حج و عمرہ کے فضائل و اصلاحات | Virtues and reforms of Hajj and Umrah
شمشیر عالم مظاہرحجی دربھنگوی
امام جامع مسجد، شاہ میاں روہوا ویشالی، بہار
حج اسلام کا چوتھا رکن ہے اور ہر صاحب استطاعت پر حج فرض ہے- یہ کوئی ایسی اختیاری عبادت نہیں ہے کہ جو چاہے کرلے اور جو چاہے نہ کرے بلکہ جو شخص سفر اور رہائش وغیرہ کے اخراجات برداشت کر سکتا ہو اس پر حج کرنا لازم ہے- اسلام کی تکمیل کا اعلان حجۃ الوداع کے موقع پر ہوا اور حج ہی سے ارکان اسلام کی تکمیل ہوتی ہے- احادیثِ مبارکہ میں حج و عمرہ کے فضائل بہت کثرت سے ارشاد فرمائے گئے ہیں-
جب خانۂ خدا وند ی جلیل القدر پیغمبر ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کے ہاتھوں بن کر تیار ہو گیا تو خلیل خدا کو حکم ہوا ( اذن فی الناس بالحج ) لوگوں میں حج کی منادی کردو- آپ نے عرض کی کہ خدایا یہاں ہے کون میں کسے پکاروں- کون میری آواز سنے گا- جناب باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تم پکارو- میں تمہاری آواز زمین و آسمان تک پہنچا دوں گا- چنانچہ آپ نے مقام ابراہیم پر چڑھ کر آواز دی۔ لوگو تمہارے رب نے ایک گھر بنایا اور تم پر اس کا حج فرض کیا- تم اپنے رب کی دعوت قبول کرو۔ تمام درخت اور پتھر نزدیک دور کی کل چیزیں اور جن جن کی قسمت میں حج لکھا ہوا تھا- وہ سب اور تمام تر و خشک چیز یں جو اب میں پکار اٹھیں ( لبیک اللہم لبیک )
فضائل حج کے متعلق نبی کریم ﷺ کے چند ارشادات ملاحظہ فرمائیں ۔
(1) جس شخص نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے حج کیا پھر اس میں نہ کوئی فحش بات کی اور نہ نافرمانی کی وہ ایسا پاک صاف ہو کر آتا ہے جیسا ولادت کے دن تھا-
(2) نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے- فرمایا اللہ تعالی اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ عرض کیا گیا اس کے بعد فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا۔ عرض کیا گیا اس کے بعد فرمایا حج
(3) ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ درمیانی عرصے کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتی-
(4) پے در پے حج و عمرے کیا کرو کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں سے اس طرح صاف کر دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کو صاف کر دیتی ہے اور حج مبرور کا ثواب صرف جنت ہے۔
حج عشقِ الہی کا مظہر ہے اور بیت اللہ شریف مرکز تجلیاتِ الہی ہے اس لیے بیت اللہ شریف کی زیارت اور حضور ﷺ کی بارگاہِ عالی میں حاضری ہر مومن کی جان تمنا ہے اگر کسی کے دل میں یہ آرزو چٹکیاں نہیں لیتی تو سمجھنا چاہیے کہ اس کے ایمان کی جڑیں خشک ہیں
(5) جو شخص بیت اللہ تک پہنچنے کے لئے زاد و راحلہ رکھتا تھا اس کے باوجود اس نے حج نہیں کیا تو اس کے حق میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ یہودی یا نصرانی ہوکر مرے۔
حج و عمرہ کی اصلاحات
استلام : حجر اسود کو بوسہ دینا اور ہاتھ سے چھونا یا حجر اسود اور رکن یمانی کو صرف ہاتھ لگانا۔
اضطباع : احرام کی چادر کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈالنا ۔
آفاقی : وہ شخص جو میقات کی حدود سے باہر رہتا ہو جیسے ہندوستانی، پاکستانی، مصری، شامی، عراقی، اور ایرانی وغیرہ ۔
ایام تشریق : ذوالحجہ کی گیارہویں، بارہویں، اور تیرہویں تاریخیں ایام تشریق کہلاتی ہیں کیوں کہ ان میں بھی ( نویں اور دسویں ذوالحجہ کی طرح ) ہر نماز فرض کے بعد تکبیر تشریق پڑھی جاتی ہے ۔ یعنی : اللہ اکبر، اللہ اکبر لا الہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد ۔
ایام نحر : دس ذی الحجہ سے بارہویں تک ۔
افرا : صرف حج کا احرام باندھنا اور صرف حج کے افعال کرنا ۔
تسبیح : سبحان اللہ کہنا ۔
تمتع : حج کے مہینوں میں پہلے عمرہ کرنا پھر اسی سال میں حج کا احرام باندھ کر حج کرنا ۔
تلبیہ : لبیک اللہم لبیک ، لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک پڑھنا ۔
تہلیل : لا الہ الااللہ پڑھنا ۔
جمرات یا جمار : منی میں تین مقام ہیں جن پر قدآدم ستون بنے ہوئے ہیں یہاں پر کنکریاں ماری جاتی ہیں ان میں سے جو مسجدِ خفیف کے قریب مشرق کی طرف ہے اس کو ( جمرۃ الاولی) کہتے ہیں اور اس کے بعد مکہ مکرمہ کی طرف بیچ والے کو ( جمرۃ الوسطی) اور اس کے بعد والے کو ( جمرۃ الکبریٰ ، اور جمرۃ العقبہ، اور جمرۃ الاخری ) کہتے ہیں
رمل : طواف کے پہلے تین چکروں میں اکڑ کر شانہ ہلاتے ہوئے قریب قریب قدم رکھ کر ذرا تیزی سے چلنا ۔
رمی : کنکریاں پھینکنا ۔
زم زم : مسجد حرام میں بیت اللہ کے قریب ایک مشہور چشمہ ہے جو اب کنویں کی شکل میں ہے جس کو حق تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اپنے نبی حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ کے لیے جاری کیا تھا ۔
سعی : صفا اور مروہ کے درمیان مخصوص طریق سے سات چکر لگانا ۔
شوط : ایک چکر بیت اللہ کے چاروں طرف لگانا ۔
صفا : بیت اللہ کے قریب جنوبی طرف ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جس سے سعی شروع کی جاتی ہے۔
طواف : بیت اللہ کے چاروں طرف سات چکر مخصوص طریق سے لگانا ۔
عمرہ : حل یا میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرنا ۔
عرفات یا عرفہ : مکہ مکرمہ سے تقریباً 9 میل مشرق کی طرف ایک میدان ہے جہاں پر حاجی لوگ نویں ذی الحجہ کو ٹھہرتے ہیں۔
قران : حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھ کر پہلے عمرہ کرنا پھر حج کرنا۔
قارن : قران کرنے والا۔
قرن : مکہ مکرمہ سے تقریبا 42 میل پر ایک پہاڑ ہے نجد، یمن اور نجد حجاز اور نجد تہامہ سے آنے والوں کی میقات ہے ۔
قصر : بال کتروانا۔
محرم : احرام باندھنے والا۔
مفرد : حج کرنے والا جس نے میقات سے اکیلے حج کا احرام باندھا ہو۔
میقات : وہ مقام جہاں سے مکہ مکرمہ جانے والے کے لئے احرام باندھنا واجب ہے۔
جحفہ : را بغ کے قریب مکہ مکرمہ سے تین منزل پر ایک مقام ہے شام سے آنے والوں کی میقات ہے۔
جنت المعلیٰ : مکہ مکرمہ کا قبرستان۔
جبل رحمت : عرفات میں ایک پہاڑ ہے۔
حجر اسود : سیاہ پتھر ، یہ جنت کا پتھر ہے جنت سے آنے کے وقت دودھ کی مانند سفید تھا لیکن بنی آدم کے گناہوں نے اس کو سیاہ کر دیا- یہ بیت اللہ کے مشرقی جنوبی گوشے میں قد آدم کے قریب اونچائی پر بیت اللہ کی دیوار میں گڑا ہوا ہے اور اس کے چاروں طرف چاندی کا حلقہ چڑھا ہوا ہے۔
حرم : مکہ مکرمہ کے چاروں طرف کچھ دور تک زمین ( حرم) کہلاتی ہے اس کی حدود پر نشانات لگے ہوئے ہیں اس میں شکار کھیلنا درخت کاٹنا گھاس جانور کو چرانا حرام ہے ۔
حل : حرم کے چاروں طرف میقات تک جو زمین ہے اس کو ( حل) کہتے ہیں کیونکہ اس میں وہ چیزیں حلال ہیں جو حرم کے اندر حرام تھیں ۔
حلق : سر کے بال منڈوانا۔
حطیم : بیت اللہ کی شمالی جانب بیت اللہ سے متصل قد آدم دیوار سے کچھ حصہ زمین کا گھرا ہوا ہے اس کو ( حطیم) اور ( حظیرہ) بھی کہتے ہیں-
دم : احرام کی حالت میں بعضے ممنوع ا فعال کرنے سے بکری وغیرہ ذبح کرنی واجب ہوتی ہے اس کو ( دم) کہتے ہیں۔
ذوالحلیفہ : یہ ایک جگہ کا نام ہے مدینہ منورہ سے تقریبا 6 میل پر واقع ہے مدینہ منورہ کی طرف سے مکہ مکرمہ آنے والوں کے لیے میقات ہے اسے آج کل (بیر علی) کہتے ہیں۔
ذات عرق : ایک مقام کا نام ہے جو آجکل ویران ہوگیا مکہ مکرمہ سے تقریبا تین روز کی مسافت پر ہے عراق سے مکہ مکرمہ آنے والوں کی میقات ہے۔
رکنِ یمانی : بیت اللہ کے جنوب مغربی گوشے کو کہتے ہیں چونکہ یہ یمن کی جانب ہے۔
مطاف : طواف کرنے کی جگہ جو بیت اللہ کے چاروں طرف ہے اور اس میں سنگ مر مر لگا ہوا ہے۔
مقام ابراہیم : جتنی پتھر ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس پر کھڑے ہو کر بیت اللہ کو بنایا تھا مطاف کے مشرقی کنارے پر منبر اور زمزم کے درمیان ایک جالی دار قبے بنا ہوا ہے۔
ملتزم : حجر اسود اور بیت اللہ کے دروازے کے درمیان کی دیوار جس پر لپٹ کر دعا مانگنا مسنون ہے۔
مسجدِ خفیف : منی کی بڑی مسجد کا نام ہے جو منی کی شمالی جانب میں پہاڑ سے متصل ہے۔
مسجدِ نمرہ : عرفات کے کنارے پر ایک مسجد ہے۔
مدعی : دعا مانگنے کی جگہ مراد اس سے مسجد حرام اور مکہ مکرمہ کے قبرستان کے درمیان ایک جگہ ہے جہاں دعا مانگنی مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے وقت مستحب ہے۔
مزدلفہ : منی اور عرفات کے درمیان ایک میدان ہے جو منی سے تین میل مشرق کی طرف ہے۔
محسر : مزدلفہ سے ملا ہوا ایک میدان ہے جہاں سے گزرتے ہوئے دوڑ کر نکلتے ہیں اس جگہ اصحاب فیل پر جنہوں نے بیت اللہ پر چڑھائی کی تھی عذاب نازل ہوا تھا۔
مروہ : بیت اللہ کے شرقی شمالی گوشے کے قریب ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جس پر سعی ختم ہوتی ہے ۔
میلین اخضرین : صفا اور مروہ کے درمیان مسجد حرام کی دیوار میں دو سبز میل میں لگے ہوئے ہیں جن کے درمیان سعی کرنے والے دوڑ کر چلتے ہیں۔
موقف : ٹھہرنے کی جگہ حج کے افعال میں اس سے مراد میدان عرفات یا مزدلفہ میں ٹھہرنے کی جگہ ہوتی ہے۔
میقاتی : میقات کا رہنے والا۔
وقوف : کے معنی ٹھرنا اور احکام حج میں اس سے مراد میدان عرفات یا مزدلفہ میں خاص وقت میں ٹھہرنا۔
ہدی : جو جانور حاجی حرم میں قربانی کرنے کو ساتھ لے جاتا ہے۔
یوم عرفہ : نویں ذی الحجہ جس روز حج ہوتا ہے اور حاجی لوگ عرفات میں وقوف کرتے ہیں۔
یلملم : مکہ مکرمہ سے جنوب کی طرف دو منزل پر ایک پہاڑ ہے اس کو آجکل ( سعدیہ) بھی کہتے ہیں یہ یمن، ہندوستان اور پاکستان سے آنے والوں کی میقات ہے-