قرآن کی چند متفرق آیتوں کا خلاصہ
{تیئیسویں تراویح}
✍: - تابش سحر
بعثتِ نبویؐ سے قبل جنّات آسمان کی جانب پرواز کرتے اور چھپ چھپا کر غیب کی خبریں معلوم کیا کرتے مگر جیسے ہی قرآن کا نزول شروع ہوا تو یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ اب جب کوئی جن اس غرض سے آسمان کی جانب پہنچتا تو بذریعہ شہاب ثاقب روک دیا جاتا۔ ان دہکتے انگاروں نے رکاوٹ پیدا کر دی تو جنّات ایک جگہ جمع ہوے اور کہنے لگے ضرور دنیا میں کوئی انوکھا واقعہ رونما ہوا ہے جس کے سبب ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان رکاوٹ حائل ہو گئی ہے سو دنیا کے گوشے گوشے میں جاکر معلوم کرو کہ آخر وہ کیا چیز ہے جس کے سبب یہ سب کچھ ہوا۔ ادھر نبیؐ عکاظ نامی بازار کی جانب رواں دواں تھے تاکہ وہاں دور دراز سے آئے لوگوں سے ملاقات ہو جائے اور انہیں اسلام کی دعوت پیش کی جا سکے۔ فجر کا وقت ہو چکا تھا سو آپ نے مقامِ نخلہ پر فجر کی نماز ادا کرنی شروع کر دی ابھی آپ قرآن کی تلاوت کر ہی رہے تھے کہ "نصیبین" کے جنوں کی ایک جماعت وہاں پہنچ گئی۔ انوکھا اور دلپذیر کلام سن کر ان کے دل نرم پڑ گئے آپس میں ایک دوسرے کو کہنے لگے چپ "ہو جاؤ اور غور سے سنو!" انہیں یقین ہو گیا کہ یہی وہ چیز ہے جس کے سبب آسمانی خبروں کے درمیان رکاوٹ حائل ہو گئی، قرآن کریم سن کر وہ متاثر ہو گئے، اسلام قبول کر لیا اور واپس جا کر اپنی قوم کو بھی حکیمانہ اسلوب میں داعیِ الٰہی کی دعوت قبول کرنے کی تلقین کرنے لگے۔ جنّات اللّٰہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے جنہیں آگ سے پیدا کیا گیا اور کئی غیر معمولی صلاحیتوں سے انہیں نوازا گیا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے انسان اور جنّات کو شریعت کا مکلّف بنایا ہے، اس واقعے سے یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ جنوں کی فطرت میں سرکشی انسانوں سے بھی بڑھ کر ہے مگر جیسے ہی انہوں نے اپنے سامنے حق کو دیکھا تو فوراً اسے آنکھوں سے لگایا، دل میں بسایا اور کلامِ الٰہی کے تابع ہو گئے پھر انسان کے پاس حق سے کترانے اور اعراض کرنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ {الاحقاف 29 تا 32}
ایک مسلمان کے فرائض میں اقامتِ دین، دعوتِ حق اور اعلائے کلمۃ اللّٰہ کے خاطر جہاد فی سبیل اللّٰہ شامل ہیں۔ یہ تمام ہی بڑے امور ہیں اور آسان کام نہیں لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی نصرت کا وعدہ فرما کر انہیں آسان کر دیا ہے۔ جب مسلمان اقامتِ دین کے خاطر تگ و دوہ کرتا ہے، دعوت کے میدان میں خود کو تھکاتا ہے اور جہاد کے موقع پر ثابت قدم رہتے ہوے جان کی بازی لگا دیتا ہے تو پھر اللّٰہ کی غیبی مدد اترتی ہے۔ دل مطمئن ہو جاتا ہے، حق کے راستے میں قدم جَم جاتے ہیں، دشمن مرعوب ہو جاتا ہے اور کم تعداد کے باوجود مسلمانوں کی جمعیت بڑے بڑے لشکروں پر غالب آ جاتی ہے۔ یہ سب اسی نصرتِ الٰہی کی کرشمہ سازی ہے جس کا وعدہ کچھ اس انداز میں کیا گیا "اے ایمان والو! اگر تم اللّٰہ کی مدد کروگے تو اللّٰہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔ {محمّد 7}
رسول اللّٰہؐ نے ہجرت کے چھٹے سال خواب دیکھا کہ آپ مسجدِ حرام میں داخل ہو رہے ہیں، بیت اللّٰہ کی زیارت اور طواف کا شوق انگڑائیاں لینے لگا سو آپؐ نے اپنے صحابہ کو جمع کیا اور عمرہ کی نیّت سے مکّہ کی جانب چل پڑے۔ کفّارِ مکّہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے راستہ روک دیا، جنگ کے آثار نظر آنے لگے مگر اب مسلمانوں کی تعداد بھی زیادہ تھی اور کئی دفعہ وہ مشرکینِ مکّہ کو سبق بھی سکھا چکے تھے سو مکّہ والوں نے صلح کی پیشکش کی۔ صلح کی تمام شقیں بظاہر کفار کے مفاد میں تھیں یوں لگتا تھا جیسے کفار سے دب کر صلح کی جا رہی ہے، جیسے مسلمان اس سال عمرہ نہیں کریں گے، اگر مکّہ کا کوئی شخص مسلمان ہوجائے تو اسے مدینہ نہیں بھیجا جائے گا اور اگر کوئی مدینہ کا باشندہ اسلام چھوڑ دے تو اسے مکّہ بھیج دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اصحابِ رسولؐ پر یہ صلح شاق گزر رہی تھی لیکن حضورؐ بصیرت کی نگاہ سے صلح کے مثبت نتائج دیکھ رہے تھے۔ اسی صلح کے بعد سورہ فتح نازل ہوی جس کی پہلی ہی آیت میں عظیم و کھلی فتح کی بشارت سنادی گئی۔ صلح کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ دونوں فریق مامون ہوگئے، جنگ کا خدشہ باقی نہ رہا تو آس پاس اور دور دراز کے قبائل جو صرف جنگ و قتال کی وجہ اسلام اور مدینہ کے قریب آنے سے کتراتے تھے وہ اسلام کے قریب آنے لگے بلکہ جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگے۔ صلح کی دوسری شقیں بھی کافروں کے لیے سر درد بن گئیں اور بالآخر جذبات میں آکر وہی معاہدہ شکنی کے مرتکب ہوگئے چنانچہ اب آپؐ نے اپنے تمام پیروکاروں کو جمع کیا اور سرزمینِ مکّہ پہنچ گئے۔ کافروں میں لڑنے کی سکَت اور ہمّت نہ تھی، آپ سر جھکائے ہوے بیت اللّٰہ پہنچے، کعبے کو بتوں کی گندگی سے پاک کیا، جان کے پیاسے دشمنوں کو معاف کر دیا اور اس طرح خواب اور فتح کی بشارت پوری ہوی۔ {الفتح 1}
ایک مومن کے لیے راہِ نجات اللّٰہ اور رسولؐ کی اطاعت میں ہے لہذا مومنوں کو تعلیم دی گئی کہ کبھی اللّٰہ اور رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرنا۔ رسول اللّٰہؐ کے تعلق سے مسلمانوں کو خصوصی نصیحت کی گئی کہ نبیؐ کے سامنے اپنی آواز بلند نہ کرنا، حجرے کے باہر سے انہیں آوازیں نہ دینا کیوں کہ نبیؐ بڑی شان و عظمت والے ہیں، آپؐ کے مقام و مرتبے کی پاسداری ہر مسلمان پر لازم ہے۔ اسی سورت میں مسلمانوں کو اخوّتِ سلامی کا حسین درس دیا گیا معاشرے کی بقاء و صالحیت کے خاطر تمسخر، غیبت، بدگمانی اور بدگوئی سے روک دیا گیا اور اخیر میں انسانوں میں رائج ہر طرح کی تفریقوں کو زمین دوز کرکے بتا دیا گیا کہ وجہِ فضیلت اللّٰہ کے یہاں تقویٰ اور پرہیزگاری ہے۔ {الحجرات 1 تا 13}
"اور ہم اس سے' اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔" یہاں قربت سے قربتِ مکانی مراد نہیں بلکہ مراد احاطۂِ علم ہے یعنی اللّٰہ تعالیٰ سے انسان کی کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ اس کے ہر اچھے برے کاموں کو جانتا ہے پھر چاہے وہ کام رات کے اندھیرے میں چھپ کر کیے جائیں یا دن کے اجالے میں علانیہ! {ق 16}
متّقیوں کو جنّت اور اس کی نعمتیں عطا کی جائے گی وہ عطیۂِ خداوندی پر نازاں و فرحاں ہوں گے پھر ان متقیوں کے تین دنیوی اوصاف کا ذکر کیا گیا ۱۔ وہ راتوں کو کم سوتے تھے یعنی رات کا پورا حصّہ نیند کی ہی نذر نہیں کرتے تھے بلکہ مخصوص و متعینہ حصّوں میں اٹھ کر عبادتِ خداوندی اور ذکرِ الٰہی میں مشغول رہتے۔ ۲۔ سحر کے وقت استغفار کرتے یعنی اپنی عبادتوں پر ہی تکیہ نہ کرتے، عبادت کے ساتھ ساتھ استغفار کا بھی خاص اہتمام تھا۔ ۳۔ ان کے مال و دولت میں محتاج و ضرورت مندوں کا بھی حصّہ ہوا کرتا تھا یعنی وہ اپنا مال غرباء، مساکین اور فقراء پر بھی خرچ کیا کرتے تھے۔ {الذٰریٰت 15 تا 19}