قرآن کی چند متفرق آیتوں کا خلاصہ
{پچیسویں تراویح}
✍: - تابش سحر
انسان کا اپنے لیے اصل اہتمام یہی ہے کہ وہ اپنی آخرت کی فکر کریں، ایسے کام انجام دیں جو اخروی زندگی میں کام آئے اور جو شخص دنیا ہی کے کاموں میں مشغول ہوگیا اور اعمالِ صالحہ اور خیر کے کاموں سے غافل رہا تو درحقیقت وہ خود کے دائمی مفاد کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے وہ اپنے آپ کو بُھلا بیٹھا، اپنے انجام سے بےخبر ہوگیا اور اسے جنّت دوزخ کی ذرّہ برابر بھی پرواہ نہیں۔ ہر وہ انسان جو اللّہ تعالیٰ کے احکامات کو اس طرح نظرانداز کردے جیسے اللّٰہ ہی کو بھول گیا ہو تو اللّٰہ تعالیٰ بھی اس کو اپنے آپ سے ایسے ہی غافل کردیتے ہیں پھر صبح و شام اس کے ذہن و دماغ پر دنیا سوار رہتی ہے اور آخرت کا خیال تک نہیں آتا چہ جائیکہ نیک کاموں کے ذریعہ اپنی عاقبت سنوارے۔ خود سے غافل انسان جسے نہ اپنے فائدے کا علم ہے اور نہ نقصان کا ادراک وہ جہالت و نادانی کے سبب کیا کچھ نہیں کرے گا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مورتی پوجا، جانوروں کی پرستش، ندیوں اور پہاڑوں کو دیوی دیوتا سمجھنا، انسانوں کو خدا کا اوتار تسلیم کرنا یہ سب خدا فراموشی ہی کا نتیجہ ہے۔ {الحشر 19}
جہاد کی فرضیت کا حکم نازل ہونے سے قبل کچھ مسلمان آپس میں بات چیت کررہے تھے کہ اگر ہمیں معلوم ہوجائے کہ اللّٰہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل کیا ہے تو ہم اسے انجام دیں گے اور اس سلسلے میں اپنی جان اور مال کی کوئی پرواہ نہ کریں گے۔ اس پر بتایا گیا کہ محبوب عمل جہاد فی سبیل اللّٰہ ہے بعض لوگوں کو یہ عمل دشوار معلوم ہوا اس پر یہ آیت نازل ہوی جس میں مومنوں کو بڑے بڑے دعوے کرنے سے منع کیا گیا "اے ایمان والو! کیوں ایسی بات کہتے ہو جو کرتے نہیں!" اس سے معلوام ہوا کہ انسان کے قول و عمل میں تضاد نہ ہونا چاہیے اور انسان جو بات کہہ دے اسے پھر پورا بھی کردکھائے یعنی وعدہ وفا کرے۔ محض زبانی دعوے ہوں اور عمل ندارد تو یہ اللّٰہ کے نزدیک بڑا گناہ ہے۔ بعض لوگ اپنی جھوٹی شان بیان کرنے کے لیے بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ جھوٹی شہرت کے خاطر اپنے خالق و مالک کو ناراض کررہے ہیں۔ {الصف 2,3}
اللّٰہ تعالیٰ نے یہودیوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے کتابِ مقدّس تورات اتاری تھی، تورات' ہدایت کا سرچشمہ اور نور کا سامان تھی۔ یہودیوں پر لازم تھا کہ وہ تورات کو پڑھتے، سمجھتے اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزارتے مگر انہوں نے غفلت سے کام لیا، دنیا کی طرف مائل رہے اور کتابِ الٰہی کے تئیں اعراض و تغافل برتنے لگے۔ ایسے نادانوں کو اُس گدھے سے تشیہ دی گئی ہے جس کی پشت پر علم و حکمت کی کتابیں لدی ہوی ہیں۔ گدھے کی پشت پر بوجھ تو ہے مگر وہ کوئی کتاب نہ پڑھ سکتا ہے اور نہ ہی سمجھ سکتا ہے کہ ان کتابوں میں کیا بیان کیا گیا۔ اس میں ہمارے لیے بھی عبرت کا سامان ہے گر ہم دنیا کی طرف مائل رہے اور قرآن مجید کو چھوڑدیا تو کیا ہماری مثال بھی اس گدھے کی سی نہ ہوگی جسے کتابِ حکمت تو میسّر ہے مگر وہ اس سے استفادہ نہیں کرسکتا؟ {الجمعہ 5}
مال و دولت کی چاہ اور اولاد سے محبّت انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ فرائض و واجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ جائز طریقے سے مال کمانا مذموم عمل بھی نہیں اور نہ ہی اولاد سے محبّت بری چیز ہے البتّہ جب مال کی حرص اور اولاد سے محبّت ذکرِ الٰہی کی راہ میں حائل ہوجائے تو پھر یہ ہلاکت و تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں یعنی مال کی ہوس میں ایسا گرفتار ہوگیا کہ نہ نماز کی فکر نہ رمضان میں روزوں کا اہتمام اور نہ دیگر طاعات کا التزام یا اولاد کی راحت یا خوشی کے لیے صبح و شام اس طرح کاموں میں لگا ہوا ہے کہ عبادتِ خداوندی کی کوئی فکر ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں مال و اولاد کو فتنہ کہا گیا ہے، دونوں چیزیں فی نفسہ فتنہ نہیں ہے لیکن جب انسان ان کے اہتمام میں غلو سے کام لیتا ہے تو یہ فتنے کا سبب ضرور بنتے ہیں لہذا غلو سے احتراز کرنا چاہیے تاکہ ذکرِ الٰہی میں خلل واقع نہ ہو۔ ذکرِ الٰہی سے مراد عبادت و طاعتِ خداوندی ہے جس میں بالخصوص پنجوقتہ نمازیں داخل ہیں۔ {المنٰفقون 9}
سورہ آلِ عمران کی آیت میں حکم دیا گیا تھا "اللّٰہ تعالیٰ سے ایسے ڈرو جیسے ڈرنے کا حق ہے۔" مسلمانوں پر یہ حکم شاق گزرا وہ سوچنے لگے کہ ہم میں سے کون اللّٰہ سے ڈرنے کا حق جانتا ہے اور کون اس حق کو پورا کرسکتا ہے۔ اللّٰہ کی شان و عظمت تو بہت اعلیٰ و ارفع ہے اس کے حق کی پاسداری ہم کمزوروں کے بَس میں کہاں؟ مسلمانوں کی اسی بےچینی کو ختم کرتے ہوے یہ وضاحت کردی گئی کہ تم مقدور بھر کوشش کرلو یہی کافی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا اللّٰہ تعالیٰ نے اتنی ہی ذمّےداریاں ہم پر ڈالی ہیں جس کے اٹھانے کی ہم طاقت و سکَت رکھتے ہیں۔ حضرت جریر بن عبداللّٰہؓ فرماتے ہیں "میں نے رسول اللّٰہؐ سے بیعت کی کہ آپ کی بات سنوں گا اور اطاعت کروں گا" تو آپ نے مجھے تلقین کی (سمع و طاعت اتنی لازم ہے) جتنی کی تو استطاعت رکھتا ہے۔ {التغابن 16}
ایمان والوں کو حکم دیا گیا کہ خود بھی جہنّم کی آگ سے بچو اور اپنے اہل و عیال کو بھی آتشِ دوزخ سے بچاؤ! جہنّم سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ اللّٰہ و رسولؐ نے جن کاموں کے انجام دینے کا حکم دیا انہیں انجام دیا جائے اور جن کاموں سے روک دیا ان سے رک جائے بس یہی عمل نارِ جہنّم سے بچنے کا سامان ہے۔ اہل و عیال کو نصیحت، خیرخواہی، تربیت اور تعلیم کے ذریعہ طاعات پر ابھارنا اور منکرات سے دور رہنے کی تلقین کرنا درحقیقت اہل و عیال کو آتشِ دوزخ سے بچانا ہے۔ جہنّم کی آگ اپنی تپش اور حرارت میں دنیوی آگ سے ستّر گنا بڑھ کر ہے پھر اس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ اس آگ سے بچ نکلنے کی کوئی سبیل نہ ہوگی کیوں کہ اس پر ایسے سخت نگراں فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللّٰہ کی نافرمانی نہیں کرتے۔
{التحریم 6}