قرآن کی چند متفرق آیتوں کا خلاصہ
{بیسویں تراویح}
✍: - تابش سحر
انظاکیہ نامی بستی کی جانب اللّٰہ تعالیٰ نے یکے بعد دیگرے تین رسول بھیجے، رسولوں نے تبلیغِ حق کے خاطر خوب محنت کی مگر ان لوگوں نے تینوں رسولوں کی تکذیب کی، انہیں باعثِ نحوست قرار دیا اور سنگسار کرنے کی دھمکیاں تک دے ڈالی۔ اس سے پہلے کہ وہ سرکش کچھ کر بیٹھتے بستی کے پرلے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا جو رسولوں کی صداقت پر ایمان لا چکا تھا۔ اس نے بھی اپنی قوم کے لوگوں کو سمجھانے کی خوب کوشش کی۔ اس نے کہا جس نے مجھے پیدا کیا اور جس کی طرف مجھے لوٹ کر جانا ہے اسی کی بندگی کیوں نہ کروں؟ کیوں معبودانِ باطلہ کی پرستش کروں جو نہ فائدہ پہنچاسکتے ہیں اور نہ نقصان! مگر قوم کی عقلوں پر پردہ پڑچکا تھا سو یہ باتیں ان کی سمجھ میں نہ آسکی۔ انہوں نے اس داعی کو مار ڈالا اور پھر ایک ہی چیخ نے سب کا کام تمام کردیا اور سرکشی کی جو آگ تھوڑی دیر پہلے تک بھڑک رہی تھی یکایک بجھ کر رہ گئی۔ شہر کے آخری کنارے سے دعوت کا پیغام لانے والے آدمی سے پتہ چلتا ہے کہ رسولوں نے شہر کے گوشے گوشے تک اللّٰہ کا پیغام پہنچادیا تھا۔ اس داعیِ حق کو اللّٰہ نے خصوصی انعامات سے نوازا، جنّت کا حقدار بنایا اور اس کی مغفرت کردی گئی۔ {یٰسۤ 13 تا 29}
کفر و شرک میں پڑے رہنے والے انسان جب قبروں سے اٹھائے جائیں گے تو مارے وحشت کے چیخیں گے چلّائیں گے اور صدا لگائیں گے، "ہائے ہماری بربادی کس نے ہمیں اپنی قبروں سے اٹھایا؟" حالانکہ قبر میں کوئی آرام میسّر نہیں تھا، قبر بھی جہنّم ہی کا نمونہ پیش کررہی تھی مگر اصل جہنّم اور اس کے عذابات انہیں اتنے بھیانک معلوم ہوں گے کہ وہ عذابِ قبر میں پڑے رہنے کو ہلکا تصور کریں گے۔ اس سلسلے میں ایک قول یہ بھی ملتا ہے کہ دونوں صور کے درمیانی وقفے میں تمام اہلِ قبور پر نیند طاری کردی جائے گی اور دوسرا صور پھونکتے ہی سب کو جگا دیا جائے سو وہ کہیں گے "ہائے ہماری بربادی کس نے ہمیں اپنی قبروں سے جگایا؟" یعنی اچھا ہوتا ہم ہمیشہ اسی طرح پڑے رہتے اور جہنّم کے عذابات سے محفوظ ہوجاتے۔ کہا جائے گا "یہ وہی ہے جس کا رحمٰن نے وعدہ کیا تھا اور رسول سچ کہتے تھے۔" {یٰسۤ 52}
جنّت میں ایک محفل لگی ہوگی جس میں ایک جنّتی اپنے کافر دوست کا تذکرہ کرے گا کہ دنیا میں میرا ایک دوست ہوا کرتا تھا وہ مجھ پر حیرت کرتا اور کہتا کیا تم یہ فرسودہ باتوں پر یقین رکھتے ہو کہ ہم مرجائیں گے اور مٹی میں مل جائیں گے پھر دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا! یہ باتیں چل ہی رہی ہوگی کہ جہنّم کے درمیان اس آدمی کو دکھایا جائے گا۔ جنّتی اس جہنّمی کو دیکھتے ہی پہچان لے گا اور کہے گا "اللّٰہ کی قسم تونے تو مجھے جہنم میں گرا ہی دیا تھا" یعنی تیری گمراہ کن باتیں مجھے راہِ ہدایت سے ہٹاسکتی تھی یہ تو اللّٰہ کا فضل ہوا کہ میں جما رہا پھر وہ جنّتی جنّت کی نعمتوں کو دیکھ کر بےحد خوش ہوگا اور خوشی کے مارے کہے گا "کیا اب (واقعی) ہم. کبھی نہیں مریں گے؟" یعنی خوشی میں ایسا نہال ہوگا کہ اسے اللّٰہ کی بےشمار نعمتوں پر بےیقینی کی سی کیفیت طاری ہوگی۔ اخیر میں اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں "بیشک یہ بڑی کامیابی ہے ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔" {الصٰفّٰت 51 تا 61}
مقرب و خاص بندوں کی معمولی سی لغزش پر محاسبہ ہوتا ہے اور یوں بھی انبیاء کو سب سے زیادہ آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ یونسؑ ایک عرصے تک نینوا میں اپنی قوم کو حق کی طرف بلاتے رہے مگر قوم نہ مانی۔ حضرت یونسؑ نے جب عذابِ الٰہی کے آثار دیکھے تو اذنِ خداوندی سے قبل ہی بستی چھوڑ کر جانے لگے۔ ادھر قوم نے اخیر وقت میں توبہ کرلی اور تمام افراد نے ایمان قبول کرلیا جس سے عذابِ الٰہی ٹَل گیا۔ یونسؑ کو اس کی خبر ہی نہ تھی وہ کشتی پر سوار ہوے تو بھاری بوجھ کی وجہ سے درمیان میں کشتی ڈگمگانے لگی فیصلہ ہوا کہ کسی کو پانی میں پھینکنا پڑے گا تاکہ بوجھ ہلکا ہو اور کشتی سنبھل جائے۔ قرعہ اندازی ہوی اور حضرت یونسؑ کا نام نکل آیا، پانی میں پھینکا گیا تو ایک بڑی مچھلی نے نگل لیا۔ حضرت یونسؑ کو احساس ہوگیا تھا کہ یہ ساری آزمائشیں میری ہی خطا کے سبب ہے لہذا وہ ایسے قیامت خیز ماحول میں ذکرِ الٰہی کرنے لگے اور کہنے لگے "تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تیری ذات پاک ہے میں ہی ظالموں میں سے تھا!" بالآخر مچھلی نے ساحل پر اگل دیا۔ {الصٰفّٰت 139 تا 145}
اسلام زندگی کے ہر ایک گوشے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے وہ جہاں فرد کی اصلاح کرتا ہے تو وہیں معاشرے کی فلاح و بہبود کے اصول بھی بیان کرتا ہے۔ جہاں رعایا کو امیر کا پابند رہنے کی نصیحت کرتا ہے تو وہیں امیر کو بھی امارت کے گر سکھاتا ہے۔ یہاں اللّٰہ تعالیٰ نے داؤدؑ کے واسطے سے امارت و سیادت سے متعلق دو بنیادی چیزوں کا حکم دیا ہے پہلا یہ کہ ریاست میں حق و انصاف کا بول بالا ہو اور دوسرا یہ کہ امیر' خواہشِ نفسانی کی پیروی نہ کرے۔ حق و انصاف کا بول بالا ہونے کا مطلب یہ کہ ریاست میں بدعنوانی، کرپشن، اقرباپروری، رشوت خوری، جانبداری، جیسی بیماریاں نہ ہوں اور حکمراں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرے یہ نہیں کہ جو جی میں آئے قانون بنائے جو دل چاہے فیصلے کرے۔ آج ہر ملک کا اپنا قانون ہے، آئین ہے پھر اس کی ہزاروں شقیں ہیں مگر عملی طور پر یہ دو بنیادی احکام مفقود ہیں جس کی وجہ سے امن و امان کا کوئی اتا پتہ نہیں۔ {صۤ 26}
رسولِ اکرمؐ اور آپ کی تعلیمات پر مشرکین مکّہ' آئے دن مختلف اعتراضات کیا کرتے تھے لہذا آپؐ کو حکم دیا گیا کہ آپ ان سے کہہ دیجیے میں تم سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتا اور نہ ہی تکلّف سے کام لیتا ہوں۔ یعنی میری تمام جدوجہد خلوص پر مبنی ہے میں کسی مادّی مفاد کے لیے کام نہیں کررہا اور دوسری بات یہ کہ جو کچھ بھی تمہیں بتاتا ہوں وہ تمام باتیں من جانب اللّٰہ ہیں انہیں اپنی طرف سے تکلّف اور تصنّع کے لبادے میں پیش نہیں کرتا۔ عبداللّٰہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں "تم میں جس کسی شخص کو کسی بات کا علم ہو تو وہ اسے کہہ دے اور جو کوئی نہ جانتا ہو وہ صاف کہہ دے "اللّٰہ ہی جانتا ہے" یعنی صاف گوئی کے ساتھ تکلّف کے بغیر اپنی لاعلمی کا اظہار کردے۔ {صۤ 86}