محرم الحرام اور حالات حاضرہ | محرم الحرام پر مضمون | محرم پر مضمون
از قلم: مولانا احمد علی خان رضوی گیاوی، گیا، بہار
[ خطیب و امام جامع مسجد بھائی بیگھہ حیدر نگر، پلاموں، جھارکھنڈ، الھند
رابطہ کے لئے - 9955792885
محرم الحرام کا چاند نظر آتے ہی اسلامی نئے مہینے کا آغاز ہو جاتا ہے اور ہم ایک دوسرے کو مبارک بادی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں. اس مہینے کا استقبال و آغاز ہمیں اس طرح کرنا چاہیے کہ ہم سب سے پہلے اپنا محاسبہ کریں، گزشتہ سال اپنے ذریعے کیے گئے کاموں کا جائزہ لیں، اپنے اعمال کا، اپنے کردار کا محاسبہ کریں اور اس نئے سال میں اچھے کاموں کا عزم کریں، منصوبہ بندی کریں. اسلام کے بتائے ہوئے طریقے اور اصول پر اپنے آپ کو ڈھالنے کے لیے کمرہ بستہ ہوجائیں.
قارئین کرام ! پھر اسلامی نیا سال ہمارے درمیان آچکا ہے ماضی کی طرح یہ ایام بھی گزر جائیں گے یونہی ہم سب کی عمر بھی ایک نا ایک دن ختم ہوجائے گی اور بالآخر اس دنیا کو چھوڑ کر یہاں سے رخصت ہوجائیں گے.
لہٰذا ہم پر یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے اعمال و افعال کو درست کریں اور آخرت کی تیاری کریں.
ماہ محرم الحرام کی فضیلت:
ماہ محرم الحرام بڑی فضیلت و اہمیت کا حامل ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌؕ-[سورہ: توبہ - آیت: ٣٦ ]
ترجمہ:
بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں، جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ۔[کنزالعرفان]
اس آیت سے ثابت ہوا کہ سال کے بارہ مہینوں کا تقرر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے. اور چار مہینوں کو عظمت و بزرگی عطا فرمائی وہ مقدس، حرمت والے مہینے محرم الحرام، رجب، ذی القعدی اور ذی الحجہ ہیں.
امم سابقہ میں بھی یہ مہینے حرمت والے تھے. لہٰذا وہ بھی ان مہینوں کا احترام کرتے اور جنگ و جدال، قتل و غارت سے اجتناب کرتے. اسلام میں ان مہینوں کی عظمت و حرمت اور زیادہ کی گئ ہے.
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس ماہ میں ہم اچھے کام کریں، غریبوں، محتاجوں کی مدد کریں، قرآن مجید کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کریں، کثرت سے نوافل پڑھائیں، روزے رکھیں اور صدقہ و خیرات کریں.
یوم عاشورہ:
محرم الحرام کی دسویں تاریخ جو عاشورہ کہلاتی ہے. یہ بڑی عظمت و فضیلت والا دن ہے، جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدرتوں اور نعمتوں کی بڑی، بڑی نشانیاں ظاہر ہوئیں اور اس دن سے متعلق تاریخی واقعات کا ایک عظیم سلسلہ ہے.
نزهتہ المجالس میں حضرت شیخ عبدالرحمٰن صفوری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے :"اسی روز (یوم عاشورہ کو) آسمان و زمین، لوح و قلم کی تخلیق [پیدائش] ہوئی. حضرت آدم علیہ السلام وحضرت حوا رضی اللہ عنہا کو پیدا کیا گیا۔ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام مرتبہء خلعت سے سرفراز کیے گیے۔ چالیس سال بعد حضرت یعقوب علیہ السلام سے حضرت یوسف علیہ السلام کی ملاقات ہوئی ، اور آپ کی بینائی واپس ہوئی ۔ اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے ۔ حضرت ایوب علیہ السلام صحت یاب ہوئے ۔ حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے نکلے ۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو سلطنت عطا ہوئی ۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے اور اسی روز قیامت بھی قائم ہوگی ۔
[نزہۃ المجالس؛ ج: ١-ص:ط٥٩٦]
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا اللہ تعالی نے عاشورہ کے روزے کے ساتھ ہم کو بڑی فضیلت عطافرمائی؟ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: کہ ہاں ایسا ہی ہے کیوں کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے عرش و کرسی ، ستاروں اور پہاڑوں کو پیدا فرمایا ۔ لوح وقلم عاشورہ کے دن پیدا کیے گیے ۔ حضرت جبرئیل اور دوسرے ملائکہ علیہم السلام کو عاشورہ کے دن پیدا کیا۔ قیامت عاشورہ کے دن ہوگی ۔ آسمان سے سب سے پہلے بارش عاشورہ کے دن ہوئی ۔ جس دن آسمان سے پہلی مرتبہ رحمت نازل ہوئی وہ عاشورہ کادن تھا ۔
[غنیۃ الطالبين]
معرکہء کربلا:
مذکورہ تمام عظمتوں و رفعتوں کے ساتھ ساتھ یوم عاشورہ ایک تاریخی و یادگار دن اس لیے بھی بن گیا کہ اس دن آقائے دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نواسے، حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کے لخت جگر، شیر خدا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شہزادے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے رفقا نے کربلا کی تپتی ہوئی ریت پر جام شہادت نوش فرما کر پرچم حق کو سر بلند فرمایا ۔
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قربانیاں اور ان کی شہادت اسلام کی رگوں میں لہو بن کر دوڑ رہی ہیں ۔
امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کا تذکرہ عشرہء محرم الحرام میں مجالس و محافل منعقد کر کے خصوصی طور پر کیا جاتا ہے جس میں امام حسین کی حیات مبارکہ، فضیلت، شہادت کا تذکرہ کر کے اپنی شمع ایمان کو تیز کیا کرتے ہیں، ایمان کو جلا بخشتے ہیں.
اس سے ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کا درس ملتا ہے کہ انھوں نے باطل کے ہاتھ میں ہاتھ نہ دیا؛ لہٰذا ہم بھی امام حسین کے طریقے کو اپنائیں، اور اگر کبھی ضرورت پڑی تو اپنی جان تو دے سکتے ہیں لیکن باطل کے آگے جھک نہیں سکتے.
محرم الحرام میں رائج غلط رسومات اور ان کی اصلاح
صاحبوں ! محرم الحرام کے موقع پر معاشرے میں کئ ایک غلط رسومات اور من گھڑت واقعات نے جگہ بنالیا ہے، اس سلسلہ میں کچھ باتیں تحریر کی جارہی ہیں.
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات ع
[١] محرم الحرام میں شادیوں کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ اس مہینے میں شادی نہیں کرنی چاہیے. جو بالکل بے بنیاد بات ہے. کہیں سے بھی اس کی ممانعت ثابت نہیں ہے.
محرم کے مہینے میں نکاح کرنا جائز و درست ہے شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے ۔
جیساکہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محقق بریلوی علیہ الرحمہ رضی عنہ نے فتاوی رضویہ میں لکھا ہے کہ
" نکاح کسی مہینے میں منع نہیں"
(ج:11/ص:266/ کتاب النکاح/ رضا فائونڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور پاکستان)
[٢] کھانے میں مچھلی کے استعمال پر بھی گھروں میں پابندی لگا دی جاتی ہے، یہ بھی بالکل غلط ہے اور پرو پیگنڈہ ہے، اس کے استعمال کی ممانعت بھی کہیں سے ثابت نہیں ہے. اسی طرح اور بھی کئ چیزیں ہیں جن سے لوگ رکے رہتے ہیں، منع کرتے ہیں، اس طرح جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے جائز کی ہیں انھیں خود سے محرم کے مہینے میں ناجائز سمجھ بیٹھے ہیں.
یہ سب محض جہالت اور لاعلمی کا نتیجہ ہے.
[٣] بہت ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کسی پریشانی اور مصیبت کے وقت یہ منت مانتے ہیں کہ اگر ہم کو اس مصیبت یا بیماری وغیرہ سے نجات مل جائے. تو میں تعزیہ بناؤں گا، یا میرا یہ بچہ جنگاہا [پیک] میں دوڑ لگائے گا، اور اس طرح کے غلط منت مانگ کر پھر تعزیہ یا لڑکا کو جنگاہا باندھانا [پیک] کمر پر گھنٹی باندھ کر اور ہاتھ میں مرچھل یعنی مور کی پنکھ کا جھنڈ لے کر نگر نگر، ڈگر ڈگر، کئ بستیوں کا دوڑ لگاتے ہیں. یہ غیر شرعی امور انجام دیے جاتے ہیں، جبکہ کتابوں میں کہیں بھی اس طرح منت مانگنے کا تذکرہ نہیں ہے. منت مانگنا ہے تو اس کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اس طرح منت مانی جائے کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں ایک دن کی روزہ یا جتنے دن کی منت ماننی ہے مان لے جس طرح کے منت مانگنے کا حکم کتابوں میں ہے. اگر آپ کو معلوم نہیں ہے تو علماے کرام کی بارگاہ میں جا کر ان سے منت ماننے کا صحیح طریقہ سیکھنا چاہیے. غیر شرعی طریقے سے منت مانگ کر گنہگار نہ بنیں.
غیر شرعی طور پر منت کے حوالے سے کچھ لوگوں کی اصلاح کے غرض سے ہم لوگوں نے[راقم] ایک مرتبہ محرم کا مہینہ آنے سے پہلے اپنے احباب کے ساتھ ایسے نوجوانوں کی میٹنگ رکھی گئی اور انھیں سمجھانے کی کوشش کی، مگر اس کے باوجود یہ نہ سمجھے اور لوگ اس سے باز نہیں آئے. اس کی وجہ بنی کہ ان بچوں کی مائیں جنھوں نے، انھیں منت پوری کرنے کے لیے اس کام کو پورا کرنے کی بات کہی. اس معاملے میں مرد حضرات سے کہیں زیادہ عورتیں آگے ہیں، ہمیں عورتوں کی اصلاح کی بھی کوشش کرنی ہوگی کیوں کہ منت ماننے کا رواج عورتوں میں زیادہ ہے اور غیر شرعی طور پر منت مانگنا انھیں لوگوں کا کام ہے . مرد حضرات تو کچھ سمجھتے بھی ہیں مگر اس معاملے میں عورتیں سمجھنے کو تیار نہیں ہیں . لہٰذا عورتوں کے درمیان اس جاہلانہ رسم و رواج کو ختم کرنے اور انھیں منت مانگنے کا صحیح طریقہ بتانا ہوگا.
قارئین! آپ دیکھیں کہ ہر مقام پر تو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کا نعرہ لگایا جاتا ہے اور ان کے فرامین پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی جاتی ہے؛ لیکن محرم الحرام کے مہینے میں اسی امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کے بتائے ہوئے طریقے کے خلاف کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں.
اس مقام پر وہ اپنی طبیعت کی سنتے ہیں شریعت کی نہیں، جبکہ امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کربلا میں شریعت کو بچانے کے لیے اپنی اور اپنے جانثاروں کی قربانیاں پیش کیں، لیکن ہم ہیں کہ امام حسین کا نعرہ تو یوم عاشورہ کے دن لگا لگا کر اپنی آواز بٹھالیتے ہیں لیکن حقیقی طور پر حسینی ہونے کا ثبوت پیش نہیں کرتے.
جو لوگ تعزیہ کی منت مانگتے ہیں انھیں اعلیٰ حضرت کے اس فتوی کو دیکھنا اور پڑھنا چاہیے.
تعزیہ پر منت کے حوالے سے اعلیٰ حضرت کا فتوی ملاحظہ فرمائیں: "تعزیہ پر منت ماننا باطل اور ناجائز ہے"- (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
جلوس اور بے پردہ عورتوں کا ہجوم
دسویں محرم الحرام کے دن جلوس نکالا جاتا ہے جس میں بہت سارے غیر شرعی کام کیے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس دن جلوس میں عورتیں اور جوان لڑکیاں شامل ہوتی ہیں اور بے پردگی کا مظاہرہ ہو رہا ہوتا ہے، کچھ تو ایسی ہوتی ہیں کہ جن کے سروں پر دوپٹہ نہیں ہوتا، چہرے تو کھلے ہی رہتے ہیں اور اس طرح نمائش کا کام ہوتا ہے.
جبکہ شریعت مطہرہ نے عورتوں کو پردے کا حکم دیا ہے، بے پردگی کے حوالے سے بھی سخت وعیدیں ہیں- اور پھر وہ کربلا جہاں پر خونی منظر تھا، جانثاران حسین اور خود امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ شہید کر دیے گئے ایسے موقع پر بھی خواتین اہل بیت بے پردہ نہیں نکلی.
ماں، بہنوں اور ان کے سرپرست حضرات سے بالخصوص موءدبانا التماس ہے کہ آپ سرپرستی کا حق ادا کریں اور ایسے جگہوں پر اپنی عورتوں اور بچیوں کو جانے سے روکیں. ورنہ آخرت میں ان کے ساتھ آپ کی بھی گرفت ہوگی.
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ[سورہ- تحریم- آیت:٦]
ترجمہ:
اے ایمان والو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں-
مجالس محرم اور کرنے کے کام
امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بارگاہ میں خراج تحسین پیش کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ ان ایام میں قرآن خوانی کا اہتمام کریں، غریبوں اور مسکینوں کی مدد کریں، اس طرح کے نیک کاموں میں حصہ لیں.
غیر شرعی امور کو روکنے کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ پانچ روزہ یا دس روزہ پروگرام "یاد امام حسین" کی نسبت رکھیں اور ان میں پورے حالات کربلا بیان کیے جائیں، آئمہ مساجد و دیگر علمائے کرام سے مشورہ کر کے اچھے اور کار آمد عناوین منتخب فرمائیں اور اس پر خطاب کے لیے آئمہ مساجد سے کہیں- جلسوں میں اچھے خطیب کا انتظام کریں جو عنوان کے تحت بول سکتا ہو، بازارو مقرر سے بھی بچا جائے، باصلاحیت علمائے کرام کا انتخاب کریں، ورنہ ایسا نہ ہو کہ کسی بازارو مقرر کا انتخاب کر کے یاد حسین کی جگہ وہ رات بھر آپ کو ہنسا ہنسا کر چل جائے، ایسے بازارو مقرر بھی مارکیٹ میں ہیں، ان سے بچنا ضروری ہے.
نیز علماے کرام موضوع رویات بیان کرنے سے بچیں مستند کتابوں سے ہی گفتگو کی جائے. کیوں کہ اکثر کتابیں شعیوں کی کتابوں سے لکھی گئی ہیں اور اس طرح غلط رویات و بیانات نے ہمارے درمیان جگہ بنا لی ہے، اس کی اصلاح کی ذمہ داری بھی علماے کرام کے سر ہے.
میں سمجھتا ہوں کہ اگر محرم الحرام میں اس طرح کی محفلوں کا انعقاد کیا جائے تو بہت ساری رائج غلط رسم و رواج کا خاتمہ ہو جائے گا اور صحیح چیزوں پر عمل. ان شاء اللہ
ہمیں اصلاح کے لیے کمر بستہ ہونا چاہیے اور جو جائز امور ہیں ان کو دل و جان سے کرنا چاہیے. پروردگار عالم ہمیں حق قبول کرنے، حق پر ثابت قدم رہنے اور حق کو عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
آمین یارب العالمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم