قرآن کی چند متفرق آیتوں کا خلاصہ {چودہویں تراویح}
✍: - تابش سحر
یہ دنیا اور اس کی سرسبز و شادابی، چمک دمک اور تمام تر رنگینیاں فانی ہیں۔ دنیوی زندگی چند روزہ ہے یہ دراصل وہ دارالامتحان ہے جہاں انسان کو اچھے برے اعمال کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اور ایک وقت آئے گا جب سارے انسانوں کے نتائج کا اعلان ہوگا، انصاف کا ترازو قائم کیا جائے گا، حساب کتاب کی عظیم مجلس قائم ہوگی اور اس میں نیک و بد کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا۔ اسی حساب کے دن سے متعلق لوگوں کو آگاہ کیا جا رہا ہے۔ "لوگوں کے حساب کا وقت آچکا اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوے ہیں۔" یعنی حساب کتاب کا وقت بالکل سر پر ہے اور بجائے اس کی فکر کرنے کے لوگ فانی دنیا کے امور و معاملات میں اپنی توانائی صرف کررہے ہیں۔ عامر بن ربیعہؓ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا مجھے رسول اللّٰہؐ نے عرب کے فلاں علاقے میں ایک وادی عطا کی ہے اور میں اس میں سے زمین کا ایک ٹکڑا آپ کے نام کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ آپ کے لیے اور آپ کے بعدآپ کے خاندان کے لیے (آسودگی کا ذریعہ بنے) عامر بن ربیعہؓ نے جواب دیا "مجھے تمہارے زمین کے ٹکڑے کی ضرورت نہیں" کیوں کہ آج ایک ایسی سورت نازل ہوی ہے جس سے ہمیں دنیا کڑوی معلوم ہو رہی ہے پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ {الانبیاء 1}
حضرت ابراہیمؑ اپنے باپ اور قوم کو کئی زبانی دلائل سے ایک عرصے تک اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ اپنے ہاتھوں سے بنائے گئے یہ بُت خدائی کا درجہ نہیں رکھتے۔ جو نہ سنتے ہوں، نہ دیکھتے ہوں وہ ہماری حاجت روائی کیسے کرسکتے ہیں؟ ایک اللّٰہ کی طرف بلاتے رہے مگر قوم نہ مانی پھر آپ نے ایک عقلی تدبیر اختیار کی۔ آپؑ شہر کے بُت خانے میں داخل ہوے اور سوائے بڑے بُت کے تمام بتوں کو کلہاڑی سے چکنا چور کر دیا۔ لوگ جب واپس آئے اور اپنے بتوں کی یہ درگت دیکھی تو ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ بھلا ایسی جسارت کون کر سکتا ہے اور پھر ان کے ذہن و دماغ میں ابراہیمؑ کا نام گھومنے لگا۔ آپؑ کو لایا گیا اور سب کے سامنے دریافت کیا جانے لگا "ابراہیم کیا یہ تم نے کیا ہے؟" آپ نے فرمایا "(مجھے تو) اسی بڑے بت کی کرم فرمائی لگتی ہے، انہیں سے پوچھ لو اگر یہ بول سکتے ہوں" یہ عقلی تدبیر' تیر بہدف تھی، تمام بت پرست مبہوت ہوکر رہ گئے مگر چوں کہ دلوں پر پردہ پڑا ہوا تھا سو بجائے قبولِ حق کے' داعیِ حق ہی کو سپردِ آتش کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ آگ بھڑکائی گئی تاکہ بتوں کی معاونت ہوں اور بتوں کا دشمن خاکستر ہو جائے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی چالوں کو انہیں پر پھیر دیا اور آگ کو حکم دیا "ٹھنڈی اور سراپا سلامتی ہوجا!" سو ہلاک کر دینے والی آگ خلیل الرحمن ابراہیمؑ کے لیے سلامتی کا ذریعہ بن گئی۔ {النبیاء 51 تا 70}
رات کے اندھیرے میں بکریوں کے ایک ریوڑ نے تیار کھیتی پر حملہ کر دیا اور سب چَٹ کر گئے، کھیت والا اور بکریوں والا دونوں دربارِ داؤدیؑ میں انصاف کے لیے حاضر ہوے۔ حضرت داؤدؑ نے کسان کو ساری بکریاں بطور ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دے دیا کیوں کہ اس کی ساری فصل تباہ ہوگئی تھی اور بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اس معاملے کی درست تفہیم حضرت سلیمٰن کو بخشی تھی سو انہوں نے پورے ادب و احترام کے ساتھ اس فیصلے سے اختلاف کیا اور کہا! بکریوں والا تباہ شدہ کھیت پر محنت کرے اور اس دوران کھیت والا بکریوں سے فائدہ اٹھائے جب فصل تیار ہوجائے تو کھیت' کسان کے سپرد کر دیا جائے اور بکریاں' ان کے مالک کو واپس کردی جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب کسی معاملے میں آپ کی رائے انصاف اور عدل کے زیادہ قریب ہو تو اپنے بڑوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، یہ بےادبی نہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے سلیمٰنؑ و داؤدؑ کو علم و حکمت کا تاج پہنایا تھا۔ داؤدؑ کے لیے پہاڑوں کو مسخر کر دیا گیا تھا، پرندے ان کے ساتھ رب کی تسبیح و تقدیس بیان کرتے، لوہا ان کے لیے نرم کردیا گیا تھا اور زرہ بنانے کی صنعت سکھائی گئی تھی۔ رہے سلیمٰنؑ تو ہوائیں ان کے تابع تھیں اور جنّات ان کے حکم کے پابند! جنّات' وہ تمام کام انجام دیتے جن پر انہیں سلیمٰمؑ مامور کرتے۔ {الانبیاء 78 تا 82}
حدیث شریف میں ہے سب سے زیادہ آزمائشیں انبیاء پر اترتی ہیں پھر دوسرے نیک بندوں پر اور پھر جو ان سے قریب تر ہوں۔ اللّٰہ تعالیٰ اپنے مقرّبین کو سخت حالات میں مبتلا کرتے ہیں اور مقرّبین بھی مقرّبین ٹہرے وہ ہر حال میں صبر کرتے ہیں، خدا ہی کی طرف متوجہ رہتے ہیں، گلے شکوے نہیں کرتے بلکہ عاجزی و انکساری اور یقینِ کامل کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں۔ ایّوبؑ بھی بڑے سخت امتحان میں مبتلا ہوے، اولاد، مال اور صحت کے سلسلے میں انہیں آزمایا گیا۔ ایک عرصے تک وہ بیمار رہے مگر محرومی اور پریشانی کے اس دور میں بھی صبر کا دامن تھامے رہے، اللّٰہ سے بھلائی کی امید قائم رکّھی اور دعاؤں کے سائے میں شب و روز بِتائے بالآخر اللّٰہ تعالیٰ نے صحت بھی عطا کی، اولاد سے بھی نوازا اور مال و دولت کی بھی بارش کی۔ {83 تا 84}
مکّی زندگی میں رسول اللّٰہؐ اور مسلمانوں کو کافروں سے قتال و جنگ کی اجازت نہیں دی گئی تھی بایں وجہ مشرکین کی شر انگیزی پر مسلمان صبر کا گھونٹ پیتے مگر ہجرت کے بعد یہ پابندی ہٹا لی گئی اور اللّٰہ تعالیٰ نے جنگ کی اجازت دے دی اس بنیاد پر کہ مسلمانوں پر ظلم ہوا تھا اور ساتھ ہی نصرتِ خداوندی کا وعدہ بھی فرمایا۔ تعداد میں کم مگر ایمانی طاقت سے سرشار مسلمانوں نے بدر کے میدان میں کافروں کے دانت کھٹے کردیے اور اسی میدان میں اللّٰہ کی مدد کا کھلی آنکھوں سے نظارہ کیا۔ جب جب جہاد کے میدانوں میں ایمان والوں نے پیش قدمی کی سرخروئی اور کامرانی ان کے قسمت میں لکھ دی گئی۔ اپنی جان، مال اور اہل و عیال کی حفاظت کے لیے لڑنا بھی ایک طرح کا جہاد ہے اور ایسے حالات میں لڑنے والے کے لیے بھی اللّٰہ کی مدد آئے گی۔ جہاد کے سلسلے میں نازل ہونے والی آیات میں یہ آیت سب سے پہلے نازل ہوی ہے۔ {الحج 39}
عالم کا سارا نظام امرِ الٰہی کا کرشمہ ہے، وہ ایسا کارساز ہے جو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، کوئی چیز اس سے ڈھکی چھپی نہیں۔ درخت سے ایک پتّہ بھی گرتا ہے تو وہ اذنِ خداوندی سے گرتا ہے۔ اس کی صفتِ تخلیق کی مثالیں ہر سمت نمایاں ہیں پھر چاہے وہ ہیبت ناک سمندر ہو یا چھوٹی سی تتلیاں۔ زمین و آسمان میں کوئی ایسا ہے ہی نہیں جو اس کے کسی وصف میں برابری کا دعویٰ کرسکے لہذا خدائی اسے ہی زیب دیتی ہے۔ مشرکین' معبودانِ باطل کو خدا تصور کرتے ہیں جبکہ یہ فرضی اور جھوٹے معبود ایسے عاجز و بےبس ہیں کہ سب مل کر ایک مکّھی بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ کوئی مکّھی ان کی کوئی چیز اٹھا کر لے جائے تو یہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے۔ یہ مشرکین' ان بےبسوں اور عاجزوں کو کس کے ساتھ شریک کر رہے ہیں مقامِ حیرت ہے! {الحج 73}