مغلیہ حکومت کے نقوش Ncert removed Mughal empire from syllabus
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
این سی ای آر ٹی کی کتابوں سے مغلیہ عہد حکومت کے اسباق نکال باہر کر دیے گیے ہیں، تاکہ طلبہ ہندوستان کی عہد وسطیٰ کی تاریخ نہ پڑھ سکیں- گاندھی اور گوڈسے کے متعلق اسباق کو بھی نکال دیا گیا ہے تاکہ نئی نسل گاندھی جی کے کردار سے واقف نہ ہو اور جد و جہد آزادی میں جو ان کا رول رہا ہے اس سے وہ غافل رہ جائیں- گوڈسے نے گاندھی کو قتل کرنے کی جو شرمناک حرکت کی تھی وہ بھی نئی نسل تک منتقل نہ ہو سکے، پھر کچھ دنوں کے بعد ساورکر، گرو گوالکر اور گوڈسے کو ملک کا ہرو بنا کر پیش کیا جائے گا اور بتایا جائے گا کہ اصل یہی لوگ تھے- مؤرخین نے غلط باتیں کتابوں کی زینت بنا رکھی تھی، اسے نصاب سے باہر کر دیا گیا ہے۔
در اصل فرقہ پرستوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ مغلیہ دور حکومت کے نقوش نصاب کے علاوہ پورے ہندوستان میں زمین پر بکھرے پڑے ہیں- تاج محل، لال قلعہ، پرانا قلعہ، گولکنڈہ، آگرہ کا قلعہ، دہلی کی جامع مسجد، قطب مینار وغیرہ-
ہندوستان کی سر زمین پر شاندار جاندار اور تابناک عہد رفتہ کی یادگار کے طور پر موجود ہیں- ان کو نیست و نابود نہیں کیا جا سکتا، حالاں کہ بعض سر پھرے دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک تاج محل کو منہدم کر کے اس پر مندر بنانے کی آواز اٹھاتے رہے ہیں، لیکن سر پھرے تو سر پھرے ہی ہوتے ہیں- جنون اور پاگل پن عروج کو پہونچ جائے تو ایسے ہفوات و بکواس زبان سے نکلنے لگتے ہیں- یہ عمارتیں جب تک روئے زمین پر موجود ہیں اور ان کے اوپر جو کتبات لگے ہوئے ہیں- وہ عہد رفتہ کی تاریخ سیاحوں کو بتاتے رہیں گے، صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ ہندوستان سے مسلمانوں کے عہد حکومت کو مٹانا آسان نہیں ہے- اس لیے کہ مغلوں نے جادہ جادہ اپنے یادوں کے نقوش چھوڑے اور آنے والے قافلوں کے وہ رہنما رہے ہیں۔