قرآن کی چند کی چند متفرق آیتوں کا خلاصہ{اکّیسویں تراویح}
✍: - تابش سحر آیتوں کا خلاصہ
{اکّیسویں تراویح}
✍: - تابش سحر
اپنی طاقت، اپنے حسن، اپنی دولت اور اپنے مقام و مرتبے پر غرور کرنے والا انسان آخر یہ کیسے بھول جاتا ہے کہ اس کی جان اللّٰہ کے قبضۂِ قدرت میں ہے۔ اس کی زندگی کا سورج کسی بھی لمحے غروب ہوسکتا ہے، اس کی روح پر خدا کو پوری طرح تصرّف حاصل ہے جبھی وہ وقتِ مقرّرہ پر روح قبض کرلیتا ہے اور انسان کی دنیوی زندگی کا سفر ختم ہوجاتا ہے۔ موت کا وقت نہ ہو تو نیند کی مثال سامنے ہے جب انسان سوجاتا ہے تو اس وقت بھی روح ایک طرح سے قبض ہوجاتی ہے اور انسان پر موت کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، وہ بےحس و حرکت پڑا رہتا ہے پھر جب جاگتا ہے تو دوبارہ مستعد ہوجاتا ہے۔ روح پر خدا کے اس تصرّف میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ ایک نشانی تو یہ ہے کہ جس نے ہمیں پیدا کیا اور جسے ہماری روح پر ایسا تصرّف حاصل ہے اسے چھوڑ کر کسی دوسرے کی عبادت کیسے کی جاسکتی ہے؟ دوسری نشانی یہ ہے کہ جو ہمیں اس طرح زندگی اور موت دیتا ہے وہ مرنے کے بعد سارے انسانوں کو زندہ کرنے کی صلاحیت و قدرت بھی رکھتا ہے۔ {الزمر 42}
قرآن کریم کی یہ آیت انسان کو سب سے زیادہ امّید دلانے والی آیت ہے "(اے نبیؐ! میری جانب سے) کہہ دو اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اللّٰہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللّٰہ تمام گناہوں کو معاف کردے گا، وہ مغفرت کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔" سب سے پہلا نکتہ شانِ رحیمی کا یہ ہے کہ گناہ گار بندوں کی نسبت اپنی جانب کی پھر مایوسی سے باز رہنے کی تعلیم دی اور وعدہ کیا کہ وہ تمام گناہوں کو معاف کردے گا اس کے بعد اپنے ان اوصافی ناموں کا ذکر کیا جو مغفرت اور رحمت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ زمین و آسمان کے درمیان جتنی جگہ ہے وہ تمام انسان کے گناہوں سے بھر جائے، صغیرہ ہو یا کبیرہ، خفیہ ہو یا علانیہ پھر وہ انسان شرمندہ ہو کر اپنے رب سے مغفرت کا سوال کرے تو وہ رب توبہ قبول کرلیتا ہے بلکہ اپنے بندے کی توبہ سے بےانتہا خوش ہوتا ہے۔ عبداللّٰہ بن مسعودؓ مسجد میں تشریف لائے ایک خطیب لوگوں کو جہنّم کی ہولناکی اور اس کی بیڑیوں سے ڈرا رہا تھا آپ اس کے پاس گئے اور کہا "اے نصیحت کرنے والے تم کیوں لوگوں کو مایوس کرتے ہو؟" پھر آپ نے سورۃ الزمر کی یہی آیت تلاوت فرمائی۔ {الزمر 53}
کافرین و مشرکین عذابِ جہنّم میں مبتلا ہوں گے عذاب کی سختی ناقابلِ برداشت ہوگی سو ایسی حالت میں وہ خود سے ناراض ہوں گے، اپنی سابقہ زندگی پر افسوس کریں گے اور اپنے آپ سے شدید نفرت کریں گے اس موقع پر آواز لگائی جائے گی "(آج جس طرح تمہیں) اپنے آپ سے نفرت ہے (اسی طرح) اللّٰہ تعالیٰ کو تم سے زیادہ نفرت تھی جب تمہیں ایمان کی جانب بلایا جاتا تو تم انکار کردیا کرتے تھے" یعنی جب تمہیں داعیِ حق' دلائل و شواہد کے ساتھ ایمان کی دعوت دیا کرتا تھا تو اس وقت تم تکبرانہ انداز میں اعراض کرتے، دعوت کا مذاق اڑاتے، خدا و رسول کو چھوڑ کر اپنی دنیا میں محو و مگن رہتے سو تمہاری اس روش کے سبب اللّٰہ کو تم سے شدید نفرت تھی، اس نفرت سے بھی زیادہ جو آج تمہارے دہکتے سینوں میں خود کے لیے ہے۔ {المؤمن 10}
حضرت موسیؑ اشاعتِ حق کے لیے خدا کی نشانیاں لے کر سرزمینِ مصر آئے تھے، فرعون ھامان قارون اور پوری قوم کو حق کی دعوت دی۔ ان لوگوں نے پیغمبر پر جھوٹ اور سحر کا الزام لگایا اور کہنے لگے مومن مردوں کو تو ماردو البتّہ عورتوں کو زندہ رکّھو۔ اپنی خدائی پر حرف آتا دیکھ کر فرعون غضبناک ہوگیا تھا اس نے قصرِ شاہی میں قتلِ موسیٰؑ کی تجویز پیش کی۔ فرعون کے خاندان کا ایک آدمی موسیٰؑ کی دعوت پر آمنّا و صدّقنا کہہ چکا تھا مگر فرعون کی سرکشی کے ڈر سے اس نے اپنے ایمان کا اعلان نہیں کیا تھا۔ جب قتلِ موسیٰ کی تجویز پیش کی گئی تو وہ اپنے آپ کو نہ روک سکا فوراً احتجاج درج کروایا کہ کیا تم ایسے آدمی کو قتل کروگے جو کہتا ہے "میرا رب اللّٰہ ہے۔" پھر اس مومن شخص نے حکیمانہ انداز میں اپنی قوم کو سابقہ اقوام کے انجام سے ڈرایا، حشر و نشر کا تذکرہ کیا، دنیا کی بےثباتی اور آخرت کی دائمی زندگی کا حوالہ دیا، اعمالِ صالحہ پر جنّت کے وعدے کا ذکر کیا اور مقدور بھر کوشش کرنے کے بعد اپنا معاملہ اللّٰہ کے سپرد کردیا۔ اللّٰہ نے اس مومن کو نجات عطا کی اور بقیہ آلِ فرعون عذابِ الٰہی سے نہ بچ سکے۔ حضرت عبداللّٰہ بن عبّاسؓ کہتے ہیں "آلِ فرعون میں فقط دو لوگ مسلمان ہوے ایک یہ آدمی اور دوسرے فرعون کی بیوی" {المؤمن 23 تا 45}
حساب کتاب کے وقت آخری حربے کے طور پر انسان یہ فریاد کرے گا الٰہی اپنے حساب کتاب کے سلسلے میں کسی اور کی گواہی پر مجھے اطمینان نہیں، یہاں تک کہ میرے ہی وجود سے شہادت پیش کی جائے۔ اسی مضمون کا ایک شعر مرزا غالب نے کہا ہے
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا
انسان کی اس فریاد پر اللّٰہ تعالیٰ منہ پر مہر لگادیں گے، اب کان گناہوں کی داستان سنائیں گے، آنکھیں سیاہ کاریوں کی تفصیلات پیش کریں گی اور انسان کی کھال برے کاموں کی روداد بیان کرے گی پھر جب دوبارہ انسان کو قوّتِ گویائی عطا کی جائے گی تو وہ بوکھلاہٹ کے عالم میں اپنے اعضاء و جوارح سے کہے گا "تم غارت و برباد ہوجاؤ میں نے جو کچھ کیا تھا تمہارے ہی آرام کے لیے کیا تھا" {حم السجدہ 20,21}
جن لوگوں نے اللّٰہ کی ربوبیت اور توحید کا اقرار کرلیا پھر استقامت کو لازم پکڑا تو ان کے پاس فرشتے اترتے ہیں اور کہتے ہیں "تم نہ ڈرو اور نہ ہی غم کرو اور اس جنّت سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہم تمہارے دوست ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی نیز تمہارے لیے ہر وہ چیز دستیاب ہے جو تمہارا دل چاہے اور جو کچھ بھی تم مانگو" استقامت کا مطلب توحید پر جمے رہنا ہے یعنی پھر کبھی شرک و کفر کی طرف مائل نہ ہونا ہے، حضرت عمرؓ استقامت کی تعریف کرتے ہوے فرماتے ہیں استقامت یہ ہے کہ (اللّٰہ کے) اوامر و نواہی پر جم جاؤ اور لومڑیوں کی طرح اِدھر اُدھر بھاگنے کی راہ نہ نکالو۔ ایک شخص حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا حضورؐ مجھے اسلام کے بارے میں ایسی چیز بتائیے کہ پھر مجھے کسی سے کچھ پوچھنا نہ پڑے آپؐ نے فرمایا "کہو! میں اللّٰہ پر ایمان لایا اور پھر استقامت کو لازم پکڑلو!" {حم السجدہ 30,31}