مسائل میں گھری امت مسلمہ | مسلمانوں کے مسائل
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
ملت اسلامیہ کو اس وقت بے پناہ مسائل کا سامنا ہے یہ مسائل داخلی بھی ہیں اور خارجی بھی، بہت سارے مسائل کا حل خود ہمارے پاس موجود ہے اور ہم ا ن سے نمٹ سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے عزم راسخ اور اولوالعزمی کی ضرورت ہے، جو مسائل سر فہرست ہیں؛ ان میں دین بیزاری ہماری بے عملی اور بدعملی سب سے بڑا مسئلہ ہے-
نئی نسل جس تیزی سے دوسری تحریکوں اور افکار سے متاثر ہو رہی ہے- یہ ہمارے لیے ایک چیلنج ہے اور اس کی وجہ سے ہمارے بچے بڑی تعداد میں اسلام سے دور ہوتے جا رہے ہیں، اور ہماری بچیاں غیر مسلموں کے ساتھ شادی رچا کر اپنے دین و ایمان اور زندگی کا سودا کر رہی ہیں- گھروں میں نماز، قرآن کا چرچا باقی نہیں رہا- جمعہ کی نماز بھی دو رکعت تک محدود ہو کر رہ گئی ہے- سنتوں کا اہتمام نہیں-اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ گارجین حضرات خود بھی اسلام پر عمل کریں اور اپنے بچوں میں بھی ذوق پیدا کریں، علماء و صلحاء کی صحبت اختیار کریں، تاکہ اس کے مفید اور مثبت اثرات دل و دماغ پر پڑیں اور شیطانی حربے ناکام ہو جائیں- اس ضمن میں اسلامی تہذیب و ثقافت سے دوری کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے-
کتنے گھروں کی آرائش و زیبائش اور سجاوٹ میں اسلامی انداز کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور ہماری وضع قطع کس قدر اسلامی تہذیب و ثقافت سے میل کھاتی ہے- وہ ہم سب جانتے ہیں۔ ہماری شادیات تلک جہیز اور گھوڑے جوڑے کے نام پر کس قدر دشوار ہوتی ج ارہی ہیں- اس سے ہم سبھی واقف ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ پانی سر سے اونچا ہو رہا ہے اور کسی کے کہنے سننے اور تحریک کا کوئی اثر سامنے نہیں آ رہا ہے۔ اور نالی وہیں کی وہیں گر رہی ہے ۔
دوسرا مسئلہ ہماری جہالت کا ہے- وہ امت جو تعلیم و تعلم کے نام پر اٹھائی گئی اورجس مذہب میں تعلیم کو فرض قرار دیا گیا، اس امت کے بچے تعلیم سے بے بہرہ ہوں تو کتنے افسوس کی بات ہے- وہ امت جس کے نبی نے انما بعثت معلما کہہ کر اپنا تعارف کرایا کے نونہال زری کے کارخانوں میں مزدوری، ہوٹلوں میں بیڑے کا اور کچرے کے ڈھیر سے کچڑے چننے کا کام کریں، یہ ہمارے لیے شرم کی بات ہے۔ یقینا دیہاتوں سے لے کر شہروں تک بیداری آئی ہے اور تیزی سے تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں، لیکن اب بھی یہ ہماری تعداد کے اعتبار سے کم ہیں- جو ادارے معیاری ہیں ان کی فیس اتنی موٹی ہے کہ عام مسلمانوں کی پہنچ ہی وہاں تک نہیں ہو سکتی، لے دے کر تھوڑا بہت مدارس والے بچائے ہوئے ہیں تو وہاں کی تعلیم کو معاشی سرگرمی کے لیے مفید نہیں سمجھا جاتا ہے اور ساری محنت مدارس کے بچے کو عصری تعلیم سے جوڑنے کی چل رہی ہے حالانکہ مسلمانوں کے پڑھنے والے بچوں میں سے صرف چار فی صد ہی مدارس کا رخ کر پاتے ہیں، اگر ملی تنظیمیں ان چار فی صد کے علاوہ چھیانوے فی صد بچوں پر توجہ اور سر مایہ لگایا جاتا تو انقلاب عظیم آ سکتا ہے لیکن اس طرف توجہ ذرا کم ہے ساری شاباشی اور واہ واہی ان اداروں کے حصے میں ہے جو مدارس میں پڑھنے والے چار فی صد بچوں پر محنت کر کے عصری علوم کی طرف لے آویں یہ بھی ایک کام ہے لیکن عصری علوم پڑھنے والے طلبہ پر محنت کر کے انہیں آئی ایس آئی پی ایس بنانا اس سے بڑا کام ہے ضرورت ہے کہ جگہ جگہ مکاتب سے لے کر اعلیٰ تعلیم کے معیاری ادارے قائم کیے جائیں اور فیس وغیرہ ایسی رکھی جائے کہ اسکول کا نظام بھی صحیح ڈھنگ سے باقی رہے اور گارجین پر زیادہ بوجھ بھی نہ پڑے۔
تیسرا مسئلہ ہماری معاشی و اقتصادی کمزوری کا ہے، بڑی تعداد میں مسلمان مفلسی اور پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں اور یہ دلتوں سے بھی گئے گزرے ہیں، اس کے لیے سرکاری سطح پر نوکری کی تلاش کے ساتھ نوجوانوں کو ٹیکنیکل تعلیم دینی ہوگی تاکہ وہ آسانی سے اپنی معاشی پسماندگی کودور کر سکیں-
دوسری صورت تجارت سے جڑنے کی ہے خواہ وہ چھوٹی گھریلو صنعت ہی کیوں نہ ہو۔ پونجی کے لیے بہت ساری اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کا مزاج بنانا ہوگا- کچھ لوگوں کو اس کام کے لیے تیار ہونا ہوگا کہ وہ سرکاری اسکیموں کی اطلاع عوام تک پہنچانے کا کام کریں اور لوگوں کی مدد کے لیے آگے آئیں۔
چوتھا بڑا مسئلہ جمہوری اداروں میں نمائندگی کا ہے- آزادی کے بعد سے مسلسل پارلیمنٹ، اسمبلی اور مقامی جمہوری اداروں میں ہماری نمائندگی کم ہوتی جا رہی ہے- اس کی بڑی وجہ سیاسی پارٹیوں کا رویہ ہے۔ وہ مسلمانوں کو ووٹ بینک کی طرح استعمال کرتے ہیں اور بعد میں وہ اس مظلوم اقلیت کو بھول جاتے ہیں- پارٹیوں میں جو ہمارے لیڈران ہیں وہ بھی پارٹی کے وفادار زیادہ اور ملت کے وفادار کم ہوتے ہیں- انھیں ہر وقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ انھیں کوئی کومنل (Communal) نہ کہہ دے- اس ڈر سے وہ بہت سارے جائز کام بھی مسلمانوں کا کرنے سے گریز کرتے ہیں- ہمیں اس صورت حال کو بدلنا ہوگا- پارٹی نظریات سے اوپر اٹھ کر ملت کے مفاد کے لیے سوچنا ہوگا۔
مسلم رائے عامہ کو اس کے لیے بیدار کرنا ہوگا تاکہ مسلم ووٹوں کو منتشر ہونے سے بچایا جا سکے- اس کے لیے ملّی تنظیمیں جو لائحہ عمل بنائیں اور جن بنیادوں پر ووٹ دینے کی تجویز رکھیں ان پر اعتماد کرتے ہوئے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اکابر کی نگاہیں دور رس ہیں اور یقینا ان کی جانب سے جو تجویز آئے اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تاکہ جمہوری اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی زیادہ سے زیادہ ہو سکے۔
پانچواں مسئلہ زبان کی حفاظت کا ہے، یقینا زبان کسی مذہب کی خاص نہیں ہوتی- اردو بھی یقینی طور پر مشترکہ زبان ہے؛ لیکن مسلمانوں کا بڑا علمی سرمایہ اس میں محفوظ ہے- اس معاملہ میں سرکاری سطح پر بھی توجہ کی ضرورت ہے اور داخلی سطح پر بھی ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارے بچے اردو پڑھنے، ہمارے گھروں میں دوسری زبانوں کے اخبارات و رسائل کے ساتھ اردو کے اخبارات و رسائل بھی خرید کر پڑھے جائیں- ہمار ی خط و کتابت کی زبان اردو ہو- میں نے کہیں پہلے بھی لکھا ہے کہ اردو کی لڑائی ہم اپنے گھروں میں ہار گئے ہیں- ہمیں اس طرف خصوصیت سے توجہ دینی ہوگی۔
ایک بڑا مسئلہ بلکہ داخلی مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ آپسی اختلافات کا ہے- چھوٹے چھوٹے اور فروعی مسائل میں مسلمان شدید اختلافات کا شکار ہیں- نماز نہیں پڑھتا لیکن آمین بالجہر والسر پر لڑے گا- درود شریف کا ورد نہیں کرے گا؛ لیکن کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پڑھنے پر لاٹھیاں نکل آئیں گی- ہمیں اس صورت حال کو بدلنا ہوگا- کلمہ کی بنیاد پر اتحاد پیدا کرنا ہوگا- اسی طرح ذات پات کی لعنت سے بھی ہمیں پیچھا چھڑانا ہوگا- نہ انفرادیت اورنہ فرقہ بندی، ایک امت اور ایک جماعت بن کر زندگی گزارنا، اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور کلمہ کی بنیاد پر اتحاد، ہماری طاقت کا محور و مرکز ہے۔
ہمیں ہرحال میں اس ہدف کے لیے کوشش کرتے رہنا چاہئے اور ہر قیمت پر کرنا چاہئے۔ ان کے علاوہ مختلف موقعوں سے ہونے والے فسادات، محکمہ پولیس کی طرف سے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی کوشش، بے گناہ نوجوانوں کو پکڑ کر جیل کی سلاخوں میں ڈالا جانا، عدالت کی طرف سے مسلم پرسنل لاء میں بار-بار مداخلت، سرکاری ملازمتوں سے انھیں دور رکھنے کی منظم کوششیں، ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کا قتل یہ ملت کو درپیش چند مسائل ہیں، جنہیں اشاروں کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔