رشوت خوری پر مضمون | رشوت پر مضمون | Rishwat khori par mazmoon | Essay on Rishwat khori
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
سرکاری ”نیم سرکاری“ بلکہ بعض پرائیوٹ کمپنیوں میں بھی مواقع کا فائدہ اٹھانے اور مفاد کے حصول کے لیے رشوت دینا ہوتا ہے، سرکار جتنے اعلانات بد عنوانی کو ختم کرنے کے لیے کرتی، رشوت کا بازار اسی قدر گرم ہوتا ہے، سرکار کا اعلان رشوت اور بد عنوانی کے معاملہ میں عدم بر داشت کا ہے، لیکن اس اعلان کے باوجود سرکاری ملازم رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے جارہے ہیں، یہ ہندوستانی سماج کا المیہ ہے کہ جن کے اوپر قانون کی حفاظت کی ذمہ داری ہے، وہی قانون کی گرفت میں آرہے ہیں۔
بہت دن پہلے کی بات ہے ایک سرکاری دفتر میں ایک کام سے جانا ہوا، اتفاق سے وہاں ایک افسر میرے جان کار بھی تھے، میں نے ان سے اپنی پریشانی بتائی، انہوں نے از راہ ہمدردی متعلقہ کلرک کو بلا کر کام کر دینے کو کہہ دیا ، میں بہت خوش ہوا کہ اب کام ہوجائے گا ، کل ہو کرپھر دفتر پہونچا تو فائل وہیں کی وہیں تھی میں نے اپنے متعارف افسر کے پاس جاکر یہ صورت حال بتائی ، کہنے لگے، شِیَر نہیں ملا ہوگا، میں نے کہا: آپ کی سفارش کے بعد بھی اس کی ضرورت ہے، کہنے لگے، ہاں!میری سفارش کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ کا کام یقینی ہوگا، کوئی دھوکہ نہیں دے گا، رہ گئی ”دستوری“ تو وہ تو دینا ہی ہوگا، چنانچہ میں ناکام ونامراد وہاں سے واپس آگیا۔یہ معاملہ کسی ایک دفتر کا نہیں ، یہاں تو ہر نگر ہر ڈگر ایک سا حال ہے۔
بہت لوگوں کی رائے ہے کہ یہ پکڑ دھکڑ اور رنگے ہاتھوں بد عنوان افسروں کی گرفتای عوام کے بیدار ہونے کا نتیجہ ہے، مجھے یہ صحیح نہیں لگتا ، عوام جب کسی دفتر میں کام کرانے جاتی ہے اور اسے کل آنے کو کہا جاتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ دوبارہ آنے جانے ، رہنے، کھانے پینے میں اس سے زیادہ خرچ آجائے گا، چلو کچھ ”دستوری“ دے کر آج کے آج کام کرالوں، چنانچہ لینے والا تو انتظارہی میں رہتا ہے، دینے والے لوگوں کی بھی لائن کمزور نہیں ہوتی، یعنی دینے والا اور لینے والا دونوں بد عنوانی کے شریک ہوتے ہیں، گو ہندوستانی قوانین میں دینے والوں کو مجبور محض سمجھ کر سزا کے دائرہ میں کم ہی لایا جاتا ہے، لینے والا پکڑا گیا تو اس کی زندگی بھی تباہ نہیں ہوتی اور رشوت یہاں بھی کام کر تی ہے، اور مجرم آسانی سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں گنہگار ہے، اگر دینے والا اپنی حرکت سے باز آئے اور ایسا ماحول بنائے کہ رشوت خور بچ نہ پائے تو رشوت کی گرم بازاری پر قابو پایا جاسکتا ہے؛ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے اور لینے والے دونوں کو جہنم کی ”خوش خبری“ سنائی ہے، الراشی والمرتشی کلا ھما فی النار
بد قسمتی کی بات ہے کہ لوگوں کے دلوں میں رشوت کی بُرائی کا احساس باقی نہیں ہے ، اب تو اسے دفاتر میں ”سُوِیدھا شلک“ یعنی آسانی بہم پہونچانے کی فیس سے تعبیر کیا جاتا ہے، رشوت ایک سماجی لعنت ہے،نام چاہے اسے جو دے لیں، عام لوگوں کا کام اس کی وجہ سے دشوار تر ہوجاتا ہے، دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سرکاری افسران جن لوگوں سے خار کھائے بیٹھے رہتے ہیں، اگر رشوت نہ ملے تو جائز کام بھی نہیں کرکے دیتے ہیں۔
یقینا ایمان دار اور اچھے لوگوں سے دنیا ابھی خالی نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ ایمان دار افسر اور کلرک کام کرنے کے سلسلے میں بڑے سست واقع ہوتے ہیں، بد عنوان افسروں کے ٹیبل پر رشوت فائلوں کو دوڑادیتی ہے، لیکن ایمان دار افسر کے ٹٰیبل پر فائل کو رینگنے میں کبھی کبھی مہینوں لگ جاتے ہیں، رشوت نہ لینا ایک اچھی عادت ہے، لیکن کام میں تاخیر کرنا بُری عادت ہے، اس سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔