قرآن کی چند متفرق آیتوں کا خلاصہ
{پندرہویں تراویح}
✍: - تابش سحر
سورۃ المؤمنون کے آغاز میں مومنوں کو فلاح و کامرانی کا پروانہ عطا کر دیا گیا پھر ان کے چند اوصاف بیان کیے گئے جیسے وہ خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، لغویات سے پرہیز کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، جنسی تسکین کے لیے اپنی بیویوں یا باندیوں کے علاوہ کوئی اور راہ اختیار نہیں کرتے، امانت کی پاسداری کرتے ہیں، عہد کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں۔ ان اوصاف کو نماز سے شروع کیا گیا اور نماز ہی پر ختم! اس سے اسلام میں نماز کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے پھر یہ بھی بتا دیا کہ مومنین کی نماز خشوع و خضوع کے ساتھ ہوتی ہے۔ نماز میں خشوع کا مطلب یہ ہے کہ دل مستحضر ہو، اللّٰہ کی طرف متوجہ ہو، پوری طرح نماز میں دھیان لگا ہو اور خشیتِ الٰہی کے سبب جَم کر نماز پڑھے بےجا حرکتوں سے اجتناب کرے۔ نماز میں بےحضوری کی کیفیت ثواب کو گھٹاتی ہے اور اس سے نماز کی روح متاثر ہوتی ہے اسی لیے علامہ اقبالؒ نے کہا
تیرا امام بےحضور، تیری نماز بےسرور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر
{المؤمنون 1 تا 9}
اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو یہ حکم دیا تھا "اے پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک کام کرو" قرآنِ کریم کے مطابق وہ تمام چیزیں پاکیزہ ہیں جنہیں شریعت نے حلال قرار دیا۔ دراصل نبیوں کے واسطے سے یہ پیغام تمام انسانوں کے لیے ہیں۔ رزقِ حلال' اعمالِ صالحہ اور دعا کی قبولیت میں معین و مددگار ہے جبکہ حلال و حرام کا التزام نہ کرنے سے عبادت بھی خراب ہوتی ہے اور دعا میں بھی اثر باقی نہیں رہتا۔ حدیث شریف میں ہے آدمی دور دراز کا سفر کرتا ہے بکھرے بال، پراگندہ حال' آسمان کی جانب ہاتھ اٹھا کر صدا لگاتا ہے "اے میرے رب! اے میرے رب!" جبکہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام، رزقِ حرام سے غذا ملی اب کہاں دعا قبول ہوسکتی ہے؟ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت داؤدؑ کو بےمثال بادشاہت عطا کی تھی مگر وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے، حضرت زکریّاؑ بڑھئی تھے۔ ایک مرتبہ حضور کے نواسے حضرت حسنؓ (جو چھوٹے بچے تھے) نے صدقے کی کھجور اٹھائی اور کھانے ہی لگے تھے کہ آپ نے فوراً پکڑ لیا اور کہا "تھوک دو تھوک دو کیا تم نہیں جانتے ہم صدقہ نہیں کھاتے" {المؤمنون 51}
مومن' نورِ الٰہی کی روشنی میں زندگی گزارتا ہے اور کافر و مشرک نورِ الٰہی سے فیضیاب نہیں ہوتا سو ظلمت و جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتا پھرتا ہے، کبھی اس کے در پر حاضری دیتا ہے تو کبھی کسی اور کے آستانے پر ماتھا ٹیکتا ہے۔ مومن شریعت کی رہبری کے سبب حلال و حرام کی تمیز رکھتا ہے جبکہ کافر و مشرک شریعت سے بیزاری کے سبب خبیث و ناپاک چیزوں کو استعمال کرتا ہے۔ شرک و جہالت میں ڈوبے رہنے کی وجہ سے وہ دنیا میں ایسے ایسے کام انجام دیتا ہے جنہیں دیکھ کر جنگلی جانور بھی شرمندہ ہوجائے۔ دنیا بھر میں کفّار کیسے کیسے عجیب و غریب عقائد رکھتے ہیں، کیا کچھ نہیں کھاتے اور پیتے؟ کن کن چیزوں کو متبرک اور مقدّس جانتے ہیں، کیسی کیسی گندی اور فحش رسمیں نبھاتے ہیں، ظاہر ہے۔ یہ سب دینِ حق کو مسترد کرنے اور شرک و جہالت میں پڑے رہنے کا نتیجہ ہے۔ {المومنون 63}
غزوہ مریسع کے موقع پر آپؐ کے ساتھ حضرت عائشہؓ شریکِ سفر تھیں، پردے کا حکم نازل ہو چکا تھا سو آپؓ اونٹ کے اوپر رکھے ہوے ہودج میں سوار ہوتیں۔ ایک موقع پر آپ قضائے حاجت کے لیے قافلے سے دور چلی گئیں لوٹنے کا ارادہ کیا تو گلے کا ہار مفقود پایا۔ تلاشِ بسیار کے بعد وہ ہار تو مل گیا مگر جب آپؓ لوٹ آئی تو قافلہ روانہ ہو چکا تھا۔ صفوان بن معطلؓ جلیل القدر صحابی ہے وہ پیچھے رہ گئے تھے ان کی نظر حضرت عائشہؓ پر پڑی تو وہ حیران ہوگئے کہ امّ المؤمنین یہاں کیسے رہ گئی؟ انہوں نے اپنا اونٹ امّاں عائشہؓ کے قریب لاکر بٹھا دیا، آپؓ بیٹھ گئیں، صفوانؓ خود پیدل چلنے لگے اور بہت جلد دونوں قافلے سے جاملے۔ یہ منظر دیکھ کر منافقوں نے طرح طرح کی باتیں بنانی شروع کر دی ان کا سرغنہ عبداللّہ بن ابیؓ تھا۔ منافقوں کی شرانگیزی کے سبب یہ بات پورے مدینہ میں پھیل گئ، جب صدیقہؓ نے یہ بہتان سنا تو ہیبت کے مارے آپؓ نڈھال و بیمار ہو گئیں ادھر رسول اللّٰہؐ بےچین و مضطرب رہنے لگے۔ بیوی سے متعلق لوگوں میں باتیں ہوں تو ایک حسّاس انسان کے دل پر کیا قیامت گزرتی ہوگی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کئی روز گزرنے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی آفاقی کتاب قرآن مجید میں صدّیقہؓ کی عفّت و پاکدامنی پر دس آیتیں اتاریں جس میں یہ واضح کر دیا گیا کہ یہ باتیں سوائے بہتان کے اور کچھ بھی نہیں۔ انہیں آیتوں میں مومنوں کو تعلیم دی گئی کہ ایسی بےبنیاد باتوں پر اپنا منہ بند کرلینا چاہیے، بہتان لگانے والوں کی سخت الفاظ میں سرزنش کی گئی بعد ازاں رسول اللّٰہؐ نے ان سے گواہ کا مطالبہ کیا اور پھر قرآنی دستور کے مطابق پاکدامن عورتوں پر الزام لگانے اور چار گواہ پیش نہ کرنے کے جرم میں حدِّ قذف اسّی کوڑے لگائے گئے۔ پاکدامن عورتوں پر بےراہ روی کا الزام لگانا اللّٰہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے، زبانی چٹخارے اور بات بات میں انسان بسا اوقات ایسی باتیں بول دیتا ہے جو اس کے نزدیک تو ہلکی ہوتی ہے مگر اللّٰہ کے نزدیک بڑی اور قابلِ گرفت! {النور 11 تا 20}
مومنین و مومنات کو نگاہ نیچی رکھنے اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کی تعلیم دی گئ ہے۔ حدیث شریف میں ہے نگاہ' ابلیس کے زہر آلود تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ کسی نے حضورؐ سے پوچھا اگر اچانک کسی خاتون پر نظر پڑ جائے تو کیا کروں؟ آپؐ نے فرمایا اپنی نظر پھیر لو یعنی نگاہ ہٹالو! غضِّ بصر کا اہتمام کرنے والوں کے لیے بشارت ہے کہ وہ ایمان کی حلاوت پائے گا۔ {النور 30}
"ایامیٰ" ایم کی جمع ہے جس کے معنیٰ بے نکاح مرد یا خواتین ہے لہذا اس میں کنوارے لڑکے لڑکیاں، وہ مرد جن کی بیویوں کا انتقال ہو جائے، مطلقہ خواتین وغیرہ سب شامل ہیں۔ اللّہ تعالیٰ نے ایسے مرد یا عورتوں کا نکاح کروانے کا حکم دیا ہے اور ساتھ ہی یہ کہہ کر نکاح پر ابھارا "اگر وہ فقیر ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ غنی کر دے گا" کہ کہیں فقر و محتاجی کے ڈر سے لوگ نکاح سے منہ نہ موڑ لیں یا اپنی بیٹی کا رشتہ غریب صالح نوجوان کے ساتھ کرنے سے ہچکچائیں۔ اسلام نے نکاح کو بہت آسان کر دیا ہے تاکہ فحاشی اور زنا کے راستے مسدود ہو جائیں جبکہ عصرِ حاضر میں نکاح کو مشکل بنا دیا گیا جس سے فحاشیت کو فروغ مل رہا ہے۔ تعدّدِ ازدواج ایک فطری و سماجی ضرورت ہے اسے معیوب نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے جبکہ مرد و عورت کا ایک ساتھ بےنکاحی زندگی گزارنا فیشن ہے۔ {النور 32}