قرآن کی چند متفرق آیتوں کا خلاصہ
{چھبّیسویں تراویح}
✍: - تابش سحر
"بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ساری بادشاہت ہے اور اللّٰہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ جس نے موت و حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔" اللّٰہ ہی ہے جس نے موت و حیات کا فلسفہ متعارف و ایجاد کیا۔ موت کو مقدّم رکھنے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہر چیز اپنی ابتدا میں موت ہی کے حکم میں ہے جیسے انسان کی ابتدا مٹّی ہے یا یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ موت' حیات سے بڑھ کر وعظ و نصیحت کے سلسلے میں اثرانگیز ہے۔ وہ اس طرح کہ موت کا تصوّر آخرت کی فکر کو جِلا بخشتا ہے، عذابِ قبر، حشر اور جنّت دوزخ کے خیالات اعمالِ صالحہ پر ابھارتے ہیں۔ موت و حیات کی تخلیق کا مقصد بیان کرتے ہوے کہا گیا اللّٰہ آزمانا چاہتا ہے کہ کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ کون زیادہ عمل کرنے والا ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اللّٰہ کے یہاں رضائے الٰہی اور خلوصِ نیّت و خلوصِ دل سے کیا گیا عمل مقبول و معتبر ہے اور اللّٰہ کے ترازو میں کمیّت نہیں کیفیتِ عبادت کا وزن ہوگا لہذا ہر نیک کام اہتمام کے ساتھ کرنا چاہیے۔ {المک 1,2}
یمن میں ایک نیک انسان تھا جس کا بڑا باغ اور کھیت کھلیان تھے، جب جب بھی درخت پھل دیتے اور زمین سے گلّہ اُگتا تو وہ فقیروں مسکینوں اور محتاجوں کا حصّہ الگ چھوڑ دیتا۔ اس نیک آدمی کے بعد اس کی اولاد نے لالچ میں آکر اپنے باپ کی پاکیزہ روایت سے انحراف کا منصوبہ بنایا اور ارادہ کرلیا کہ ہم مسکینوں، محتاجوں کو کچھ نہیں دیں گے اور کل صبح ہی صبح سارے پھل توڑ لائیں گے تاکہ کسی کو خبر بھی نہ ہو۔ رات میں وہ سوئے، ادھر باغ پر آفت مسلّط کردی گئی اور راتوں رات ساری کھیتی اور باغ تباہ ہوگیا۔ اب ان میں سے ایک نے توجہ دلائی کہ یہ ضرورت مندوں کو ان کا حق نہ دینے کا نتیجہ ہے۔ قرآن مجید میں جنّتیوں کے جو دنیوی اوصاف بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ایک وصف یہ ہے کہ ان کے مال میں ضرورت مندوں اور محتاجوں کا حصّہ ہوا کرتا تھا جبکہ مذکورہ واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس حصّے کو نظرانداز کرنے کا وبال دنیا میں بھی ملتا ہے اور آخرت میں بھی! {القلم 17 تا 28}
استغفار' اللّٰہ کے نزدیک محبوب عمل ہے چنانچہ اس کا اخروی فائدہ یہ نصیب ہوتا ہے کہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں اور دنیوی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ آسمان سے بارش نازل کرتا ہے، مال و اولاد میں برکت ہوتی ہے اور دیگر نعمتیں اترتی ہیں۔ سلف صالحین کے یہاں استغفار کا بڑا اہتمام تھا خود ہمارے پیارے نبیؐ دن میں ستّر مرتبہ سے بھی زیادہ توبہ و استغفار کیا کرتے تھے جبکہ آپؐ معصوم تھے مزید یہ کہ آپؐ کو' اگلے پچھلے گناہوں سے معافی کا پروانہ بھی عطا کردیا گیا تھا۔ اب جس انسان کی پشت پر ڈھیر سارے گناہوں کا بوجھ لدا ہوا ہو اسے اللّٰہ سے مغفرت کا کیسے اور کتنا سوال کرنا چاہیے ظاہر ہے۔ دوسرے مذاہب میں گناہ بخشوانے کے لیے عجیب و غریب رسمیں رائج ہیں اسلام نے گناہ بخشوانے کا کتنا سادہ اور آسان راستہ بتایا! یہ محض اللّٰہ کا فضل و احسان ہے پھر دنیوی انعامات سو الگ! یوں کہیے نورٌ علیٰ نور لہذا ہمارے زبان پر اٹھتے بیٹھتے "استغفر اللّٰہ" کا ورد ہونا چاہیے کہ اے اللّٰہ میں گناہوں سے معافی کا سوال کرتا ہوں۔ {نوح 10 تا 12}
صبح، رات اور چاند کی قسم کھا کر بتایا گیا کہ دوزخ بڑی بھیانک جگہ ہے۔ اس کی آگ ایسی شدید ہے کہ کھالوں کو جھلسا کر رکھ دے گی، جو نہ باقی رکھے گی اور نہ چھوڑے گی، ہر لمحہ جہنّمی اس میں جھلستا رہے گا۔ ہر نفس اپنے اعمال کے بقدر مبتلائے عذاب ہوگا، رہے مومنین و صالحین سو وہ جنّتوں میں مزے کررہے ہوں گے اور جہنّمیوں سے سوال کررہے ہوں گے کہ کس چیز نے تمہیں یہاں پہنچایا۔ جہنّمی جواب دیں گے ہم نہ تو نماز پڑھتے تھے اور نہ ہی مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ گمراہی و ابطالِ حق کی باتوں میں شریک ہوتے اور یومِ جزا کا انکار کیا کرتے تھے۔ یہ بھی اللّٰہ کا احسان ہی تو ہے کہ اس نے کل پیش آنے والے واقعات اور حالات کا نقشہ کھینچ کر پیش کردیا تاکہ انسان عقل سے کام لیں اور ان کاموں سے احتراز کریں جس کے سبب جہنّمی جہنّم میں پہنچ جائیں گے اور وہ کام انجام دیں جن کے کرنے سے جنّتی جنّت میں داخل کیے جائیں گے۔ {المدّثّر 27 تا 46}
جب جبرئیلؑ تشریف لاتے اور قرآن کریم کی کوئی آیت آپؐ کو سناتے تو آپ کو یہ فکر لاحق ہوتی کہ جس طرح جبرئیل پڑھ رہے ہیں میں بھی بالکل اسی طرح پڑھوں، کوئی فرق در نہ آئے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی آیت یا کلمہ بھول جاؤں سو آپؐ نزولِ قرآن کے وقت جلدی جلدی اپنی زبان کو حرکت دیتے اور جو کچھ پڑھا جاتا اسے دوہراتے۔ سورۃ القیامہ میں آپ کو اطمینان دلایا گیا کہ آپؐ کو قرآن مجید یاد کروادینا اور پڑھوانا ہمارے ذمّے ہیں سو اپنی زبان کو جلدی جلدی حرکت نہ دو اور جو قرآن پڑھا جائے اسے غور سے سنو! کتنے اہتمام اور حفاظت کے ساتھ قرآن نازل ہوا اور ہم تک پہنچا یہ اس کی واضح دلیل ہے پھر یہ بھی پیغام ملا کہ قرآن کی تلاوت کے وقت کان لگا کر سننا چاہیے اور تلاوتِ قرآن کے سلسلے میں عجلت پسندی محمود عمل نہیں۔ پچھلی سورت {سورۃ المزمل} میں ترتیلِ قرآن کا حکم دیا گیا تھا یعنی ٹھہر ٹھہر کر معانی میں غور کرتے ہوے پڑھنا۔ {القیامه 16 تا 19}
قرآن مجید ایسا معجز کلام ہے کہ جس کی نظیر پیش کرنے سے تمام عالمِ انس و جن قاصر ہیں۔ پہاڑوں پر نازل کردیا جاتا تو وہ خشیتِ الٰہی سے ریزہ ریزہ ہوجاتا۔ زورآور جنّات نے قرآن سنا تو اس کی عظمت کے قائل ہوگئے۔ قرآن کا اسلوب اثرانگیز، مثالیں واضح، تعلیمات پاکیزہ، مضامین قلوبِ انسانی میں اترنے والے، کہیں کوئی کجی نظر نہیں آتی، فصاحت و بلاغت قرآن پر ختم ہے۔ ایسے دلپذیر کلام کو سن کر بھی یہ سرکش کافر ایمان نہیں لاتے تو اب کونسی بات سن کر اسلام قبول کریں گے؟ یعنی گمراہی ان کا مقدّر ہوچکی، سرکشی اور ہٹ دھرمی کے سبب ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی۔ اس آیت میں ایک پوشیدہ اشارہ یہ بھی ہے کہ دعوت کے سلسلے میں سب سے زیادہ اثرانگیز شئے قرآن مجید ہے لہذا داعی پر لازم ہے کہ وہ دعوتی گفتگو میں ایران توران کے بجائے قرآنی مواد شامل کریں۔
{المرسلٰت 50}