قرآن کی چند متفرق آیتوں کا خلاصہ
{سترہویں تراویح}
✍: - تابش سحر
اللّٰہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا، آسمان سے پانی برسایا اور سرسبزوشاداب باغات اگائے۔ زمین کو قرارگاہ بنایا پھر اس میں پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا اور دو دریاؤں کے درمیان آڑ بنائی۔ وہی تو دعائیں قبول کرتا ہے، پریشانی دور کرتا ہے اسی نے انسان کو زمین میں اپنا خلیفہ بنایا۔ خشکی و تری کے اندھیروں میں وہی راستہ دکھاتا ہے، بارش کی بشارت سنانے والی ہوائیں بھیجتا ہے۔ مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا کیا اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا یہ سارے کام' اللّٰہ کی قدرتِ کاملہ کی عظیم الشان نشانیاں ہیں۔ عقل و خردمندی کے ساتھ غور کریں تو ہر انسان اس بات کی گواہی دے گا کہ درج بالا امور اللّٰہ تعالیٰ نے تن تنہا انجام دیے، کوئی اس کا شریک و ساتھی نہ تھا تو عبادت و بندگی اس کے علاوہ کسی اور کے بھی شایانِ شان بھلا کیسے ہو سکتی ہے؟ {النمل 60 تا 64}
قیامت کے قریب زمین سے ایک عجیب الخلقت جانور نکلے گا جو لوگوں سے بات کرے گا۔ اس کی پیدائش بھی قدرت کا کرشمہ ہوگی اور اس کا بات کرنا بھی! وہ مومنوں کے چہروں پر ایک نشان لگائے گا جس کے سبب ان کے چہرے روشن ہوجائیں گے، کافروں کے چہروں پر مہر لگائے گا جس کے سبب ان کے چہرے سیاہ ہوجائیں گے۔ جانور کے ذریعہ مومن و کافر کے درمیان کی گئی تمیز' باقی رہے گی اسے ختم کرنا ممکن نہ ہوگا۔ قرب قیامت کی دس بڑی بڑی نشانیاں بتائی گئی ہیں جو قیامت سے بالکل قریب ہی ظاہر ہوں گی وہ یہ ہیں سورج مغرب سے طلوع ہوگا، دھواں ظاہر ہوگا، زمین سے ایک جانور نکلے گا، یاجوج ماجوج ٹوٹ پڑیں گے، دجال کا فتنہ سر اٹھائے گا، عیسیؑ تشریف لائیں گے، مشرق و مغرب اور جزیرۃ العرب میں خسف {یعنی زمین میں دھنسا دیا جانا} کے واقعات وقوع پذیر ہوں گے، اور آگ ظاہر ہوگی جو لوگوں کو جمع کردے گی۔ {النمل 82}
ابوطالب' حضورؐ کے چچا تھے، ان کے دل میں حضورؐ کے تئیں بےحد محبت تھی، عمر بھر آپؐ کے لیے شفقت و مہربانی کی تصویر بنے رہے۔ جب ان کا آخری وقت آگیا تو حضورؐ نے بہت چاہا کہ وہ بس ایک بار ہی سہی کلمہ پڑھ لے اور مسلمان ہوجائے اس پر آیت اتری "آپ جسے چاہتے ہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے" اس میں داعی کے لیے تعلیم ہے کہ ان کے ذمّے فقط پیغامِ الٰہی کا پہنچانا ہے۔ ہدایت دینے نہ دینے کا معاملہ اللّٰہ کے سپرد ہے۔ {القصص 56}
قارون' موسیٰؑ ہی کی قوم کا ایک آدمی تھا جسے اللّٰہ تعالیٰ نے مال و دولت سے خوب نوازا تھا، اس کے خزانوں کی کنجیاں زورآور انسانوں کی ایک جماعت اٹھا کر چلتی۔ مال و دولت کی کثرت نے اسے کبر و غرور میں مبتلا کردیا اور وہ فتنہ فساد کا شیدائی بن گیا۔ حضرت موسیٰؑ نے اسے سمجھایا کہ لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا کر جیسے اللّٰہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ اچھا معاملہ کیا، موجبِ فساد نہ بن، اللّٰہ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا! اس نے خیرخواہی کی ساری باتوں کو پسِ پشت ڈال دیا اور کہنے لگا "سب کچھ مجھے میرے علم کے سبب ملا ہے" اس کے ٹھاٹھ باٹ اور شاہانہ طرزِ زندگی دیکھ کر دنیوی مال و متاع کے طلبگار ٹھنڈی آہیں بھرتے اور اے کاش! اے کاش! کی صدا لگاتے جبکہ علم و حکمت والوں کی نظر اخروی اور ابدی کامیابی کی طرف ہوتی۔ قارون اپنی ہی دنیا میں مگن تھا کہ ایک روز زمین میں دھنسا دیا گیا اس کے انجام سے دنیا پرستوں نے عبرت پکڑی اور اللّٰہ کا شکر بجالائے۔ {القصص 76 تا 82}
والدین کا بڑا مقام و مرتبہ ہے بایں وجہ اللّٰہ تعالیٰ نے خاص طور پر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی وصیّت کی۔ حضرت اسماءؓ کی والدہ اسلام قبول کرنے سے پہلے ان کے پاس آیا کرتی تھیں انہوں نے ان کے ساتھ صلہ رحمی سے متعلق دربارِ رسالتؐ میں استفسار کیا تو آپؐ نے فرمایا ہاں (ان کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کرو!) یعنی ماں باپ اگر مسلمان نہ ہوں تب بھی ان کے ساتھ اچھے برتاؤ کی تاکید کی گئی البتہ اگر وہ شرک پر ابھارے تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی۔ حضرت سعدؓ اپنی والدہ کی بےحد خدمت کرتے، ان سے بےپناہ محبت کرتے تھے اور ان کی کوئی بات رد نہ کرتے۔ جب آپؓ نے اسلام قبول کرلیا تو ان کی والدہ نے قسم کھائی کہ میں ایک لقمہ بھی کھانا نہیں کھاؤں گی اور نہ ہی پانی کا ایک گھونٹ بھی پیوں گی یہاں تک کہ تم کفر کے مرتکب ہوجاؤ! سعدؓ جب بھی انہیں کچھ کھلانے پلانے کی کوشش کرتے تو وہ اپنا منہ سختی کے ساتھ بند کرلیتی۔ اس پر آیت نازل ہوی اور معصیت کے سلسلے میں والدین کی فرمانبرداری سے روک دیا گیا، شریعت کا اصول ہے خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ حضرت سعدؓ نے اپنی والدہ سے صاف کہہ دیا کہ وہ ان کی مروّت میں کفر کا ارتکاب نہیں کرسکتے! {العنکبوت 8}
کفّارِ مکّہ' ایمان والوں سے کہا کرتے تھے کہ تم لوگ ہماری راہ اختیار کرلو! گناہوں کا وبال ہمارے ذمّے ہیں، تمہارے گناہوں کا بوجھ بھی ہم لوگ اٹھالیں گے۔ ان کی اس دریدہ دہنی کا جواب دیتے ہوے قرآن کہتا ہے کہ وہ لوگ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھاسکیں گے بلکہ ان کا معاملہ تو یہ ہوگا کہ پہلے انہیں اپنی بدکاریوں کا بوجھ اٹھانا ہوگا ساتھ ہی دوسروں کو گمراہ کرنے، گناہوں پر ابھارنے اور کفر و شرک کی دعوت دینے کا وبال بھی سہنا پڑے گا سو یہ خود بھاری بوجھ تلے دبے ہوں گے دوسروں کا بوجھ کیا خاک اٹھائیں گے؟ {العنکبوت 12 تا 13}