لسانی آمیزش کے دور میں زبان و ادب کی صورتِ حال لمحۂ فکریہ ہے
مضمون نگار: ڈاکٹر قمر صدیقی
ہمارا عہد نئی دریافتوں کا عہد ہے۔ پرانی طور طریقے اور پرانی چیزیں اب متروک ہو رہی ہیں۔ کھانے پینے میں فاسٹ فوڈ کی مقبولیت سے لے کر لکھی جانے والی زبان میں ایموجیز کی شمولیت تک روزمرہ کی زندگی میں ایسی مثالیں جا بجا دیکھی جا سکتی ہیں۔ ریڈیو تو خیر بھولی بسری یاد بن کر رہ گیا ہے لیکن ٹیلی ویژن کا استعمال بھی کو بھی اب ختم ہی سمجھیے۔ فلموں پر ویب سیریز سبقت لے جارہی ہیں اور وی لاگ اور دیگر معلوماتی ویڈیوز کے مقابلے اب مختصر ویڈیوز یعنی ریل کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ خرید و فروخت کے روایتی طریقے محدود ہوتے جا رہے ہیں اور آن لائن شاپنگ کے امکانات لامحدود۔ طب اور ادویات کے شعبے کا حال مت پوچھیے۔
آج انسانی زندگی اناج سے زیادہ ڈاکٹر اور دوائوں پر منحصر ہو گئی ہے۔ حمل و نقل کا شعبہ ایک نئی زندگی کی نوید سنا رہا ہے۔ ڈارئیور کے بغیر چلنے والی خود کار گاڑیاں سڑکوں پر آ چکی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بغیر پائیلٹ کے ہوائی جہاز فضا میں پرواز کر رہے ہیں۔ یہ ایک نئی دنیا ہے، جس میں ہر چیز نئی ہے ۔
علم و ادب کے فروغ کے بنیادی ذرائع یعنی قلم ، کاغذ اور کتاب بھی تبدیلیوں کی زد پر ہیں۔ قلم کی جگہ ڈیجیٹل کی پیڈ لے رہا ہے کاغذ کی جگہ اسکرین اور کتابیں مختلف ڈیجیٹل فارمیٹ مثلاً ٹیکسٹ ،پی ڈی ایف اور کنڈل میں دستیاب ہیں۔ کتاب کی روایتی صورت یعنی پرنٹ کتب کے مقابلے ڈیجٹیل کتب قاری تک زیادہ آسانی سے پہنچ جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی ایڈیٹنگ آسان اور ان کی تیاری میں لاگت بھی کم آتی ہے۔ ڈیجیٹل کتب کی ایک صورت آڈیو بُک بھی ہے جو اب تیزی سے مقبول ہو رہی ہے۔ ترقی یافتہ زبانوں کا بیشتر ادبی سرمایہ اب ڈیجیٹل ہو چکا ہے۔ اردو میں بھی یہ کام تیزی سے ہو رہا ہے۔
معاصر دنیا کی مذکورہ بالاسماجی ، ثقافتی اور رادبی تبدیلیوں کی یہ صورتِ حال ظاہری ہے لیکن داخلی سطح پر بھی بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ ہمارا رویہ اور مزاج، ہماری ترجیحات، ہمارا مطمحِ نظر اور ہمارا ورلڈ ویو( نظریۂ کائنات) اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ اسی طرح تحریر کے ڈیجیٹل ہونے کے بعد پوری دنیا کا لسانی منظرنامہ بھی حیرت انگیز تبدیلیوں کی زد پر ہے۔ علاقائی زبانوں کا دائرہ سکڑ رہا ہے اس کے مقابلے چند ترقی یافتہ عالمی زبانوں کا دائرہ ہر سطح پر وسیع ہو رہا ہے۔
معروف ماہرِ لسانیات نوم چومسکی کے مطابق ’’ گزشتہ سو سال قبل ۸۰۰۰ سے زائد زبانیں بولی جاتی تھیں جو اب تقریباً ۶۰۰۰ رہ گئی ہیں یعنی زبانیں ایک دوسرے میں میں ضم ہو رہی ہیں۔ ایک دن آئے گا دنیا میں صرف ایک زبان بولی جائے گی۔ فی الحال دنیا میں سات زبانیں ایسی ہیں جن میں دیگر زبانیں مدغم ہو رہی ہیں وہ انگریزی ،اسپینش ،روسی، سوہالی، مینڈیرین، انڈونیشین اور ہندی؍ اردو ہیں۔‘‘(واضح رہے کہ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا ہندی اور اردوکو الگ الگ زبان کے بجائے ایک ہی زبان تسلیم کرتا ہے۔)
ان چھ زبانوں میں بھی اثر انگیزی کے اعتبار سے انگریزی دیگر زبانوں سے کہیں آگے ہے۔ لیکن لسانی اعتبار سے انگریزی کو جن چیلنجز کا سامنا ہے وہ زبردست ہیں۔ یونی کوڈ کے آنے کے بعد زبانوں (خاص طور سے انگریزی) کی شکست و ریخت کا عمل بہت تیز ہوگیا ہے۔ مثلاً او کے کے لیے اب صرف کے، پلیز کے لیے پی ایل زیڈ یا اس طرح کے سیکٹروں مخفف جو انگیریزی میں رائج ہو چکے ہیں وہ اس زبان کی شکل و شبیہہ مسخ کر رہے ہیں ۔لہٰذا آج کی انگریزی، انگریزی ہونے باوجود بھی انگریزی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یونی کوڈ کے لسانی پیٹرن میں ایک نئی تصویری زبان (ایموجی) کا چلن بھی عام ہو چکا ہے۔
اب تو یہاں تک کہا جانے لگا ہے کہ نئے عہد کی گلوبل یا آفاقی زبان ایموجی ہوگی۔ بانگور یونیورسٹی، یو کے کے پروفیسر ایوا یونس کا دعویٰ ہے کہ ایموجی انسانی تاریخ میں سب سے تیزی سے فروغ پانے والی زبان ہے۔ ذرا غور کیجیے اپنے شوسل میڈیا اکائونٹ پر جب ہم لائیک یا اس طرح کے دیگر تاثرات کا اظہار کرتے ہیں تو اسی ایموجی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ جب ہم واہٹس ایپ پر انگوٹھا دکھا رہے ہوتے ہیں تب بھی اپنے جذبات کی ترسیل ایموجی کے ذریعے کر رہے ہوتے ہیں۔
تصویری زبان کی تاریخ اتنی نئی بھی نہیں ہے۔ آثار قدیمہ کی کھدائی کے علاوہ پہاڑوں پر تصاویر کی زبانوں کے دنیا بھر میں بہت سے نمونے مل چکے ہیں۔اس کا زمانہ مصر کے فرعونوں یا اس سے بھی قدیم ہو سکتا ہے۔ اس وقت بھی دنیا کی بہت بڑی آبادی چین میں ۱۳۰ کروڑ،جاپان میں ١٢ کڑور اور کوریا میں ۷ کڑور افراد تصویر ی زبان استعمال کرتے ہیں۔تصویری زبان میں حروف نہیں ہوتے لیکن جذبات و احساسات ہوتے ہیں۔ حصولِ زبان دراصل ایک فطری اور دماغی فعل ہے۔ تحریر یا تقریر کی تشریح کو دماغ کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے یعنی دماغ ہی تحریروں اور آوازوں کو تصورات سے منسلک کرتا ہے۔ اس طرح زبان کا بنیادی کام خیالات کی ترسیل ہے اور خیالات کی ترسیل کے مختلف ذرائع ( تحریر یا تصویر) ہو سکتے ہیں۔ مثلاً جب انسان لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا تو جنگلوں، پہاڑوں، دریاؤں اور سمندری ساحلوں پر رہنے کے دوران مختلف آوازوں کا استعمال کرتا تھا۔
آج بھی جب ہم خوش ہوتے ہیں تو قہقہ لگا کر ہنستے ہیں۔ غصہ، ناراضگی، دکھ، خوشی کی زبان سے ہر ایک آشنا ہے۔ اشاروں کی زبان بھی آفاقی ہے پانی پینے کے لیے چلو کا استعمال ہو، کسی کو بلانے کے لیے ہاتھ کا اشارہ یا شناسائی کے اظہار کے لیے ہاتھ اٹھانا- یہ اشارے سب سمجھتے ہیں. لہٰذا ایموجیز کی مقبولیت کوئی حیرت کی بات نہیں۔ اس کی مقبولیت کااندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ روزانہ ایک ہزار کروڑ ایموجیز سوشل میڈیا کے ذریعے بھیجی جاتی ہیں۔
پروفیسر ایو ایونس کے ذریعے ۱۸ سے ۲۵ سال کے نوجوانوں پر کئے گئے ایک سروے میں ۷۲ فیصد نوجوانوں نےجذبات کے اظہار کے لیے ایموجی کو ایک بہترین ذریعہ قرار دیا ہے۔ جبکہ ۵۱ فیصد کا کہنا ہے کہ ترسیل کے معاملے میں ایموجی دیگر زبانوں سے آسان ہے۔
تبدیلی کے اس دور میں زبانوں کی لسانی ساخت جن چیلنجز سے گزر رہی ہے ، بالکل اسی طرح کے چیلنجز ادب کو بھی ہیں۔ گرافک ناول اور گرافک شاعری رواج پا چکی ہیں۔ اس میں تحریر اور تصویر کی آمیزش ہوتی ہے۔خیر یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ فریڈ بینسن نے ہرمن میل ویل کے مشہور ناول موبی ڈک کا ایموجی میں ترجمہ بھی کر دیا ہے۔ ترجمے کا یہ کام جتنا ناقابلِ یقین ہے اس کا پڑھنا اتنا ہی ناممکن۔ کیا میر و غالب کی غزلیں اور نظیر و اقبال کی نظمیں بھی ایموجی کی صورت کوئی قبول کرے گا۔
دراصل ایموجی کے ذریعے اسم مثلاً بلی، سیب، گلاب وغیرہ کی ترسیل تو آسان ہے لیکن فعل، صفت، زمانہ، عطف اور استعارہ وغیرہ کی ترسیل اس کے ذریعے قریب قریب نا ممکن ہے۔ یعنی ایموجی کے ذریعے مکمل سیاق و سباق والی کوئی تخلیق نہیں کی جا سکتی۔ ایموجی کی یہی کمزوری اسے کبھی مکمل زبان کا درجہ نہیں حاصل کرنے دےگی۔
رہا سوال زبانوں کے خاتمے کا تو نوم چومسکی کا مہارت اور کارکردگی کا نظریہ یہ بتاتا ہے کہ ایک مصنف کے پاس وہی مہارت ہوتی ہے جوایک کار ڈرائیور کے پاس ہوتی ہے۔ ایک کار ڈرائیور کے لیے لازمی نہیں ہے کہ وہ گاڑی کو چلاتے وقت اپنی تمام معلومات کو استعمال کرے بلکہ وہ معلومات کا صرف وہی حصہ استعمال کرتا ہے جن کا استعمال ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ذہن میں زبان کے اصول اور الفاظ کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ ہم صرف وہی حصہ استعمال کرتے ہیں جن کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ ممکن ہے کہ کبھی زبان کا استعمال محدود ہوجائے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ کسی وقت زبان کا استعمال اس کے پورے امکانات و وسائل کے ساتھ ہو۔