی صغر سنی میںولی کی اجازت سے نکاح کی اجازت دی ہے- یہ حکم نہیں اجازت ہی ہے، لیکن اس اجازت کو ساقط کرنے کا کسی انسان کو کس طرح اختیار دیا جا سکتا ہے- یہی حال چار شادی کی اجازت کا ہے جو انصاف کی قید کے ساتھ قرآن میں مذکور ہے، بیک وقت چار بیویاں رکھنے والے ہندوستان میں شاید باید ہی ہوں ، لیکن یہ اجازت قرآن کریم میں مذکور ہے اسے کوئی انسان کس طرح ساقط کر سکتاہے۔ہمارے یہاں دو دھ شریک بھائی بہن میں شادی حرام ہے، یو سی سی کی نظر میں یہ تو کوئی ایسی بات نہیں، جس سے رشتہ کرنے میں خلل واقع ہو، بچے کی پرورش وپرداخت کی ذمہ داری کن حالات میں کس کی ہے، شریعت میں سب مقرر ہے، یو سی سی اس کو بھی بدل کر رکھ دے گا۔بچے کتنے ہوں گے اس کا فیصلہ حکومت نہیں کرے گی ،
یو سی سی آئے گا تو دویا تین بچے کی ہی اجازت ہوگی ، زیادہ کے خلاف پہلے بھی آواز اٹھتی رہی ہے ، لیکن یو سی سی اس پر کلیۃً پابندی لگا دے گا، آپ کا حق چلا جائے گا، شادی کے بعد طلاق کا حق یو سی سی میں دو طرفہ ہوگا اور اصلاً فیصلہ عدالت کرے گی اور جج کے فیصلہ سے طلاق نافذ ہوگا، اگر طلاق مرددے گا تو یا تو وہ نافذ العمل نہیں ہوگا ، کیوں کہ یو سی سی کے مطابق دونوں چاہیں گے تب طلاق واقع ہوگی، چلیے مان لیتے ہیں کہ طلاق ہو بھی جائے تو یو سی سی آپ کو مطلقہ عورت کو تا زندگی یا تا نکاح ثانی گذارہ بھتہ دینے پر مجبور کردے گا، حالاں کہ عورت کا نفقہ نکاح کی وجہ سے مرد کے ذمہ تھا، اب وہ اس کی بیوی نہیں ہے تو نفقہ شوہر کیوں دے ؟ اس کو یہ کہہ کر رد کر دیا جائے گا کہ اب وہ کہاں جائے گی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس کا شوہر مرجاتا تووہ کہاں جاتی جو لوگ اس کو دیکھتے اس کی خبر گیری کرتے وہی اس کو دیکھیں گے، اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے، شریعت نے اس سلسلہ میں واضح کر دیا ہے کہ اگر اس عورت کے پاس مال ہوتا تو جس تناسب سے وارثوں کو ملتا اب اس کے پاس مال نہیں ہے تو وہ سب ملنے والے مال کے تناسب سے اس کی کفالت کریں گے۔ عورت طلاق یا شوہر کے مرنے کے بعد عدت گذارتی ہے یو سی سی میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہوگی، طلاق کے بعد عورت نے کسی دوسرے مرد سے شادی کیا ، نباہ نہیں ہوا اور وہ پھر سے پہلے شوہر سے شادی کرنا چاہتی ہے تو اسے حلالہ کہہ کر رد کر دیا جائے گا۔
یو سی سی سے ترکہ کی تقسیم کا عمل بھی متاثر ہو گا، ان کے نزیک لڑکا لڑکی برابر ہیں، اس لیے حصہ بھی برابر دینا ہوگا، دو اور ایک کا فارمولہ نہیں چلے گا، جو انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہوگا، اس لیے کہ سارا مالی بوجھ لڑکوں پر ہوگااور حصہ ذمہ داری کی ادائیگی کی بنیادہیں پر فرضی مساوات کے نام پر قائم ہوگا۔یتیم پوتے اور گود لیے ہوئے بچوں کو بھی حصہ دینا ہوگا، اس کے لیے شریعت میں وصیت کا مضبوط نظام ہے اور ایک تہائی تک وصیت کی گنجائش ہے، لیکن جسے ترکہ میں حصہ کہتے ہیں اسے نہیں ملتا ہے اس لیے کہ ان کو ترکہ میں حصہ دینے سے جن کے حصص قرآن میں مذکور ہیں ان میں کمی بیشی آئے گی اور یہ قرآنی حکم کے خلاف ہوگا۔ متبنی بنانے کی شکل میں یو سی سی کے ذریعہ حقیقی باپ کی جگہ گود لینے والے کو باپ قرار دیا جائے گا اور سارے کاغذات میں باپ کی جگہ غیر باپ کا نام درج ہوگا یہ تو ہمارے سماج میں گالی ہوا کرتی ہے، اور پوری زندگی یو سی سی کے نفاذ کے بعد اس لڑکے کو اس گالی کو ڈھونا پڑے گا۔ مرنے کے بعد آخری رسوم کی ادائیگی کے لیے یو سی سی میں کیا نظم ہوگا، ابھی یہ کہنا ذرا مشکل ہے، لیکن اتنی بات یقینی ہے کہ وہ طریقہ ہمارا والا طریقہ نہیں ہوگا، یہ بھی شریعت کے خلاف ہوگا کہ ہم مردوں کے دفنانے تک کے طریقہ سے دستبردار ہو جائیں گے۔
نقصان غیر مسلم بھائیوں کا بھی کم نہیں ہوگا، ان کے یہاں تو رسم ورواج مذہب سے زیادہ ذات کی بنیاد پر ہیں، علاقہ بدلنے سے ان کے دیوی دیوتا بدل جاتے ہیں، نظام زندگی بدل جاتا ہے، ناگالینڈ کے ایک قبیلہ میں لڑکا بیاہ کر لڑکی کے گھر جاتا ہے، جنوب میں بھانجی سے شادی کرنا اچھا سمجھا جاتا ہے، ہمارے علاقہ میں چچیرے، پھوپھیرے، ممیرے، خلیرے بھائی بہن کے درمیان بھی رشتہ نہیں ہوتا، ان کے یہاں ہر برادری میں مختلف انداز کی روایت پائی جاتی ہے، جس سے وہ بھی دست بردار نہیں ہو سکیں گے، کیوں کہ محققین ہندو کو مذہب کے بجائے طریقۂ زندگی ہی قرار دیتے ہیں ، یہ طریقہ زندگی بدلا تو ان کا سب کچھ بدل کر رہ جائے گا، ان کے یہاں پہلے سے رائج ہندو میریج ایکٹ وغیرہ پر بھی اچھی خاصی زد پڑے گی، ان کے یہاں عبادتیں بھی الگ الگ ریاستوں میں الگ الگ دیوی دیوتا ؤں کی ہوتی ہیں، مہاراشٹر میں عقیدت اورتوجہ کا مرکز ’’گنپتی‘‘ بہار میں چھٹ اور درگا پوجا، مغربی بنگال میں کالی پوجا کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، ہر گھر میں الگ الگ دیوی دیوتا پنڈت جی کے کہنے کے مطابق پوجے جاتے ہیں، یو سی سی میں ان کا کیا حشر ہوگا، قبل از وقت کہنا مشکل ہے۔اس طبقہ کو اطمینان ہے کہ یونی فارم سول کوڈ کے لفافے سے جو بر آمد ہوگا وہ ہندوؤں کے حسب حال ہوگا۔
سکھوں کا معاملہ اور گڑ بڑ ہوگا ان کے یہاں چار کاف کرپان، کڑا، کچھا اور کیش (بال) کی بڑی اہمیت ہے اور ان کو مذہبی شعار سمجھا جاتا ہے، اسی لیے ان کو ہوائی جہاز میں کرپان لے کر چلنے اور بغیر ہیلمیٹ کے پگڑی کے ساتھ بائیک چلانے پر کوئی دارو گیر نہیں ہے، جب کہ ہم سے سیکوریٹی کا حوالہ دے کر بلیڈ، قینچی وغیرہ تک لے لیا جاتا ہے، ہمیں ٹوپیوں پر ہیلمیٹ لگانے ہوتے ہیں، جب یو سی سی آئے گا تو ان کو بھی کرپان چھوڑ دینا پڑے گا، اور ہیلمیٹ پہننا ہوگا، ظاہر ہے سکھ قوم کو یہ منظور نہیں ہوگا، اور اس سے حکومت ہند کے ساتھ ان کے ٹکراؤ کی فضا بنے گی ۔اسی لیے دربار صاحب سے اعلان ہو گیا ہے کہ سکھ یونی فارم سول کوڈ کے سخت خلاف ہیں، ضرورت پڑی تووہ سڑکوں پرکرنے سے بھی باز نہیں آئیں گے۔
یہی حال عیسائی، پارسی، جینی، بدھسٹ وغیرہ کے ساتھ ہوگا، یو سی سی کہیں نہ کہیں ان کے اقدار کو بدل کر رکھ دے گا جو انہیں منظور نہیں ہوگا، جینیوں کے بعض مذہبی پیشوا ننگے رہتے ہیں، اسے قانون کے ذریعہ ختم کر دیا جائے گا، ہمارے نزدیک بھی ننگا رہنا کوئی اچھا کام نہیں ہے، لیکن جن کے مذہب میں یہ روا ہے وہ تو اس کے خلاف جائیں گے، اس سے ملک میں ٹکراؤ کی فضا پیدا ہوگی اور ملک کی سا لمیت انتشار کا شکار ہو کر رہ جائے گی۔
آدی باسیوں کے لیے یو سی سی صرف رسم ورواج کو بدلنے کا ذریعہ نہیں بلکہ اقتصادی طور پر ان کو کمزور کرنے کے مترادف ہے، کیوں کہ یو سی سی میں اس کی گنجائش باقی نہیں رہے گی ، یہی درج فہرست ذات اور فہرست قبائل کا ہوگا اس لیے یہ سب بھی یو سی سی کے خلاف ہیں۔اس طرح دستور ساز کمیٹی میں بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوگی کہ کوئی پاگل حکومت ہی اس طرح کا اقدام کرے گی، ہم اس حکومت کو پاگل نہیں کہتے، لیکن بابا صاحب کی رائے اس معاملہ میں واضح تھی اور ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان کی بات کو جھٹلا سکیںیا رد کر دیں ، کیوںکہ حالات وآثار تو کچھ ایسے ہی ہیں۔
حکومت خود سمجھتی ہے کہ اس کے اثرات کہاں کہاں پڑیں گے، اسی لیے حکومت نے عیسائیوں اور قبائل کو یونیفارم سول کوڈ سے الگ رکھنے پر گور شروع کر دیا ہے اس کا آغاز پارلیامنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگ میں بھاجپا کے لیڈر سوشل کمار مودی نے کیا تھا، انہوں نے شمال مشرق کے علاقے اور قبائل کو باہر رکھنے کی زبردست وکالت کی تھی، کیوں کہ ان علاقوں اور قبائل سے حکومت کو سخت رد عمل کا خوف ہے، اور اس پر کام قبائلیوں نے شروع کر دیا ہے،
ناگا لینڈ کے وزیر اعلیٰ نیفیوریو نے گذشتہ ۴؍ جولائی کو ۱۲؍ رکنی وفد کے ساتھ وزیر داخلہ امیت شاہ کے سامنے اپنا موقف رکھ دیا تھا، ناگالینڈ حکومت کی پریس ریلیز میں اس ملاقات کے نتیجہ کے طور پر امیت شاہ کا یہ جملہ نقل کیا گیاہے، حکومت عیسائیوں اور چند قبائلی علاقوں کو بائیسویں لاء کمیشن کے دائرہ کار سے باہر رکھنے کے لیے فعال طور پر کام کر رہی ہے۔ معاملہ صاف ہو گیا کہ جس طرح ۳۷۰؍ ختم کر دیا گیا تھا، سی اے اے، این آر سی میں سارے مذاہب کو مسلمانوں کو چھوڑ کر شہریت دینے اور مسلمانوں کو چُن چُن کر نکالنے کی بات کہی گئیتھی، اور ۲۷۱؍ کو باقی رکھ کر قبائلیوں کو مطمئن کیا گیا تھا، یوسی سی میں ایسا ہی کچھ ہونے والا ہے ۔ یعنی
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
مجبوری یہ ہے کہ وہ بے روزگاری، مہنگائی، افراط زر، اقتصادی نمو میں کمی ، گھریلو صنعتوں کو در پیش مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے، نو سال میں حکومت نے جو کچھ کیا ہے، اس کے سہارے وہ انتخاب ہیں کامیاب نہیں ہو سکتی، اس لیے یو سی سی کے انتخاب میں کامیاب ہونا چاہتی ہے یوں بھی بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے اور تین طلاق کو کالعدم کرنے کے بعد یو سی سی کے علاوہ کوئی مُدَّا اس کے پاس بچا نہیں ہے، اس لیے وہ اس ملک کے دستور کو ہی داؤ پر لگانے پر تُلی ہوئی ہے۔