قرآن کی چند متفرق آیتوں کا خلاصہ
{سولہویں تراویح}
✍: - تابش سحر
مشرکینِ مکّہ' قرآن مجید کے کلامِ الٰہی ہونے کا انکار کرتے تھے، کبھی کہتے یہ تو سحر ہے، کبھی کہتے شعر ہے۔ اعراض و تغافل ان کا شیوہ تھا بلکہ انہوں نے سرکشی کا ایک طریقہ یہ ڈھونڈ نکالا تھا کہ جب قرآن پڑھا جاتا تو شور مچاتے کہ اس کی آواز بھی کانوں میں نہ پڑے۔ اپنے قوم کی اس بےرخی اور ہٹ دھرمی کی شکایت رسول اللّٰہؐ بروزِ قیامت ان الفاظ میں کریں گے "اے میرے رب! میری قوم نے قرآن مجید کو چھوڑ دیا تھا"
قرآن مجید دستورِ حیات ہے اس کا پڑھنا سننا باعثِ ثواب، سمجھنا ناگزیر، اس پر ایمان لانا اور عمل کرنا واجب ہے۔ جو کوئی مومن مذکورہ بالا امور میں سے کوئی ایک کام بھی چھوڑ دے تو وہ بھی معنوی طور پر درج بالا شکایت میں شامل ہو کر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔ قرآن مجید سے ایک مومن کا رشتہ نہایت مضبوط ہونا چاہیے، تلاوت کا معمول ہو، تدبّر کا اہتمام ہو اور ہماری ساری زندگی قرآنی احکامات کے مطابق گزرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قرآن کی حق تلفی کے سبب جس رسولؐ کی شفاعت کے ہم طلبگار ہیں وہ بھی ہم سے ناراض ہوں اور خدا بھی برہم! {الفرقان 30}
تمام انسان اللّٰہ تعالیٰ ہی کے بندے ہیں البتّہ ان میں کچھ ایسے ہیں جن کے اچھے اوصاف کی وجہ سے اعزازاً انہیں "رحمٰن کے بندے" کہا گیا ہے، رحمٰن اللّٰہ کا اوصافی نام ہے۔ جس طرح ایک باپ اپنے کسی بیٹے یا بیٹی پر فخر کرتا ہے تو کہتا ہے "یہ تو میرا بیٹا ہے" حالانکہ دیگر اولاد بھی اسی کی جانب منسوب ہوتی ہے اسی طرح سورہ فرقان کے آخری رکوع میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کے اوصاف کا ذکر فرمایا ہے اور ان کی نسبت اپنی جانب کی۔ اوصافِ حمیدہ کے سلسلے میں پہلی آیت کے اندر دو اوصاف کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ "رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں۔" ان کی چال سے عاجزی چھلکتی ہے، وہ تکبرانہ چال سے احتراز کرتے ہیں، اکڑ کر نہیں چلتے اور نہ ہی بتکلف مریضوں کی طرح آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک نوجوان کو دیکھا وہ بہت آہستہ چل رہا تھا آپؓ نے پوچھا "بیمار ہو؟" اس نے کہا نہیں تو آپ نے درّہ اٹھایا اور اسے حکم دیا "قوّت کے ساتھ چلا کرو!۔" نبیؐ کسی قدر تیزی کے ساتھ چلتے تھے۔ دوسری صفت یہ بیان کی گئی کہ جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے ہیں یعنی وہ جاہلوں کے ساتھ جاہلانہ انداز و اسلوب اختیار نہیں کرتے بلکہ ان کا جواب سلامتی پر مبنی ہوتا ہے، نہ اس میں گناہ کی بات ہوتی ہے اور نہ ہی مخاطب کی ایذارسانی کا سامان۔ اس سے معلوم ہوا کہ رحمٰن کے بندے جاہلوں کے ساتھ عفو و درگزر کا معاملہ کرتے ہیں۔ {الفرقان 63}
رحمٰن کے اعزازی بندوں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ گناہ کی محفلوں اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ کسی ایسی مجلس کا حصّہ نہیں بنتے جس میں جھوٹ، غیبت، چغلی اور فحش باتیں بیان کی جائے اور نہ وہ ایسی محفل میں شریک ہوتے ہیں جہاں ناچ گانا چل رہا ہو یا شراب کے جام چھلکائے جارہے ہوں۔ وہ مشرکین کے تہواروں اور میلوں میں بھی شرکت نہیں کرتے کہ مقامِ کفر و شرک ہے۔ قرآن مجید نے یہاں لفظ "زُور" استعمال کیا ہے، زور کے معنیٰ جھوٹ ہے اور باطل کی بنیاد بھی جھوٹ ہی پر ہے لہذا وہ تمام اقوال و افعال جن کا تعلّق باطل و جھوٹ سے ہو وہ تمام زور میں داخل ہوں گے۔ اگر کبھی اتفاقاً ایسی مذموم مجلسوں سے گزر ہو بھی جائے تو رحمٰن کے بندے شریفوں کی طرح آگے بڑھ جاتے ہیں، ان میں شرکت نہیں کرتے۔ "عبداللّٰہ بن مسعودؓ کا گزر {اتفاقاً} ایک لہو کی محفل سے ہوا تو آپؓ {وہاں} نہیں ٹھہرے" آپؐ نے فرمایا "ابنِ مسعود کریم ہی رہے" {الفرقان 72}
مشرکینِ مکّہ کہا کرتے تھے محمدؐ کے پاس شیاطین آتے ہیں اور یہی شیاطین محمدؐ کو قرآن سناتے ہیں۔ نعوذ باللّٰہ من ذلک! اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کی جانب سے جواب دیا کہ قرآن تو اللّٰہ کی جانب سے نازل کردہ ہے جو روح الامین کی وساطت سے نازل ہوا، اس کا شیاطین سے کوئی تعلق نہیں۔ شیاطین تو دروغ گفتار اور گناہ گار انسانوں پر اترتے ہیں، جھوٹی سچّی باتیں کانوں پر ڈالتے ہیں اور پھر یہ خبیث انسان جھوٹ میں مزید اپنی طرف سے سو جھوٹی باتیں ملا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں، کاہن اور سفلی عاملین کا یہی شیوہ اور طریقہ رہا ہے۔ {الشعراء 221 تا 223}
سلیمٰنؑ نے جب ہدہد کو غیرحاضر پایا تو برہم ہوگئے اور اعلان کر دیا کہ اگر وہ معقول عذر کے ساتھ حاضر ہوا تو ٹھیک ورنہ اسے سخت سزا دوں گا۔ ہدہد دیارِ غیر سے ایک ایسی خبر لے کر لوٹ آیا جو سلیمٰنؑ اور باشندگانِ مملکتِ سلیمانیہ کے لیے نہایت عجیب و غریب تھی۔ کہنے لگا میں قومِ سبا کی ایک پختہ خبر لایا ہوں، ان پر ایک عورت حکمرانی کر رہی ہے، اس کا تخت عظیم الشان ہے، اسے ہر چیز کی فراوانی حاصل ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ اللّٰہ کو چھوڑ کر آفتاب کی پرستش میں مبتلا ہے۔ سلیمٰنؑ نے ملکہ کے نام خط لکھا جس میں سرکشی سے باز رہنے اور تابعداری اختیار کرنے کی تعلیم تھی۔ ملکہ نے اپنے درباریوں سے مشورہ کیا اور آخر میں فیصلہ سنایا کہ ہم سلیمٰنؑ کو تحفے تحائف سے رام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب قیمتی ہدیے دربارِ سلیمانی میں پیش کیے گئے تو آپؑ نے قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا اور کہا اللّٰہ نے مجھے ان سے بہتر چیزوں سے نوازا ہے، ساتھ ہی تابعداری اختیار نہ کرنے کے جرم میں اعلانِ جنگ سنایا۔ ملکہ نے تابعداری اختیار کرنے کا ارادہ کر لیا اور سلیمٰنؑ کے دربار میں حاضر ہونے کے لیے نکل پڑی، ادھر سلیمٰنؑ نے اپنے تابع جنّات اور زورآور آدمیوں کی محفل میں دریافت کیا کہ کون ملکہ کا تخت ملکہ کی آمد سے قبل یہاں لا سکتا ہے؟ جنات اور کتابی علم پر دسترس رکھنے والوں نے اپنی قوت و طاقت کا ذکر کیا اور بالآخر جسے یہ ذمّےداری تفویض کی گئی اس نے پلک جھپکنے کی دیر میں ملکہ کا تخت پیش کر دیا۔ ملکہ آئی اور قصرِ سلیمانی کی چمک دمک اور شان و شوکت دیکھ کر مبہوت رہ گئی، اپنے تخت کی موجودگی نے اسے حیرت میں ڈال دیا بالآخر سلیمٰنؑ کی دعوت پر اس نے اسلام قبول کرلیا اور آفتاب کے بجائے اللّٰہ کی عبادت کو لازم پکڑ لیا۔ {النمل 20 تا 44}