قرآن کی چند متفرق آیتوں کا خلاصہ
{دسویں تراویح}
✍: - تابش سحر
حضرت نوحؑ نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو جگایا، جھنجھوڑا، اللّٰہ کی طرف بلایا مگر اکثریت کا یہ حال تھا کہ وہ ٹس سے مس نہ ہوے۔ دعوتِ حق قبول کیا کرتے انہوں نے تو پیغمبرؑ اور اس کی تعلیمات کا مذاق اڑانا شروع کردیا بالآخر ان کے حق میں عذابِ الٰہی کا فیصلہ ہوگیا۔ نوحؑ نے حکمِ خداوندی سے کشتی بنائی اور اس میں اہلِ ایمان کو سوار کرلیا پھر چہار جانب پانی ہی پانی تھا اور منکرینِ حق ڈوب رہے تھے، انہیں آفت کے ماروں میں حضرت نوحؑ کا ایک بیٹا کنعان بھی تھا، آپؑ نے اسے سمجھایا۔ آج عذابِ الٰہی سے کوئی بچنے والا نہیں سو دینِ حق قبول کرلے اور کشتی میں سوار ہوجا۔ وہ کہنے لگا میں کسی اونچے پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا۔ ابھی یہ مکالمہ جاری ہی تھا کہ ایک بڑی موج اٹھی اور کنعان غرق ہوگیا۔ دنیا میں صرف ایمان والے ہی باقی رہ گئے اور تمام سرکشوں اور منکروں کا خاتمہ ہوگیا۔ طوفان تھمنے کے بعد پیغمبرؑ نے خدا سے سوال کیا "بارِ الٰہا! میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے تھا اور تیرا وعدہ سچّا ہے" یعنی تونے اہل و عیال کی حفاظت کا وعدہ کیا تھا سو اسے لوٹا دے! جواب آیا "وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں تھا بلکہ وہ وہ تو بگڑے اعمال {کا جیتا جاگتا نمونہ} تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا کے یہاں حسب نسب کام نہیں آتا بلکہ ایمان و اعمال ہی کا سکّہ چلتا ہے۔ {ھود 36 تا 46}
حضرت ھودؑ نے قومِ عاد کی خیرخواہی میں اپنی پوری عمر لگادی، انہیں شرک کی نحوست اور خباثت سے مطلع کیا اور توبہ و استغفار کی تعلیم دی مگر ہٹ دھرم قوم کہنے لگی۔ "اے ہود! تو ہمارے پاس کوئی صریح شہادت لے کر نہیں آیا اور صرف تیرے کہنے پر ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے" اور "ہمیں تو لگتا ہے کہ تجھ پر ہمارے ہی کسی معبود کی مار پڑی ہے۔" حضرت ھودؑ نے شرک سے بیزاری کا اعلان کیا، اللّٰہ پر بھروسہ کیا اور اپنی قوم کو صاف طور پر کہہ دیا کہ میرا کام پیغامِ خداوندی پہنچانا تھا سو میں پہنچا چکا اب تمہیں جو کرنا ہے کرلو! قومِ عاد شرک کے دلدل میں دھنسی رہی یہاں تک کہ عذابِ الٰہی نے آپکڑا اور بجز ایمان والوں کے تمام ہلاک و برباد ہوگئے۔ {ھود 50 تا 60}
حضرت صالحؑ نے قومِ ثمود کو ان کی بےراہ روی پر ٹوکا، راہِ حق کی طرف بلایا اور عبادتِ خداوندی کا حکم دیا۔ قومِ ثمود کا جواب تھا "صالح! ہمیں تو تم سے بڑی امّیدیں تھیں" کہ تم اپنی صلاحتیں بروئے کار لاتے ہوے قوم و ملک کا بڑا نام کروگے مگر یہ کیا کہ تم ہمیں اپنے باپ دادا کے مذہب سے ہٹادینا چاہتے ہو، جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہیں اس میں ہمیں سخت شبہ ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے بطور معجزہ ایک اونٹنی بھیجی، صالحؑ نے قوم کو آگاہ کردیا کہ یہ اللّٰہ کی اونٹنی ہے خبردار! اسے کوئی ضرر نہ پہنچانا۔ ظالموں نے اونٹنی کو مار ڈالا اور پیغمبر نے حکمِ خداوندی پاکر اعلان کردیا کہ "اب اپنے دیار میں فقط تین دن مزے کرلو" پھر خدا کے نام لیواؤں کے علاوہ قومِ ثمود کا ایک ایک فرد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ جن زمینوں پر وہ اکڑ کر چلتے تھے وہیں پر ان کی لاشیں بےحس و حرکت پڑی تھیں۔ {ھود 61 تا 68}
حضرت شعیبؑ نے مدین والوں کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا، توحیدِ خالص کی دعوت دی اور انصاف کے ساتھ تولنے کی نصیحت کی۔ قوم کا جواب تھا "اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے حکم دیتی ہے کہ کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑدیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے اور کیا ہم اپنے ہی مال کو اپنی من مرضی کے مطابق خرچ نہیں کرسکتے؟" پھر طنز کرتے ہوے کہنے لگے "تم تو عقل مند اور نیک چلن آدمی ہو" شعیبؑ نے قومِ نوح، عاد، ثمود اور قومِ لوط کے انجام سے عبرت دلائی مگر وہ یہی کہتے رہے کہ ہمیں تیری اکثر باتیں سمجھ میں ہی نہیں آتی ہے، اگر تیری برادری نہ ہوتی تو ہم کب کا تجھے سنگسار کرچکے ہوتے۔ آخرکار خدا کی پکڑ آگئی، پیغمبرؑ اور ان کے متبعین کے علاوہ تمام باشندگانِ مدین نیست و نابود ہوگئے۔ {ھود 84 تا 95}
حضرت یعقوبؑ اپنے بیٹے یوسفؑ کے ماتھے پر اقبال مندی کے ستارے دیکھ چکے تھے نیز یوسفؑ کا خواب بھی بڑا مبارک تھا بایں وجہ یعقوبؑ انہیں بےحد عزیز رکھتے۔ برادرانِ یوسفؑ حسد کا شکار ہوگئے اور انہوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ ہم یوسفؑ کو راستے ہی سے ہٹادیں گے تاکہ باپ کی محبّت صرف اور صرف ہمارے لیے باقی رہ جائے چنانچہ انہوں نے ننھے یوسفؑ کو کنویں میں ڈال دیا اور باپ کو یہ کہانی سنائی کہ یوسفؑ کو بھیڑیے نے کھالیا ہے۔ ادھر ایک قافلے والوں نے پانی کے لیے کنویں میں ڈول ڈالا تو یوسف برآمد ہوے، قافلے والوں نے انہیں بازارِ مصر میں فروخت کردیا۔ خریدار' عزیزِ مصر تھا اسی کے محل میں یوسفؑ پروان چڑھے۔ عنفوانِ شباب میں عزیزِ مصر کی بیوی زلیخہ نے یوسفؑ کو گناہ کی طرف بلایا مگر عین موقع پر خدائی اشارہ پاکر یوسفؑ سنبھل گئے اور دروازے کی سمت لپکے۔ اسی دوران عزیزِ مصر لوٹ آیا اور زلیخہ نے سارا الزام یوسفؑ پر ڈال دیا۔ قرائن و شواہد سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یوسفؑ بےقصور ہے مگر پھر بھی زلیخہ نے اپنی سیاسی پوزیشن کا غلط استعمال کرتے ہوے یوسفؑ کو زندان کی صعوبت میں مبتلا کردیا۔ کئی سال یوسفؑ زندان میں قید رہے اس دوران دعوتِ حق کا فریضہ انجام دیا۔ بادشاہِ مصر نے عجیب و غریب خواب دیکھا جس کی تعبیر اور حالات سے نمٹنے کے لیے حکمتِ عملی یوسفؑ نے بتائی۔ شاہِ مصر متاثر ہوا اور انہیں زندان سے نکالنے کا فرمان جاری کیا۔ آپؑ نے پہلے اپنی بےگناہی ثابت کروائی پھر وزارتِ خزانہ کا قلمدان تھام لیا بعد ازاں تختِ شاہی پر متمکن ہوے۔ قحط کے زمانے میں آپؑ نے بحسن و خوبی حکومت کی اس دوران برادرانِ یوسف اناج کی حصولیابی کے لیے درِ یوسفؑ پر حاضر ہوے۔ آپؑ نے انہیں پہچان لیا اور تدبیر اختیار کرتے ہوے اپنے سگے بھائی بنیامین کو اپنے پاس روک لیا۔ اگلی ملاقات میں بھائیوں کے سامنے اپنی حقیقت بیان کی اور انہیں معافی کا پروانہ بھی عطا کردیا پھر یعقوبؑ، ان کی اہلیہ اور تمام اولاد سرزمینِ مصر پہنچ گئے۔ ماں باپ اور گیارہ بھائیوں نے یوسفؑ کو سجدۂِ تعظیمی کیا جس پر یوسفؑ کہنے لگے "اے میرے ابّا جان! یہ تو میرے پرانے خواب کی تعبیر ہے" کہ سورج، چاند اور گیارہ ستارے مجھے سجدہ کررہے ہیں۔ (مخلوق کے لیے سجدۂِ تعظیمی سابقہ شریعتوں میں جائز تھا، شریعتِ محمدیؐ میں سجدۂِ تعظیمی ممنوع ہے۔) {یوسف 1 تا 104}