قرآن کی چند متفرق آیتوں کا خلاصہ
{چوبیسویں تراویح}
✍: - تابش سحر
مومنینِ صالحین نہایت اونچے درجات والی جنّتوں میں داخل کیے جائیں گے اور اگر ان کی اولاد ایمان پر قائم رہی پھر اعمال میں اگرچہ اپنے نیک والدین سے پیچھے رہ گئیں تب بھی اللّٰہ تعالیٰ احسان کا معاملہ فرمائیں گے اور صالحین کی اولاد کو بھی اونچے درجات والی جنّت میں داخل کردیں گے تاکہ نیک ماں باپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ یہ دراصل والدین کے اعمال کی برکت اولاد کو نصیب ہوگی، والدین بھی اولاد کی جانب سے فیضیاب ہوں گے۔ اس کا تذکرہ حدیث میں کچھ یوں کیا گیا ہے "اللّٰہ تعالیٰ جنّت میں نیک آدمی کا درجہ بلند کرتا ہے تو وہ دریافت کرتا ہے "الٰہی! یہ عنایت کس سبب ہے؟" تو اللّہ تعالیٰ جواب دیتا ہے "تیری اولاد کی تیرے لیے دعائے مغفرت کے سبب" {الطور 21}
اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو عظیم الشان نعمتوں اور صلاحیتوں سے نوازا۔ عقل و خرد بخشی، کتاب اتاری، رسول بھیجا، جنّت دوزخ کے احوال بیان کیے، اخروی زندگی کی کیفیت بیان کی۔ ان تمام چیزوں کا تقاضہ تو یہ تھا کہ انسان اللّٰہ کی طرف متوجّہ ہوتا مگر اس سے حماقت کا صدور ہوا اس نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کا رخ دنیا کی طرف موڑ دیا۔ اس کی امیدوں کا مرکز اور تمنّاؤں کا قبلہ اور علم کی انتہا دنیا ہی بن کر رہ گئی۔ مال و متاع، شان و شوکت، مقام و مرتبے کی ہوس نے اسے آخرت اور ذکرِ الٰہی سے غافل کردیا سو نہ وہ کتاب اللّٰہ پر کان دھرتا ہے، نہ رسول کی خیرخواہی کو خاطر میں لاتا ہے اور نہ ہی اپنی عقل سے کام لیتا ہے۔ یہ آیت دراصل کافروں کے بارے میں نازل ہوی لیکن حرماں نصیبی کی بات ہے کہ اب یہی چیزیں مسلمانوں میں دیکھی جارہی ہے۔ عبادتوں میں دل نہیں لگتا، طبعیت ہر دم دنیا کی طرف مائل رہتی ہے جبکہ ایک مومن کا حال تو اس کے برعکس ہونا چاہیے۔ {النجم 29}
قرآن مجید کی تعلیمات اتنی، آسان، سادہ اور اثرانگیز ہے کہ جسے ہر کوئی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ اس کے مضامین سیدھے قلبِ انسانی پر ضرب لگاتے ہیں، عقل کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں جیسے پچھلی قوموں کے احوال اور ان کا انجام، جنّت دوزخ اور قیامت کی منظر کشی، اللّٰہ رب العزّت کی قدرت و عظمت کی نشانیاں، معبودانِ باطلہ کی بےبسی، رسولوں کی دعوت کے سلسلے میں پیش کی گئی قربانیاں اور زندگی گزارنے کے اصول و مسائل۔ تمام ہی مضامین کھول کھول کر مثالوں کے ذریعہ سمجھائے گئے، عبرت کا سامان مہیّا کردیا گیا اور قرآن مجید کو تذکیر کے لیے نہایت آسان کردیا گیا ہے۔ اب فقط ہدایت کا طلبگار چاہیے جو خلوصِ دل کے ساتھ اس کی تلاوت کرے پھر قرآن جانتا ہے کہ کیسےپتھر دلوں کو موم کیا جائے۔ یہ کوئی مشکل کتاب نہیں کہ جسے سمجھنے کے لیے منطق و فلسفے کی ضرورت پڑے یا حسابی گتھیوں میں الجھنا پڑا۔ اب جو پڑھنا ہی نہ چاہے یا اسے محض مقدّس و متبرّک کتاب جان کر جزدانوں میں لپیٹ کر اونچے اونچے طاقوں میں سجادے تو ظاہر ہے یہ نادانی کی بات ہوگی۔ {القمر 17}
ہم اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں تو ہر سمت اللّٰہ کی نعمتیں ہی نعمتیں نظر آئے گی۔ اونچا بےستون و بےشگاف آسمان، کشادہ ہموار زمین، کھجور کے باغات اور قسمہا قسم کے پھل پھول، مٹّی سے بنے انسان اور آگ سے بنے جنّات، موسموں کی تبدیلی پھر الگ الگ موسم میں آفتاب کا مختلف جگہوں سے طلوع ہونا اور ڈوبنا، دو دریاؤں کے درمیان غیبی رکاوٹ، دریاؤں سے خوبصورت اور قیمتی موتیوں کا نکلنا، سورج، چاند اور ستاروں کی چمک دمک، جنّت اور اس کی لازوال نعمتیں، انسان کی قوّتِ گویائی اور فہمِ قرآنی! الغرض اتنی نعمتیں ہیں جنہیں ہم شمار بھی نہیں کرسکتے۔ کوئی انسان ہم پر کوئی احسان کردے تو ہم اپنے آپ کو اس کا مقروض سمجھتے ہیں اس کا پاس و لحاظ کرتے ہیں پھر جس رب نے بےشمار نعمتیں عطا کی اس کا پاس و لحاظ کتنا ضروری ہے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سورہ رحمٰن میں بار بار اسی جانب توجہ مبذول کرواتے ہیں ضمیرِ انسانی کو یہ کہہ کر جھنجھوڑا گیا "پس (اے گروہِ انس و جنّ!) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤگے۔" نعمتِ خداوندی کی شکرگزاری کا تقاضہ ہے کہ ہم رب العالمین کی قدرت و عظمت کے معترف ہوں، اس کی وحدانیت کا اقرار کریں، اس کی عبادت کو لازم پکڑیں اور بخشی گئی نعمتوں کا درست استعمال کریں۔ {الرحمٰن 1 تا 78}
"ہم ان کی عورتوں کو نئے سرے سے پیدا کریں گےـ" دنیا میں عورت کتنی ہی حسین و جمیل ہو ایک مدت بعد اس کا حسن ماند پڑجاتا ہے، عمر ڈھل جاتی ہے پھر ماہانہ کچھ دنوں گندگی سے واسطہ پڑتا ہے، ایک مرتبہ صحبت کے بعد بکارت ختم ہوجاتی ہے لیکن جنّت میں ایسا نہ ہوگا۔ دنیا کی عورتوں کو جنّت میں جوانی کی عمر دی جائے گی جو کبھی نہیں ڈھلے گی، حسن میں اضافہ کردیا جائے گا جو کبھی ماند نہ پڑے گا، کسی بھی طرح کی گندگی سے واسطہ نہ ہوگا اور ہر صحبت کے بعد وہ دوبارہ باکرہ ہوجائے گی۔ ایک بوڑھی خاتون' حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوی اور کہنے لگی حضورؐ میرے لیے جنّت میں داخلے کی دعا کیجیے! آپؐ نے ازروئے مزاح ارشاد فرمایا "بوڑھی عورتیں جنّت میں نہ جائے گی" وہ روتے ہوے جانے ہی لگی تھی کہ آپؐ نے کہا "اسے خبر کردو کہ بڑھاپے کی حالت میں نہیں جائے گی" یعنی اسے جوانی کی حالت میں جنّت کا داخلہ نصیب ہوگا۔ {الواقعہ 35}
میدانِ حشر میں ایک مرحلہ ایسا آئے گا کہ ہرسمت اندھیرا چھا جائے گا، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے گا پھر ظلمت کے اس عالم میں ہر انسان کو اس کے اعمال کے اعتبار سے نور فراہم کیا جائے گا۔ اپنی اپنی روشنی میں لوگ منزل کی جانب رواں دواں ہوں گے۔ روشنی سے محروم منافقین ایمان والوں سے درخواست کریں گے کہ ہمیں بھی اپنی روشنی سے راستہ دیکھ لینے دو ان سے کہا جائے گا اپنا نور خود تلاش کرو یعنی آج دوسروں کی روشنی میں چلنے کی اجازت نہیں پھر ان کے درمیان اور ایمان والوں کے درمیان دیوار حائل کردی جائے گی۔ جو شخص نورِ ایمانی میں اضافے کا خواہش مند ہے اسے چاہیے کہ وہ کثرت سے قرآن کی تلاوت کرے، درود شریف پڑھے، مساجد کی طرف قدم اٹھائے، اپنے مسلمان بھائیوں کی تکلیف دور کرے اور دمِ آخر تک اپنے ایمان کی حفاظت کرے نیز خیر کے دیگر کاموں کو انجام دے اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ ظلم' قیامت کے دن اندھیرا بن کر چھا جائے گا۔ {الحدید 12,13}