دو ہزار روپے کے نوٹوں کی جمع بندی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
ریزو بینک آف انڈیا (RBI) نے اپنے ایک حکم نامہ میں دو ہزار روپے کے نوٹ کو ستمبر تک بینک میں جمع کرا دینے کو کہا ہے، اس نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ چار ماہ گذرنے کے بعد بھی اگر کسی کے پاس یہ نوٹ ہوگا تو اسے ناقابل قبول نہیں قرار دیا جائے گا، البتہ ایک بار میں دو ہزار کے بیس نوٹ ہی بدلے جا سکیں گے- بینک اس سے یہ دریافت نہیں کرے گا کہ اس کے پاس اتنے نوٹ کس طرح آئے- 2016 کی نوٹ بندی کے مقابل یہ نوٹ بندی نہیں جمع بندی ہے- اچھی بات یہ ہے کہ اس کام کے لیے ہمارے وزیر اعظم کو سامنے نہیں آنا پڑا ہے۔
مرکزی حکومت نے 8 نومبر 2016 کو جب نوٹ بندی کا اعلان کیا تھا، پانچ سو اور ایک ہزار کے پرانے نوٹ کو چلن سے خارج کیا تھا تو اسے کا لا دھن پر روک لگانے کی سمت میں اہم قدم قرار دیا تھا- کچھ دن کے بعد جب ایک ہزار کے بدلے دو ہزار کے نوٹ مارکیٹ میں آئے تو عوام نے جان لیا کہ انہیں بے وقوف بنایا گیا ہے، کیوں کہ کالا دھن جمع کرنے والے کو چھوٹا نوٹ لے کر اس سے بڑا نوٹ فراہم کر دیا گیا ہے، تاکہ وہ دو ہزار کے نوٹ کے ذریعہ زیادہ آسانی سے کالے دھن کی ذخیرہ اندوزی کر سکیں-
دیر سے ہی صحیح، سرکار کو بھی یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ یہ قدم اس کا غلط تھا، چنانچہ دو ہزار کے نوٹوں کی چھپائی کا کام 2018-19 کے مالی سال میں بند کر دیا گیا، اب یہ نوٹ عام طور سے چلن میں نظر نہیں آرہے تھے، کیوں کہ کالے دھن والوں نے اسے جمع کر لیا تھا-
آر بی آئی کے اس اعلان سے کا لے دھن کو سفید کرنے کا انہیں قیمتی موقع ہاتھ آیا اور وہ اس کا استعمال تیزی سے کر رہے ہیں- عوام کے پاس یہ نوٹ تو ہے ہی نہیں، اس لیے عوام پر اس حکم کا کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے- رہ گیے کالے دھن والے تو ان کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ مختلف اوقات میں جتنے نوٹ چاہیں بدلیں، انہیں کسی شناختی کارڈ، فارم یا کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے ہمارا یہ ماننا ہے کہ نہ پہلے کی نوٹ بندی سے کالے دھن میں کوئی کمی آئی تھی اور نہ اب کہ دو ہزار کے نوٹ جمع کرنے سے کوئی فرق پڑے گا۔
دو ہزار روپے کا نوٹ نومبر 2016 میں آر بی آئی ایکٹ 1934 کے سیکشن 24(1)کے تحت سامنے لایا گیا تھا، جس کا بنیادی مقصد پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹوں کے خارج کرنے کے بعد صارفین کی ضرورت کو پورا کرنا تھا- آر بی آئی نے اسے جمع کرانے کی وجہ ’’کلین نوٹ پالیسی‘‘ پر عمل کرانا ہے- اگر یہ بات صحیح ہے تو دس، بیس، پچاس اور سو روپے کے نوٹ اس کام کے لیے بڑی تعداد میں دستیاب ہیں، جنہیں صارفین نے لکھ لکھ کر گندہ کر رکھا ہے اسے جمع کرایا جانا چاہیے تھا تاکہ وہ کلین ہو سکیں۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ایک ہے عوامی سطح پر اس کرنسی کا چلن نہ ہونا اور دوسرا ہے قانونی سطح پر اس کو چلن سے خارج کرنا، دونوں الگ الگ چیزیں ہیں- عوامی سطح پر کسی سکے اور روپے کا استعمال نہ کیا جانا عوام کے حق پر چوٹ نہیں ہے، مثلا ایک پیسہ، دو پیسہ، تین پیسہ، پانچ پیسہ، دس پیسہ، بیس پیسہ، چونی، اٹھنی، ایک روپے دو روپے اور پانچ روپے کے نوٹ عوامی سطح پر استعمال میں نہیں دکھتے، کیوں کہ اب وہ ان کی ضرورت نہیں محسوس کرتے، اٹھنی تک کی تو اب کوئی چیز بھی نہیں ملتی-
ایک روپے میں دستیاب ہونے والی اشیاء کو بھی اب انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے- ان سکوں اور روپیوں کو چلن سے باہر کرنے کے لیے حکومت نے کوئی نوٹی فیکیشن جاری نہیں کیا، لیکن یہ خود بخود ختم ہو گیے، اس کے بر عکس جب سرکار کسی نوٹ پر پابندی لگاتی ہے تو یہ عوام کی محنت کی کمائی کو برباد کرنے کے مترادف ہوتا ہے اور انہیں سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جیسا کہ 8 نومبر 2016 کی نوٹ بندی کے موقع سے دیکھا گیا۔