قرآن کی چند متفرق آیتوں کا خلاصہ
{بائیسویں تراویح}
✍: - تابش سحر
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے جلد باز واقع ہوا ہے- ہر دم بنا تھکے خوشحالی اور بھلائی کی تمنّائیں اور دعائیں کرتا ہے۔ مصائب و تنگدستی، امراض یا مسائل گھیر لیتے ہیں تو صبر کا دامن تھامنے کے بجائے مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے پھر جوں ہی سخت دن گزر جاتے ہیں اور اللّٰہ آسائش کا سامان فراہم کرتا ہے تو بجائے شکر گزار بننے کے احسان فراموشی کا مرتکب ہوتا ہے۔ قیامت اور جزا و سزا کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے، لاپرواہی کے ساتھ کہتا ہے اگر خدا کے حضور جانا ہوا بھی تو وہاں میرے لیے خیر ہی ہوگی۔ خوشحالی میں تو خدا کا نام لینے سے کتراتا ہے اور مصیبت کے موقع پر لمبی لمبی دعائیں کرتا ہے۔ یہ حال عام انسانوں کا ہے البتہ ان میں سے جنہوں نے اسلام قبول کیا اور تعلیماتِ مصطفویؐ کو لازم پکڑا تو ان کا حال کچھ اور ہوتا ہے وہ آزمائش پر صبر کرتے ہیں اور نعمتوں پر شکر بجا لاتے ہیں۔
حدیث شریف میں ہے "مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے- اس کے تمام کام خیر پرمبنی ہوتے ہیں اور یہ (سعادت) مومن ہی کو نصیب ہوتی ہے، اسے آسودہ حالی میسّر ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے تو شکر اس کے لیے خیر کا وسیلہ بن جاتا ہے، تنگی لاحق ہوتی ہے تو صبر کرتا ہے اور صبر اس کے لیے خیر کا سبب بن جاتا ہے۔" {حم السّجدہ 48 تا 51}
بدلہ اور قصاص کے سلسلے میں تین الگ الگ قسمیں ہیں، ایک تو یہ کہ انسان اپنے اوپر کیے گئے ظلم کا برابر سرابر انتقام لیں، دوسرا یہ کہ عفو و در گزر اور احسان کا معاملہ کریں، تیسرا یہ کہ انتقام میں غلو سے کام لیں۔ تیسری قسم کا تعلّق ظلم سے ہے اس لیے اسے مذموم قرار دیا، دوسری قسم کا تعلق صبر اور احسان سے ہے لہذا اسے محمود قرار دیا جبکہ پہلی قسم سراپا عدل ہے لہذا اس کی وضاحت کر دی گئی کہ عدل کا تقاضہ ہے برائی کا بدلہ برائی ہے یعنی اگر کسی پر ظلم کیا جائے تو عدل یہی ہے کہ ظالم کے ساتھ بھی وہی سلوک روا کیا جائے۔ کوئی کسی پر پتھر برسائے تو مظلوم کو بھی سنگباری کا اختیار ہے۔ عدل پر مبنی بدلہ مظلوم کا حق ہے اس پر اسے کسی قسم کی ملامت نہیں کی جائے گی بلکہ بسا اوقات بدلہ لینے میں معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے، ظالم عبرت پکڑتے ہیں، محاسبے کا خوف جرائم میں کمی کے سلسلے میں مددگار ہوتا ہے۔ اسلام نے عفو و در گزر کرنے والے کی تعریف ضرور کی مگر بدلہ لینے کا حق نہیں چھینا کیوں کہ جہاں عفو و در گزر سے بڑے معجزات ہوتے ہیں تو وہیں بدلہ لینے میں بھی کئی حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ {الشوریٰ 40,41}
زمین و آسمان کی بادشاہت اللّٰہ ہی کے لیے ہے، ہر چیز پر اس کا حکم چلتا ہے، وہ اپنی حکمت و بصیرت سے ہر شئے کا نظام چلا رہا ہے، ہر وجود میں آنے والی چیز کے پیچھے مشیّتِ الٰہی کار فرما ہے۔ اپنی تدبیر و حکمت سے اللّٰہ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے دونوں سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے اولاد سے محروم رکھتا ہے۔ یعنی اس میں کسی اور کو تصرّف حاصل نہیں، بیٹا ہوگا یا بیٹی یہ امرِ خداوندی ہے، اولاد ہوگی بھی یا نہیں اس کا فیصلہ بھی اللّٰہ کے اختیار میں ہے۔ اس آیت میں پہلے بیٹیوں کا تذکرہ ہے اسی لیے حضرت واثلہ بن اسقعؓ فرماتے ہیں "عورت کی نیک بختی کی علامت میں سے ہے کہ اس کی پہلی اولاد بیٹی ہو۔" {الشوریٰ 49}
مبتلائے عذاب جہنّمی خون کے آنسو روئیں گے، خوب آہ و بکاں کریں گے، جہنّم سے گلو خلاصی کی فریاد کریں گے مگر کہیں سے نجات کی کوئی سبیل نظر نہ آئے گی۔ کبھی خازنینِ جہنّم سے درخواست کریں گے، کبھی جہنّم کے داروغہ کو آواز لگائیں گے کبھی رب العالمین سے دعا کریں گے مگر سب کاوشیں بےکار ثابت ہوں گی۔ اس آیت میں جہنّم کے داروغہ "مالک" کا ذکر ہے جسے جہنّمی پکاریں گے "اے مالک! تمہارا رب ہمیں موت ہی دے دے" یعنی ان عذابات کو سہنے کی اب ہم میں سکت نہ رہی اب بس موت آ جائے اور ہمارا خاتمہ ہو جائے۔ مالک ایک طویل مدّت تک تو اعراض و تغافل سے کام لے گا اور کئی سال گزرنے کے بعد کہے گا "تم یونہی پڑے رہو گے۔" یعنی نہ تمہیں موت آئے گی اور نہ کبھی تمہیں یہاں سے نکالا جائے گا۔ {الزخرف 77}
"انتظار کرو (اس دن کا) جس دن آسمان صریح دھواں لے آئے گا جو لوگوں پر چھا جائے گا، یہ ہے درد ناک عذاب!" علامتِ قیامت میں سے ہے کہ قیامت سے قبل آسمان سے دھواں ظاہر ہوگا جو ساری دنیا کو اپنی چپیٹ میں لے لے گا، ہر انسان اس سے متاثر ہوگا۔ اس کے سبب مومنین فقط زکام میں مبتلا ہوں گے جبکہ کافرین کے پورے بدن میں یہ دھواں سرایت کر جائے گا۔ عبداللّٰہ بن مسعودؓ کے مطابق یہاں جس دھویں کا تذکرہ ہے وہ علامتِ قیامت والا دھواں نہیں ہے بلکہ اس سے مراد مکّہ کا وہ قحط ہے جو باشندگانِ مکّہ کی سرکشی پر حضورؐ کی بد دعا کے سبب مسلط کیا گیا تھا۔ قحط ایسا شدید تھا کہ وہ لوگ مردار تک کھانے لگے تھے، آسمان کی جانب دیکھتے تو بھوک کی شدّت کی وجہ سے دھواں ہی دھواں نظر آتا۔ {الدخان 10,11}
دنیا میں منکرینِ خدا اپنی سرکشی اور ظلم و فساد کے باوجود عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں فوراً ان کی پکڑ نہیں کی جاتی۔ اسی دھرتی پر ایمان والے بھی رہتے ہیں جو کافروں کی طرح فسادِ عالم کا سبب نہیں بنتے پھر ظالموں کی پکڑ نہ ہوگی تو ان دونوں فریق میں بظاہر کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ وہ ظلم کرکے مامون ہیں اور یہ ظلم نہ کرکے محفوظ جبکہ اللّٰہ تعالیٰ کی ذات سے یہ توقّع نہیں کی جاسکتی کہ وہ دونوں فریق کو یکساں حالت میں رکّھے۔ یہ دراصل اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا دارالجزاء نہیں دارالامتحان ہے، دارالجزاء تو آخرت ہے جہاں مرنے کے بعد سب کو اکٹھا کیا جائے گا اور پھر ان کے اعمال و کرتوت کے اعتبار سے تفریق کی جائے گی۔ مجرمین الگ کردیے جائیں گے اور مومنین الگ، مجرمین دہکتے انگاروں میں جھلسیں گے اور مومنین جنّت کی نہروں سے فیضیاب ہوں گے۔ {الجاثیہ 21}