تقسیم زکوٰۃ - چند گذارشات How to distribute zakat
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
زکوٰۃ مالداروں پر فرض ہے اور اسلام میں مالداری کا تصور حوائج اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اس کی قیمت سے زیادہ مال کا ملکیت میں ہونا ہے، وجوب زکوٰۃ کے لیے اس زائد مال پر سال بھی گذر نا چاہیے، یہ سال تمام مسلمانوں کے مال پر ایک ساتھ تو گذر نہیں سکتا،اس لیے زکوٰۃ کے لیے سب کا مالی سال الگ الگ ہوتا ہے، یہ الگ سی بات ہے کہ بیش تر لوگ وجوب زکوٰۃ کے باوجود ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں اور رمضان المبارک کو اپنا مالی سال ادائیگی زکوٰۃ کے لیے سمجھتے ہیں، اس موقع سے کثرت سے زکوٰۃ کی تقسیم ہوتی ہے ۔
زکوٰۃ کن لوگوں کو دینی ہے- اس کے مدات قرآن کریم میں مذکور ہیں، فقراء، مساکین، زکوٰۃ جمع کرنے والے عاملوں اور اس سے متعلق کام کرنے والے، تالیف قلب کے لیے غلام کو آزاد کرانے کے لیے، قرض کی ادائیگی کے لیے، اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کے لیے اور مسافروں کے ساتھ نا گہانی حادثات کے موقع سے زکوٰۃ کی رقم دی جا سکتی ہے- غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے مصارف وہ ہیں جن میں مسلمانوں کی شخصی ضروریات، اجتماعی حفاظت اور حقیقی یا امکانی شرور وفتن کے دفاع کو ملحوظ رکھا گیا ہے- حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ نے فقر اور سفر کو تمام مدات کا خلاصہ بتایا ہے- بعض مدات میں ان دنوں بغیر کسی دلیل کے تیزی سے لوگ توسع کیے جا رہے ہیں- سارے لوگوں کی نگاہ زکوٰۃ پر ہے- کتابیں بھی اس سے چھپوائی جا رہی ہیں- چلت پھرت کا کام بھی اسی مد سے کرایا جا رہا ہے- ایک بڑی رقم زکوٰۃ کی خود کفیل بنانے اور امپاورمنٹ کے نام پر صرف کی جا رہی ہے- بعضوں کی تجویز تو یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ کی رقم جمع کر کے کار خانہ کھول دو اور غیر مستطیع کو ملازمت سے لگا دو- وہ سب خود کفیل ہو جائیں گے- یہ غیر اسلامی تصور تیزی سے مسلمانوں میں پروان چڑھ رہا ہے- اتنا سرمایہ انفرادی طور پر جمع کرنا آسان کام نہیں- اس لیے اجتماعی نظام زکوٰۃ کی اہمیت پر سمینار، سمپوزیم کر کے ماحول کو سازگار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے- یہاں بھی پریشانی یہ ہے کہ اجتماعی نظام زکوٰۃ کے قیام کے نام پر چند افراد مل کر ایک تنظیم بنا لیتے ہیں اور کام شروع کر دیتے ہیں، حالاں کہ اجتماعی نظام بغیر امیر کی اجازت کے قائم نہیں ہو سکتا-
ہندوستان میں امارت شرعیہ مختلف صوبوں میں قائم ہے- وہاں کے امیر کی اجازت سے اجتماعی نظام قائم ہو سکتا ہے، چونکہ مسلمانوں میں مسلکی اور تنظیمی بنیادوں پر بھی جماعت جمعیت اور امارت قائم ہے، اس لیے جو جس جماعت سے متعلق ہے کم سے کم اس جماعت کے امیر کی اجازت تو لے لے- بیت المال کا قیام یقینا شرعی ضرورت ہے، لیکن اس کے قیام کے لیے بھی کچھ شرائط ہیں- ان کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، ورنہ ہم ایک شرعی کام غیر شرعی انداز میں کرنے کے مرتکب ہوں گے ۔
اس موقع سے مدارس کے سفراء بڑی تعداد میں زکوٰۃ کی وصولی کے لیے نکلتے ہیں- اس کام کے لیے ان کے پاس مختلف تنظیموں کے تصدیق نامے ہوتے ہیں- یہ ان طلبہ کے لیے زکوٰۃ کی رقم اکھٹی کرتے ہیں جو ان کے یہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور غیر مستطیع ہوتے ہیں- اصلا یہ مہتمم، ناظم صاحبان کے واسطے سے طلبہ کے وکیل ہوتے ہیں- ان کو دینے سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا ثواب بھی ملتا ہے اور اشاعت دین کا بھی۔
آج کل بہت سارے مدارس رسید پر ہی ہوتے ہیں- زکوٰۃ کی رقم دیتے وقت اس کی تحقیق کر لینی چاہیے- اس تحقیق کی تکمیل قابل ذکر اداروں کے ذریعہ دیے گیے تصدیق ناموں سے بھی ہو جاتی ہے- امراء کے یہاں ایک رواج یہ بھی چل پڑا ہے کہ وہ سابقہ ریکارڈ دیکھ کر رقم کی ادائیگی کرتے ہیں اور اس طرح وہ بار بار کی تحقیق سے بچ جاتے ہیں- جن مدارس کے پاس پہلے کا رکارڈ نہیں ہوتا، انہیں یہ کہہ کر واپس کر دیتے ہیں کہ ’’ہم نئے مدرسے کو نہیں دیتے‘‘، یہ اچھی بات نہیں ہے- ہو سکتا ہے وہ مدرسہ بہت معیاری ہو- کمی صرف یہ ہے کہ آپ کے پاس پہلے نہیں پہونچ پایا تھا- آپ کو تحقیق کا تو حق ہے- دینے کی گنجائش نہیں ہے تو معذرت اور معافی بھی ایک شکل ہے، لیکن یہ جملہ ٹھیک نہیں ہے کہ ہم ’’نئے کو نہیں دیتے‘‘ اس لیے کہ اس جملہ کے بدلہ میں اگر اللہ نے آپ کو کچھ نئے دینے کا سلسلہ روک دیا تو آپ کی ساری امیری کچھ ہی دن میں غریبی میں بدل جائے گی۔
محصلین کے ساتھ امراء کا رویہ عموما ہتک آمیز رہتا ہے- اس سے بھی اجتناب ضروری ہے- اکرام مسلم شرعی چیز ہے اور مسلمان بھی جو عالم حافظ قاری ہو اور اپنے لیے نہیں دینی تعلیم کے فروغ اور مہمانان رسول کی خدمت کے لیے اس کام کے لیے آپ تک پہونچا ہو، ایسوں کی توہین اللہ رب العزت کی ناراضگی کا سبب بن جائے تو کچھ بعید نہیں۔
یقینا محصلین بھی الگ الگ نوعیت کے ہوتے ہیں- سب متقی، پر ہیز گار اور شریعت کے پابند اس قدر نہیں ہوتے جیسا ہونا چاہیے، بعضے تو رکارڈ کو ادھر اُدھر کرنے اور جھوٹ بولنے سے بھی پرہیز نہیں کرتے، ایسے لوگوں کو اپنے اندر تبدیلی لانی چاہیے-
محصلین میں ایک بات قدر مشترک ہونی چاہیے کہ وہ اس کام کو عزت نفس کے ساتھ کریں، گڑگڑانا، کاسہ لیسی کرنا، خوشامد کرنا یہ علماء کے شایان شان نہیں ہے- ان کو ’’جو دے اس کا بھی بھلا اور نہ دے اس کا بھی بھلا‘‘ کے فارمولے پر عمل کرنا چاہیے- اس سے کام میں برکت بھی ہوتی ہے اور عالمانہ کردار اور داعیانہ وقار بھی محفوظ رہتا ہے۔
زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے وقت اپنے اعز و اقرباء اور اپنے قرب و جوار کے غرباء و مساکین کا بھی خیال رکھیں- پیشہ وارانہ لوگوں کی بات میں نہیں کرتا، ایسے لوگ جو روزی حاصل نہیں کر پا رہے ہیں اور ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے بچنا بھی چاہتے ہیں- ان کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ انجان لوگ انہیں مالدار سمجھتے ہیں، حالاں کہ وہ غریب ہوتے ہیں- لپٹ کر مانگنا ان کا شیوہ نہیں ہوتا- ایسے لوگ ہماری توجہ کے زیادہ مستحق ہیں- اگر آپ انہیں مستحق زکوٰۃ سمجھتے ہیں تو بغیر بتائے بھی ان پر یہ رقم خرچ کر سکتے ہیں- زکوٰۃ آپ کی ادا ہو جائے گی۔