قرآن کی چند متفرق آیتوں کا خلاصہ
{تیرہویں تراویح}
✍: - تابش سحر
حضرت زکریاؑ بوڑھے ہوچکے تھے، ان کی اہلیہ بانجھ ہوچکی تھی اور انہیں اس بات کا خدشہ لاحق تھا کہ ان کے بعد لوگ میراثِ نبوّت کی حفاظت نہیں کرسکیں گے، علم کی دولت ضائع کریں گے اور دینِ الٰہی میں تحریف کریں گے۔ سو انہوں نے اپنی اور اپنی اہلیہ کی کبر سنّی کے باوجود نیک صالح اولاد کے لیے دعا مانگی تاکہ وہ میراثِ نبوّت کی حفاظت کرے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے دعا قبول کی اور انہیں یحییٰؑ نامی لڑکے کی بشارت سنائی۔ یحییٰؑ باپ کی توقع کے عین مطابق پروان چڑھے، بچپن ہی میں انہیں فہم و فراست بخشی گئی اور وہ نبوّت سے سرفراز ہوے۔ صدقِ دل اور نیک نیتی سے مانگی گئی دعائیں رد نہیں ہوتیں اور جب اللّٰہ تعالیٰ نوازتا ہے تو دنیا کی کوئی رکاوٹ آڑے نہیں آسکتی لہذا کیسے بھی مشکل حالات ہوں اللّٰہ سے لو لگانی چاہیے! {مریم 1 تا 15}
جس طرح حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش خدا کا کرشمہ ہے بالکل اسی طرح ایّامِ رضاعت میں ان کا بولنا بھی خدا کا معجزہ تھا۔ جب کنواری مریم' حضرت عیسیٰؑ کو لیے اپنی قوم کے پاس آئی تو لوگ طرح طرح کی باتیں کرنے لگے اس پر پاکباز مریم نے کچھ بھی نہیں کہا صرف اپنے بچّے کی جانب اشارہ کردیا۔ لوگ کہنے لگے یہ بچّہ کیا بات کرے گا؟ فوراً عیسیٰؑ بول پڑے "میں تو اللّٰہ کا بندہ ہوں، اسی نے مجھے کتاب عطا کی اور مجھے نبی بنایا۔" جس نبیؑ نے اپنی زبان سے سب سے پہلے جو الفاظ ادا کیے وہ عبادتِ خداوندی، کتابِ الٰہی اور نبوّت سے متعلق تھے اس کے پیروکاروں نے ان کی تمام تر تعلیمات کو پس پشت ڈال کر بندے کو خدا یا خدا کا حصّہ بنادیا۔ نصاریٰ نے اپنے دین میں کیسی عجیب و غریب تحریفات کیں یہ اس کا واضح ثبوت ہے۔ {مریم 30}
ہر ایک انسان کا جہنم سے واسطہ پڑے گا پھر چاہے وہ مومن ہو یا کافر، صالح و متقی ہو یا فاسق و فاجر البتّہ مومنین و متقین کو اللّٰہ تعالیٰ نجات عطا کریں گے اور جہنّم کی آگ ان کے لیے ایسے ہی ٹھنڈی ہوجائے گی جیسے ابراہیمؑ کے لیے نارِ نمرود سلامتی کا ذریعہ بن گئی تھی۔ منکرینِ خداوندی کے لیے ورودِ جہنّم وبال کا سودا بن جائے گا، جہنّم کی آگ انہیں پکڑ لے گی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی میں پڑے رہیں گے۔ ایک مرتبہ عبداللّٰہ بن رواحہؓ رونے لگے انہیں روتا دیکھ کر ان کی اہلیہ بھی رونے لگی۔ عبداللّٰہؓ نے پوچھا تم کیوں روتی ہو؟ انہوں نے کہا آپ کو روتا دیکھ کر میں بھی رو پڑی۔ آپؓ نے فرمایا مجھے تو اللّٰہ کا فرمان یاد آگیا "تم میں سے کوئی ایسا نہیں جو جہنّم پر وارد نہ ہو۔" اب میں نہیں جانتا کہ جہنّم سے نجات پاؤں گا بھی یا نہیں! {مریم 71}
جو کوئی مومن اعمالِ صالحہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیتا ہے، اللّٰہ تعالیٰ خود بھی اس سے محبت کرتا ہے اور مومنوں کے دلوں میں بھی اس کی الفت و محبت ڈال دیتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے جب اللّٰہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریلؑ کو آواز دیتا ہے "میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو" پھر یہی اعلان آسمان پر ہوتا ہے اور سارے فرشتے اس انسان سے محبت کرنے لگتے ہیں بعد ازاں محبت کا یہی پیام زمین پر اترتا ہے۔ {مریم 96}
جو کوئی ذکرِ الٰہی سے اعراض کرتا ہے یعنی احکاماتِ خداوندی کی خلاف ورزی کرتا ہے اور رسولوں کی تکذیب و نافرمانی کرتا ہے اس کے لیے تنگ زندگی ہوگی یعنی دل کو قرار نہ ہوگا، شرحِ صدر سے محرومی ہوگی، دنیا میں بھلے ہی وہ عمدہ سے عمدہ لباس زیبِ تن کرے، نفیس سے نفیس مطعومات سے لطف اندوز ہو، شاہی محلّات میں قیام کرے مگر دل بےسکون و مضطرب ہوگا اور بروزِ قیامت اسے اندھا اٹھایا جائے گا۔ اندھا اٹھائے جانے کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ اس کے پاس بچنے کی کوئی دلیل نہ ہوگی اور دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ حقیقتاً اسے اندھا اٹھایا جائے گا لہذا کافروں کے ٹھاٹ باٹ اور ظاہری شان و شوکت سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے یہ لوگ صریح خسارے میں مبتلا ہیں۔ {طه 124}
"اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دو اور خود بھی پابندِ صلوہ رہو، ہم تم سے رزق کا سوال نہیں کرتے، رزق تو ہم دینے والے ہیں۔" نماز چوں کہ شریعتِ اسلامیہ کا نہایت اہم رکن ہے بایں وجہ خود بھی اس پر جمنے اور اہل و عیال کو بھی اس پر ابھارنے کی تلقین کی گئی پھر فوراً رزق کا تذکرہ کرنے میں ایک لطیف حکمت یہ بھی ہے کام دھندے اور کاروبار کی مصروفیت میں نماز کو نظرانداز مت کرو بلکہ ترجیح نماز کو دو رزق خود چل کر تمہارے پاس آئے گا کیوں کہ رزق تقسیم کرنے کی ذمےداری ہماری ہے۔ حدیثِ قدسی میں ہے اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں "اے آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لیے یکسو ہوجا، میں تیرا سینہ بےنیازی سے بھردوں گا، تیرا فقر دور کردوں گا اور اگر تونے ایسا نہ کیا تو میں تیرا دل {دنیا کے امور میں} مشغول کردوں گا اور فقر کا ازالہ بھی نہیں کروں گا۔ {طه 132}