قرآن کی چند متفرق آیتوں کا خلاصہ
{اٹھارویں تراویح}
✍: - تابش سحر
جو شخص دنیوی مصروفیات اور مشغولیات کے باوجود اپنے خالق و مالک کے لیے وقت نکالتا ہے۔ پاکیزگی اختیار کرکے نماز پڑھتا ہے اس سے اس کی ایمانی و روحانی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دل منوّر ہوتا ہے، تطہیرِ قلبی حاصل ہوتی ہے، ایمان میں اضافہ ہوتا ہے، تقویٰ پیدا ہوتا ہے، خیر کی طرف رغبت ہونے لگتی ہے اور گناہوں سے وحشت ہونے لگتی ہے۔ اگر نماز گناہوں سے نہ روکے اور طاعات پر نہ ابھارے تو ضرور نماز ہی میں کوئی غفلت سرزد ہورہی ہوگی جیسے خشوع خضوع مفقود ہوگا یا نماز ریاکاری پر مبنی ہوگی یا رسمی طور پر نماز پڑھی جارہی ہوگی ورنہ یہ یقینی بات ہے کہ نماز گناہوں سے روک دیتی ہے۔ حضورؐ سے کسی نے شکایت کی کہ فلاں آدمی رات کو نماز پڑھتا ہے اور صبح چوری کرتا ہے آپؐ نے فرمایا عنقریب اس کی نماز اسے چوری سے روک دے گی۔ نماز میں اصل مطلوب و مقصود ذکرِ الٰہی ہے، نماز کے ہر رکن میں ذکر و تسبیحات کا اہتمام کیا جاتا ہے اسی لیے نماز کا فائدہ ذکر کرنے کے بعد کہا گیا "اللّٰہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے!" {العنکبوت 45}
جس ملک یا علاقے میں کفار کا غلبہ ہو، اقامتِ دین امرِ محال ہوجائے، شریعت کے احکامات پر عمل آوری ممکن نہ ہو اور شعائرِ اسلام پر پابندیاں لگائی جائے ایسے موقع پر مومنین کو ہجرت کی راہ دکھائی گئی۔ وہ بروزِ قیامت یہ عذر پیش نہیں کرسکتے کہ ہم تو شریعت کی پاسداری کرنا چاہتے تھے مگر ہمارے وطن میں بندشیں تھیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے صاف کہہ دیا "اے میرے مومن بندو! میری زمین کشادہ ہے سو میری ہی عبادت کرو۔" یعنی اگر کسی علاقے میں عبادتِ خداوندی نہیں کی جاسکتی تو وہ علاقہ ہی چھوڑ دو ہجرت کرو۔ ہجرت کی راہ میں دو سب سے بڑی رکاوٹیں آسکتی ہیں ایک تو جان کا خدشہ ہوگا کہ کافرین و اعدائے اسلام حملہ کردیں گے تو یہ کہہ کر اس خوف کا مداوا کردیا گیا کہ ایک دن ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہی ہے۔ دوسرا خدشہ رزق کا ہوسکتا ہے کہ نئی جگہ پر روزگار کیا ہوگا؟ کھائیں گے پئیں گے کیا؟ تو اس کا جواب اگلی آیتوں میں بتادیا گیا کہ رزق تو اللّٰہ ہی دیتا ہے۔ ایک مسلمان کیسے بھی حالات ہوں شریعت کا مکلف بنایا گیا ہے وہ کسی بھی قیمت پر اس سے دستبرداری اختیار نہیں کرسکتا۔ {العنکبوت 56}
اہلِ فارس آتش پرست مشرک تھے اور رومی اہلِ کتاب! ان دونوں کے مابین جنگ ٹھن گئی۔ مشرکینِ مکّہ چاہتے تھے فارس جیت جائے کیوں کہ وہ بھی شرک میں مبتلا تھے اور مسلمانوں کی خواہش تھی اہلِ کتاب فتحیاب ہو کیوں کہ وہ مشرکوں کے مقابلے مسلمانوں سے قریب تھے اور کئی مذہبی امور میں ان کے درمیان یکسانیت پائی جاتی تھی۔ خوں ریز جنگ ہوی جس میں فارسیوں نے رومیوں کو شکست دے دی، قسطنطنیہ تک فتح کرلیا اور وہاں ایک آتش کدہ تعمیر کیا۔ مشرکینِ مکّہ خوشیاں منانے لگے اور طعنے کسنے لگے، کہتے تھے جس طرح اہلِ کتاب کو فارسی مشرکوں نے شکست دی اسی طرح ہم بھی تم پر غالب آجائیں گے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے سورۃ الروم کی تیسری آیت میں غیب کی خبر سنائی کہ عنقریب رومی غالب آجائیں گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جب یہ آیتیں سنیں تو مکّہ والوں میں اعلان کردیا کہ رومی غالب آئیں گے اس پر ابی بن خلف نے سو اونٹوں کی شرط لگائی {اس وقت قمار کی حرمت کا حکم نہیں آیا تھا} کچھ سال گزرنے کے بعد رومیوں نے فارسیوں پر ایسا زوردار حملہ کیا کہ انہیں مفتوحہ علاقے چھوڑ کر بھاگنا پڑا، اللّٰہ کا وعدہ پورا ہوکر رہا اور مومنین خوش ہوے۔ ابی بن خلف کے وارثوں نے سو اونٹ پیش کیے اب چوں کہ قمار کی حرمت کا حکم آچکا تھا سو حضرت ابوبکرؓ نے فرمانِ مصطفیٰؐ کی تعمیل میں ان تمام اونٹوں کو صدقہ کردیا۔ {الروم 3}
انسان جب اس دھرتی پر آنکھ کھولتا ہے تو نہایت کمزور و لاغر ہوتا ہے، ہر چیز کے لیے دوسروں کا محتاج ہوتا ہے اپنا کوئی کام خود سے انجام نہیں دے پاتا۔ ایک عرصے بعد جوانی کا دور آتا ہے تو توانائی اور قوّت و طاقت نصیب ہوتی ہے مگر پھر ایک مدّت بعد بڑھاپا چھا جاتا ہے اور انسان دوبارہ نحیف ہوجاتا ہے۔ زندگی کے تین ادوار میں سے دو ادوار ضعف و محتاجی والے ہوتے ہیں اور ایک دور قوّت و توانائی والا۔ خردمندی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ انسان قوت و توانائی والے دور میں اللّٰہ کو یاد کرے، نیک کام کرے، ایمان لے آئے مگر منکرینِ خداوندی اس دور میں اعتراضات کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد دوبارہ کیسے پیدا کیے جائیں گے؟ قیامت کیوں کر برپا ہوگی؟ جنّت جہنّم افسانوی چیزیں ہیں! وغیرہ جبکہ خود انسان کا اپنا وجود اس بات کی دلیل ہے کہ جس نے حیرت انگیز طور پر انسان کو پیدا کیا، زندگی عطا کی، ضعف قوّت اور پھر ضعف کے مرحلے سے گزارا اس کے لیے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنا کچھ بھی مشکل کام نہیں۔ {الروم 54}
لقمان' اللّٰہ کے نیک بندے، حبشی غلام اور بڑھئی تھے جنہیں علم دیا گیا تھا اور حکمت عطا کی گئی تھی۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوے کہا بیٹا شرک نہ کرنا شرک ظلمِ عظیم ہے، والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، نماز قائم کرنا، نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا، مصائب پر صبر کرنا، لوگوں سے ملاقات و گفتگو کے وقت اپنا رخ نہ پھیرلینا، زمین پر اکڑ کر نہ چلنا، چال میں میانہ روی اختیار کرنا، اپنی آواز کو پست رکھنا اور یاد رکھنا اللّٰہ کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوے ہے کوئی چیز اس سے ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی۔ حضرت سعید بن مسیّبؒ کے پاس ایک آدمی آیا جو اپنے کالے رنگ کی وجہ سے احساسِ کمتری کا شکار تھا۔ آپؒ نے فرمایا "اپنی کالی رنگت کے سبب غم نہ کرو! لوگوں میں بہترین انسان تین افراد تھے جو کالی رنگت والے تھے حضرت بلالؓ، حضرت عمرؓ کے آزاد کردہ غلام مھجعؓ اور حضرت لقمان۔ {لقمن 12 تا 19}
خندق کے موقع پر دشمنانِ اسلام چاروں جانب سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تھے، مشرکینِ مکّہ خود تو آئے ہی اپنے ساتھ کے عرب کے دیگر قبائل کو بھی ملا لیا۔ یہودیوں سے خفیہ معاہدے ہوے، منافقین تو تیار ہی بیٹھے تھے کہ کب موقع ملے اور وہ اپنی جماعت اور قبلہ تبدیل کرے۔ دشمنوں کے اتحاد، کثرت اور خدشات کے سبب حضورؐ نے حضرت سلمانؓ کے مشورے پر عمل کرتے ہوے خندق کے منصوبے پر کام کیا۔ بھوک پیاس کی شدّت برداشت کرتے ہوے مسلمانوں نے خندق کھودی اور اس کی اطراف ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ مشرکین نے خندق دیکھ کر خیمے نصب کردیے اور آئندہ کی منصوبہ بندی کی جانے لگی۔ ایک دو مرتبہ ان کی ٹولیوں نے خندق عبور بھی کرنا چاہا مگر اسلام کے شیروں نے انہیں جہنّم روانہ کردیا۔ سامانِ حرب و ضرب اور سپاہیوں کی تعداد مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ تھی، جنگ کی دہشت سے کلیجے منہ کو آگئے تھے، طرح طرح کے خیالات آرہے تھے، موت سامنے رقص کررہی تھی، مسلمانوں کی سخت آزمائش ہوی مگر بالآخر تیز و تند آندھی کی شکل میں اللّٰہ کی مدد آگئی۔ مشرکوں کے خیمے اکھڑنے لگے، جانور بدک کر بھاگنے لگے اور بڑی بڑی دیگیں پلٹ گئیں اس آندھی نے مشرکین کے حوصلوں کو خاک میں ملادیا اور انہوں نے بھاگنے ہی میں عافیت سمجھی۔ خندق کے موقع پر اللّٰہ کی مدد اس وقت آئی جب مسلمان اپنی مقدور بھر کوشش کرچکے تھے، خون پسینہ بہا کر جنگی تدبیروں کا اہتمام ہوچکا تھا اور وہ جان کی بازی لگادینے کے لیے تیار تھے اس میں ہمارے لیے سبق ہے کہ توکل کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہ جائیں اور فقط اللّٰہ کی نصرت و مدد کا انتظار کرے۔ مومن پیش قدمی کرتا ہے، کوشش و کاوش کرتا ہے، اس کی زندگی جہد و جہاد کی عملی تصویر ہوتی ہے پھر اللّٰہ کی مدد آتی ہے، فرشتے نصرت کے لیے اترتے ہیں اور فتح مومن کے نصیب میں لکھ دی جاتی ہے۔ {الاحزاب 9 تا 11}