راہل گاندھی نرغے میں | Rahul Gandhi in Narga
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
کانگریس پارٹی کے سب سے مضبوط لیڈر جناب راہل گاندھی ان دنوں قانونی شکنجے اور سیاسی نرغے میں ہیں- ان کے ایک بیان پر کہ ’’رقم لے کر بھاگنے والے سارے کا خاندانی لاحقہ مودی ہی کیوں ہیں‘‘ سورت کے چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ ایچ ایچ ورما نے تعزیرات ہند کی دفعہ۰ 500؍ اور دفعہ 499؍ کے تحت ہتک آمیز قرار دے کر دوسال کی سزا سنائی ہے- اپیل کے لیے ایک ماہ کی مہلت دی اور ضمانت دے کر چھوڑ دیا- اگلے دن پارلیامنٹ سکریٹریٹ نے انہیں نا اہل قرار دے کر پارلیامنٹ کی رکنیت ختم کر دی ہے- وہ کیرالہ کے واٹناڈ سے رکن پارلیامنٹ تھے- تیسرے دن انہیں سرکاری مکان خالی کرنے کا نوٹس تھما دیا گیا- سرکاری کام جب اتنی عجلت میں ہونے لگے تو سمجھنا چاہیے کہ دال میں کچھ کالا ہے کہ الیکشن کمیشن کو اس سیٹ کو خالی مان کر انتخاب کرانے میں اپیل کی مدت کے ختم ہونے اور عدالت کے رخ کا انتظا رہے۔
بات دس سال پرانی ہے، جب للی تھامس معاملہ میں سپریم کورٹ نے 10؍ جولائی 2013ء کو عوامی نمائندگی قانونی 1951؍ کی دفعہ 8(2) کو رد کرکے فیصلہ دیا تھا- ممبران پارلیامنٹ واسمبلی کسی بھی مقدمہ میں دو سال کی سزا پاتا ہے تو فوری طور پر اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی اور چھ سال تک وہ نہ تو امیدوار بن سکے گا اور نہ ہی ووٹ دے سکے گا- پہلے ایسا نہیں تھا؛ بلکہ تین ماہ تک فیصلہ کے خلاف اوپر کی عدالت میں اپیل کرنے کی مہلت دی جاتی تھی- اپیل جب تک زیر سماعت رہتی اس وقت تک رکنیت ختم نہیں ہوتی تھی- بلکہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف ریویو پٹیشن بھی دیا جا سکتا تھا اور اس کی سماعت تک رکنیت بر قرار رہتی تھی، مطلب یہ ہے کہ عدالتی چارہ جوئی کی ساری شکلیں ناکام ہوجاتیں تب رکنیت ختم ہوتی تھی۔
من موہن سنگھ کی وزارت میں عدالت کے اس فیصلے کو بدلنے کے لیے آر ڈی ننس لانے کی کوشش کی گئی، جسے راہل گاندھی نے ہی پارلیامنٹ میں بکواس قرار دے کر پھاڑ کر پھینک دیا تھا، اگر وہ آر ڈی ننس پاس ہو جاتا تو آج راہل گاندھی کو یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا، اس فیصلہ کے پہلے شکار لالو پرشاد یادو ہوئے- 2013 میں ان کی پارلیامنٹ کی رکنیت ختم ہوئی، جگدیش شرما، رشید مسعود، مترسین یادو، اعظم خان، عبد اللہ اعظم کی رکنیت کو بھی اسی قانون کے تحت ختم کیا گیا- لکشدیپ کے لوک سبھا ممبر پی پی محمد فیضل کو بھی نکالا گیا- کیرالہ ہائی کورٹ نے فوری طور سے اس فیصلہ پر روک لگائی- معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، لیکن ہائی کورٹ کے روک لگانے کے با وجود انہیں پارلیامنٹ میں گھسنے نہیں دیا جا رہا تھا- گذشتہ دنوں سپریم کورٹ میں اس کی سماعت ہوئی تھی تو فیصلہ کے قبل ہی پارلیامنٹ سکریٹریٹ ان کی رکنیت بحال کر دی۔
اس فیصلہ کا سیاسی پہلو زیادہ اہم ہے اور سب کی نگاہیں اسی پر لگی ہوئی ہیں، جس جملے پر سزا سنائی گئی ہے- اس سے بڑے بڑے ہتک آمیز جملے ماضی میں مختلف سیاسی قائدین کے ذریعہ کہے جاتے رہے ہیں- کسی پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی، کیوں کہ وہ سب منظور نظر تھے- ماضی کے اوراق پلٹیے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری باجپائی نے کہا تھا کہ’’ کیا وجہ ہے کہ مسلمان کسی کے ساتھ چین سے نہیں رہ سکتے‘‘، لال کرشن اڈوانی نے مسلمانوں کو ’’ہندو محمدی‘‘ کہنے کا مشورہ دیا تھا اور کہا تھا کہ’’ تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں، لیکن تمام دہشت گرد مسلمان ہیں‘‘، آر ایس ایس سر براہ ہندوستان کے تمام باشندوں کو ’’ہندو‘‘ کہتے نہیں تھکتے-
سابق دو مرکزی وزراء نے عہدہ پر رہتے ہوئے تمام سیکولر لوگوں کو گالیاں دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’ ملک کے تمام سیکولر لوگ ناجا ئز اولاد ہیں‘‘، فہرست بہت طویل ہے- بہوجن سماج وادی پارٹی کی صدر کو طوائف، دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو، یہ جملے بھاجپا کے دوسرے تیسرے درجہ کے لیڈران کے ہیں- سر فہرست رہنے والے بھاجپا قائدین کے بیان میں سونیا گاندھی کو کانگریس کی بیوہ، کانگریس ایم پی ششی تھرور کی آنجہانی بیوی سونندا کو پچاس کروڑ کی گرل فرینڈ، سی اے اے، این آر سی کے خلاف تحریک چلانے کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’دنگائی اپنے کپڑوں سے پہچانے جاتے ہیں‘‘ یہ اور اس قسم کے جملے بھی ہتک آمیز ہیں، جو ایک خاص طبقہ کو ذلیل کرنے کے لیے استعمال کیے گیے- کیا ان جملوں پر کاروائی نہیں ہونی چاہیے تھی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوسکا-
گاج گری تو راہل پر، وہ بھی کرناٹک سے مقدمہ سورت ٹرانسفر کرانے کے بعد- اب بھاجپا اور کانگریس سڑکوں پر اتر رہے ہیں- بھاجپا اس جملے کو دلت مخالف کہہ کر عوام کے پاس جائے گی اور کانگریس عوام کو بتائے گی کہ راہل کی رکنیت کا ختم کرنا ایک سازش کے تحت ہے، تاکہ وہ پارلیامنٹ میں مودی اور اڈانی کے رشتوں پر مزید روشنی نہ ڈال سکیں۔
راہل گاندھی کے ساتھ پوری کانگریس اور اٹھارہ (18) پارٹیاں کھڑی ہیں- معاملہ ہی کچھ ایسا ہے، ابھی علامتی دھرنے اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا ہے، یہ زور بھی پکڑ سکتا ہے-
کانگریس کو اتنا فائدہ تو ضرور ہوا ہے کہ حزب مخالف اس فیصلے کے خلاف ایک آواز ہو گیا ہے- ممتا بنرجی اور محبوبہ مفتی کانگریس سے دوری بنائے رہنے کے اپنے عزم کے باوجود اس معاملہ میں راہل کی حمایت میں بول رہی ہیں- سیاسی تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ اگلے انتخاب میں کانگریس کو اس فیصلہ کی وجہ سے ہمدردی کا ووٹ بھی مل سکتا ہے، جیسا اندرا گاندھی کے ساتھ 1977 کے بعد 1980 میں ہوا تھا اور اکثریت سے ان کی اقتدار میں واپسی ہوئی تھی۔
اس واقعہ کے بعد راہل گاندھی نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں اڈانی اور وزیر اعظم کے رشتوں پر سوال اٹھائے- بیس ہزار کروڑ روپے کہاں سے آئے؟ اس کو دہرایا اور کہا کہ ہم ساورکر نہیں، گاندھی ہیں، گاندھی معافی نہیں مانگتے- یقینا راہل گاندھی ساور کر نہیں ہیں، لیکن یہ بھی سچ نہیں ہے کہ انہوں نے کبھی معافی نہیں مانگی- دو تین بارکی معافی تو ہم جیسوں کو بھی یاد ہے، آر ڈی ننس کی کاپی 2013 میں انہوں نے پھاڑی تھی اس کی معافی انہوں نے 2018 میں مانگی- 2018 میں رافیل معاملہ پر پھنسنے کے بعد انہوں نے 2020 میں معافی مانگی تھی2018 میں ’’چوکیدار چور ہے‘‘ کہنے پر 2019 میں وہ معافی مانگ کر بچے تھے- معافی مانگنے والے راہل گاندھی اکیلے نہیں ہیں- دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال پر آنجہانی ارون جیٹھلی نے دس کروڑ روپے کا ہتک عزتی کا مقدمہ کیا تھا- تین سال بعد اروند کیجری وال نے تحریری معافی مانگ کر اس مقدمہ سے چھٹکارا پایا تھا-
انہوں نے مختلف معاملات میں کپل سبل اور نتن گڈکری سے بھی معافی مانگ کر خود کو بچایا تھا، لیکن اس معاملہ میں راہل گاندھی ایسا نہیں کر سکے اور پارلیامنٹ کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ کہتے ہیں کہ کرکٹ اور سیاست میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا- اس لیے انتظار کیجئے اور دیکھیے آگے آگے ہوتا ہے کیا۔