قرآن کی چند متفرق آیتوں کا خلاصہ
{انیسویں تراویح}
✍: - تابش سحر
قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ بتادیا کہ حضرت محمدؐ خاتم النبیین ہے۔ آپؐ کا فرمان ہے "رسالت و نبوّت کا سلسلہ تمام ہوا میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی!" قرآن و حدیث کی وضاحت کے بعد کوئی شبہ باقی نہیں رہتا لہذا اب جو کوئی نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرے وہ کذّاب، مکّار اور گمراہ انسان ہے پھر بظاہر وہ کتنا ہی شریف و متقی نظر آئے، کتنے ہی دلائل و شواہد پیش کرے۔ حدیث شریف میں عقیدہ ختم النبیؐ کو ایک تمثیل کے ذریعہ بھی سمجھایا گیا "میری اور دیگر انبیاء کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے شاندار و خوبصورت گھر بنایا مگر کسی گوشے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی۔ لوگ اس میں گھومنے لگے اور عمارت کو پسند کرنے لگے البتہ خالی جگہ دیکھ کر کہنے لگے مکان بنانے والے نے یہاں بھی اینٹ کیوں نہ رکھ دی (کہ تعمیر مکمل ہوجاتی) آپؐ نے فرمایا میں تمام نبیوں میں اس اینٹ کی جگہ پر ہوں۔" یعنی میری آمد سے قصرِ نبوّت کی تعمیر مکمّل ہوی، اب اس میں ذرّہ برابر بھی خالی جگہ باقی نہیں۔ {الاحزاب 40}
ایمان والوں کو تقویٰ اختیار کرنے اور راست گفتاری کو لازم پکڑنے کی تعلیم دی گئی اور اس کے فوراً بعد کہا کہ اللّٰہ تمہارے اعمال کی اصلاح کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا سچّائی کا دامن تھامنے سے دیگر اعمال خودبخود درست ہوتے چلے جائیں گے۔ سچّائی راہِ نجات ہے اور جھوٹ ہلاکت و تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہاں سچّی بات کے لیے "قولاً سدیداً" کا استعمال کیا گیا ہے یہ ایسی جامع تعبیر ہے کہ جس میں ہر وہ کلام شامل ہے جس میں سچائی ہو جھوٹ کا شائبہ تک نہ ہو، درست بات ہو غلطی کا امکان نہ ہو، نرم بات ہو دل شکنی کا سامان نہ ہو۔ جس طرح ایک تیرانداز' تیر چلانے سے قبل نشانہ لیتا ہے اور جب مطمئن ہوجاتا ہے تب تیر چلاتا ہے زبان کا معاملہ بھی ایسا ہی ہونا چاہیے انسان بولنے سے قبل خود مطمئن ہوجائے کہ وہ درست، سچّی اور ایسی بات کہہ رہا ہے جس کے کہنے کی شرعاً اجازت ہے۔ زبان کا معاملہ بےحد حسّاس ہے جب یہ پھسلتی ہے تو بڑے بڑے گناہوں کا صدور ہوتا ہے جو انسان کو جہنم کے گڑھے تک پہنچاسکتے ہیں۔ زبان کو مخاطب کرکے مولانا الطاف حسین حالیؒ نے کتنی پیاری بات کہی ہے "اے زبان! تو دیکھنے میں تو ایک پارہ گوشت کے سوا نہیں مگر تیری طاقت نمونہ قدرت الہی ہے۔ دیکھ! اس طاقت کو رائیگاں نہ کھو اور اس قدرت کو خاک میں نہ ملا۔ راستی تیر اجوہر ہے اور آزادی تیرا زیور۔ دیکھ اس جوہر کو برباد نہ کر اور اس زیور کو زنگ نہ لگا۔ تو دل کی امین ہے اور روح کی ایلچی۔ دیکھ دل کی امانت میں خیانت نہ کر اور روح کے پیغام پرحاشیے نہ چڑھا۔" {الاحزاب 70,71}
حضرت داؤدؑ نے بیت المقدّس کی تعمیر کا آغاز کیا تھا اور آپؑ کی وفات کے بعد اس ادھورے کام کی تکمیل کا ذمّہ حضرت سلیمٰنؑ نے لیا۔ آپؑ کے حکم پر جنّات تعمیری کام انجام دے رہے تھے جِنوں کی طبعیت میں سرکشی تھی مگر وہ سلیمٰنؑ سے بےحد مرعوب تھے سو ان کا ہر حکم بجالاتے، مارے خوف کے اپنے اپنے کاموں میں لگے رہتے۔ بیت المقدّس کی تعمیر میں تھوڑا ہی حصّہ رہ گیا تھا کہ حضرت سلیمٰنؑ کا آخری وقت آگیا، آپؑ جانتے تھے کہ اگر جنوں کو میری موت کا علم ہوگا تو وہ کام چھوڑ کر نکل پڑیں گے اور اللّٰہ کے گھر کی تعمیر مکمل نہ ہوپائے گی سو انہوں نے اس سلسلے میں دعا کی کہ جنّات کو ان کی موت کا علم نہ ہونے پائے۔ ایسا ہی ہوا وہ اپنے عصا کے سہارے بیٹھے ہوے تھے کہ روح قبض کرلی گئی، ایک عرصے تک جنّات انہیں زندہ سمجھ کر کاموں میں مشغول رہے، تعمیری کام پایہ تکمیل کو پہنچا اور ادھر عصائے سلیمانیؑ کو دیمک چٹ کررہی تھی سو وہ بھی کمزور ہوکر ٹوٹ گیا تب کہیں جاکر جنوں کو معلوم ہوا کہ آپؑ کی وفات ہوچکی ہے۔ اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور غیب کا علم اللّٰہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ {سبا 14}
یمن کے علاقے ماٰرب میں قومِ سبا آباد تھی، دو پہاڑوں کے درمیان خوبصورت وادی ان کا مسکن تھا۔ بارش اور پہاڑوں سے اترنے والے پانی کو جمع کرنے کے لیے ایک سمت بڑا بند (ڈیم) تعمیر کیا گیا تھا جس میں ہمہ وقت پانی کا ذخیرہ وافر مقدار میں رہتا اور چھوٹی چھوٹی نالیوں کے ذریعہ باغات و کھیت کھلیان میں پہنچتا۔ موسم پرلطف اور آب و ہوا صحت افزاء تھی، شاہراہ کے دائیں جانب باغات کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ تھا اور بائیں جانب بھی دور تلک گلشن ہی گلشن نظر آتے تھے۔ پھلوں کی کثرت تھی، خوشحالی میسّر تھی اور انواع و اقسام کی نعمتیں حاصل تھیں انہیں رسولوں نے عبادتِ الٰہی کے ساتھ ساتھ شکر کی نصیحت کی مگر انہوں نے اعراض سے کام لیا، عیش و عشرت میں پڑے رہے سو اللّٰہ تعالیٰ نے سیلاب بھیجا جس کی وجہ سے باغات تہس نہس ہوگئے، مکانات منہدم ہوگئے پھر اس سرزمین پر قیمتی و لذیذ پھلوں کے درختوں کے بجائے کڑوے کسیلے اور بےمزہ پھلوں کے درخت نمودار ہوے۔ اگر قومِ سبا شکرِ خداوندی کا اہتمام کرتی تو انہیں نعمتوں سے محروم نہ کیا جاتا بلکہ شکر سے نعمتوں میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ {سبا 15 تا 17}
اللّٰہ تعالیٰ نے پہلے اپنی قدرت کاملہ کی کچھ نشانیاں ذکر کی جیسے آسمان سے بارش کا اترنا، مختلف رنگوں والے پھلوں کا نمودار ہونا، الگ الگ رنگوں والے پہاڑوں کا وجود، انسان، چوپائے اور دیگر مخلوقات! پھر آگے ارشاد فرمایا اللّٰہ سے تو علماء ہی ڈرتے ہیں۔ علماء کو پچھلے حصے سے جوڑ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا یہاں علماء سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللّٰہ کی ذات و صفات کی معرفت رکھتے ہیں، مخلوقات میں غور و فکر کرتے ہیں اور اللّٰہ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ عالم کی پہچان یہ ہے کہ اسے خشیتِ الٰہی نصیب ہوتی ہے، حضرت ربیع بن انسؓ کا فرمان ہے "جو اللّٰہ سے نہیں ڈرتا وہ عالم نہیں۔ {الفاطر 28}
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کا وارث ان لوگوں کو بنایا جنہیں اس نے اپنے بندوں میں سے پسند کیا اس سے مراد امّتِ محمدیہ ہے جنہیں قرآنِ کریم جیسا عظیم الشان تحفہ عطا کیا گیا پھر امت کے بارے میں یہ خبر دی گئی کہ اس امّت میں تین طرح کے افراد ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں یعنی بسااوقات واجبات میں سستی کرتے ہیں اور محرمات کی طرف چل پڑتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو درمیانی چال چلتے ہیں یعنی واجبات کا ہتمام کرتے ہیں محرمات سے بچتے بھی ہیں البتہ کبھی مستحبات چھوٹ جاتے ہیں یا وہ مکروہات میں ملوث ہوجاتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں یعنی مذکورہ بالا دونوں گروہوں سے بڑھ کر ہے۔ {الفاطر 32}