قرآن کی چند متفرق آیتوں کا خلاصہ
{بارہویں تراویح}
✍: - تابش سحر
عام طور پر کسی متنازع معاملے کے درمیان فیصلہ کرنے کو انصاف کہا جاتا ہے جبکہ شریعتِ اسلامیہ نے زندگی کے ہر شعبے میں عدل و انصاف کا حکم دیا ہے۔ سب سے پہلے تو انسان اپنے اور اپنے خالق کے درمیان عدل سے کام لے یعنی اس کی وحدانیت کا اقرار کرے، شرک و کفر سے اجتناب کرے، اس کی بندگی کا حق ادا کرے اور زندگی بھر اس کے اوامر و منہیات کا پاس و لحاظ رکّھے۔
مخلوق کے ساتھ عدل یہ ہے کہ حق دار کو اس کا حق دے، کسی کی حق تلفی نہ کرے، ظلم و زیادتی نہ کرے، رشتے داروں، ماں باپ، پڑوسیوں اور بیوی بچوں کے حقوق کی ادائیگی بھی عدل ہی تو ہے۔ اپنی ذات کے تئیں انصاف یہ ہے کہ انسان' ہلاکت کی چیزوں سے دور رہے، اپنے آرام اور کھانے پینے وغیرہ کا خیال رکّھے۔ {النحل 90}
دنیا کی وہ تمام آسائشیں جنہیں انسان خون پسینہ ایک کر کے جمع کرتا ہے ان میں ایک ایسا عیب ہے جو پل بھر میں انسانی توقعات پر پانی پھیر دیتا ہے۔ سونا چاندی، ہیرے جواہرات، روپیہ پیسہ، زمین جائداد ایک مدت تلک انسان کو فائدہ پہنچاتے ہیں مگر پھر ایک دن فنا ہو جاتے ہیں، ختم ہو جاتے ہیں اور انسان کے قبضۂِ قدرت میں باقی نہیں رہتے۔ وہ تمام چیزیں یا تو خرچ ہو جاتی ہیں یا ضائع ہو جاتی ہیں یا پھر انسان ہی سفرِ آخرت کے لیے روانہ ہو جاتا ہے، اس کا مال و متاع پیچھے رہ جاتا ہے اور اب اس کے کسی کام نہیں آتا۔ اس کے برعکس نیکیوں کا ثواب اور صلہ باقی رہتا ہے، ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں انہیں نیکیوں کا سکّہ چلتا ہے جو اللّٰہ کے پاس بھیج دی گئیں۔ چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا اجر بھی اللّٰہ کے یہاں محفوظ ہے اور وقتِ مقررہ پر وہ نوازشوں کی بارش کرے گا۔ مومنین کو چاہیے کہ وہ فانی چیزوں پر غیرفانی چیزوں کو ترجیح دے، جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں، محفوظ ہیں اور دائمی زندگی میں نفع پہنچانے والی ہیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ہم نے ایک بکری ذبح کر کے صدقہ کی یعنی اس کا گوشت ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا بعد میں پیارے نبیؐ نے دریافت فرمایا "کچھ بچا بھی ہے؟" صدیقہؓ نے فرمایا "صرف ایک بازو بچا رہ گیا ہے" آپؐ نے جواب دیا "(نہیں بلکہ) بازو کے سوا باقی تمام بچ گیا ہے" یعنی اللّٰہ کے یہاں اس بازو کے علاوہ پوری بکری کا اجر محفوظ ہو گیا ہے۔ {النحل 96}
عدل' زندگی کے ہر شعبے میں محمود و مطلوب ہے یہاں تک کہ جود و سخاوت کے معاملے میں بھی عدل کی تعلیم دی گئی۔ فرمایا "نہ تو اپنا ہاتھ گردن ہی سے باندھ لو اور نہ اسے پورا کھلا ہی چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور قلّاش ہوکر رہ جاؤ۔" ہاتھ گردن سے باندھ لینے کا مطلب یہ ہے کہ انسان بخل سے کام لے، محتاجی اور فقر و فاقے کے خدشے سے کارِ خیر میں اپنا حصّہ ہی نہ ڈالے کہ میرا مال ہے مشکل وقت میں کام آئے گا، گن گن کر جمع کر کے رکّھے۔ ہاتھ کھلا چھوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اسراف سے کام لے، آگے پیچھے کچھ بھی نہ سوچے اور سارا مال لٹادے پھر بعد میں پچھتانے لگے کہ کاش کچھ اپنے لیے بھی رکھ لیتا تو یوں بےبسی کے ساتھ بیٹھنا نہ پڑتا۔ {بنی اسرائیل 29}
مشرکینِ مکّہ' قرآنِ کریم کے من جانب اللّٰہ ہونے کا انکار کرتے تھے، ان کا دعویٰ تھا کہ یہ انسانی کلام ہے۔ اس پر قرآن کریم نے تمام انسانوں کو چیلنج کیا کہ تمام انس و جن اس جیسا قرآن پیش کرنے کے لیے جمع ہو جائے تب بھی اس جیسا کلام نہیں پیش کر سکتے۔ کسی نے چیلنج قبول نہیں کیا تو اعلان ہوا چلو اس جیسا قرآن نہیں لا سکتے کم از کم دس سورے ہی لے آؤ! کوئی سامنے نہ آیا تو کہا اچھا ایک چھوٹی سی سورت کے برابر ہی کوئی کلام لے آؤ تب بھی کسی نے جرأت نہ کی کہ کلامِ الٰہی کی نظیر پیش کر سکے، دنیا بھر کے ادباء، شعراء اور سخنور عاجز آ گئے۔ یہ قرآنِ کریم کے من جانب اللّٰہ ہونے کی ایک واضح دلیل ہے۔ {بنی اسرائیل 88}
اصحابِ کہف کون تھے؟ کتنے تھے؟
کس علاقے سے تعلق رکھتے تھے؟ اور کتنے سال سوئے رہے؟ ان سوالوں کا قطعی جواب نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی ان سوالوں کے جوابات معلوم ہونا اتنا اہم ہے۔ اسی لیے قرآن نے محض اتنا ہی واقعہ بیان کیا جو ہدایت اور عبرت کے لیے کافی ہے۔ وہ چند نوجوان تھے جنہوں نے اپنی قوم کو شرک میں ملوّث پایا تو متفکر ہو گئے کہنے لگے "ہمارا رب تو آسمان و زمین کا رب ہے- ہم اس کے علاوہ کسی دوسرے معبودِ {باطل} کو نہیں پکاریں گے" ان کا گمان تھا کہ اگر وہ آبادی میں ٹہرے رہیں تو توحیدِ خالص پر جمے رہنا مشکل ہوگا سو انہوں نے اپنا شہر چھوڑ کر دور ایک غار میں پناہ لی۔ غار میں وہ تین صدیوں تک سوتے رہے، یہ نیند من جانب اللّٰہ تھی سو ان کے لیے ہر قسم کا انتظام برتا گیا۔ سورج کی کرنیں ان پر براہِ راست نہ پڑتیں، ظاہر میں وہ بیدار نظر آتے جبکہ حقیقتاً محوِ خواب تھے، وقفے وقفے سے ان کی کروٹیں بدلی جاتیں۔ جب یہ بیدار ہوے تو سارا منظرنامہ بدل چکا تھا اور انہیں کچھ خبر نہ تھی۔ بھوک کی شدّت نے بےقرار کیا تو اپنے ایک ساتھی کو اپنے زمانے کے سکّے دے کر کھانا لانے کے لیے روانہ کیا تب کہیں جاکر یہ بات معلوم ہوی کہ یہ لوگ پچھلے زمانے کے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ ایسے ایسے حالات پیش آئے۔ اصحابِ کہف کا قصّہ بعث بعد الموت کی تصدیق کرتا ہے، ایمان والوں کے لیے اللّٰہ کی مدد و نصرت کی گواہی دیتا ہے اور اللّٰہ کی قدرتِ کاملہ کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ {9 تا 26}
سردارانِ مکّہ کبر و نخوت کا شکار تھے، وہ اپنے آپ کو دوسروں سے بلند و بالا تصوّر کرتے، اپنے نسب پر ناز کرتے اور مال و دولت پر گھمنڈ کیا کرتے۔ انہوں نے حضورؐ سے مطالبہ کیا کہ آپؐ ہمارے لیے خاص مجلس کا اہتمام کریں جس میں کمزور و غریب افراد شریک نہ ہوں جیسے بلالؓ، عمّارؓ، صہیبؓ اور ابن مسعودؓ وغیرہ۔ اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے آیتِ مبارکہ نازل کی کہ آپ ان لوگوں کے ساتھ ہی رہیں جو دن رات اپنے رب کو پکارتے ہیں، اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور ان لوگوں سے کبھی اپنی نگاہ نہ پھیریے۔ آیتِ مبارکہ کے ذریعہ پیارے نبیؐ کو کسی بھی طرح کی مجلسِ خاص سے منع کر دیا گیا اور ان فقراءِ امّت کے ساتھ بیٹھنے کا حکم دیا جو دن رات خدا کی یاد میں محو و مگن ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں اعلیٰ ادنیٰ اور امیر غریب کی کوئی تقسیم نہیں، اللّٰہ کے نزدیک وہ محبوب ہے جو دن رات خدا کو یاد کرے۔ {الکہف 28}