قرآن کی چند متفرق آیتوں کا خلاصہ
{گیارہویں تراویح}
✍: - تابش سحر
جو شخص دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو وہ اپنی آنکھوں سے قدرت کے حسین مناظر کا دیدار کرتا ہے، راہ میں جگہ جگہ کانٹے بچھے ہوں تو وہ بچتا بچاتا آگے بڑھتا ہے۔ وہ کسی دوراہے پر کھڑا ہو اور آگے ایک راستہ کھائی کی طرف جائے اور دوسرا منزل کی طرف تو وہ کبھی کھائی والے موڑ کو اختیار نہیں کرے گا۔ روشنی سے فائدہ اٹھائے گا اور اپنے لیے مفید و فائدہ مند چیزیں جمع کرے گا جبکہ ایک نابینا قدرت کے حسین مناظر سے بھی محروم ہوگا، راستے کے کانٹوں سے بھی نقصان اٹھائے گا اور اس بات کا خدشہ دامن گیر رہے گا کہ وہ کھائی والے موڑ کا انتخاب کرکے خود کو ہلاکت میں نہ ڈال دے، نور و ظلمت اس کے لیے یکساں ہوں گے۔ یہی مثال ہے اس شخص کی جس نے قرآنِ مجید اور احکاماتِ خداوندی سے اپنی ذات کو منوّر کرلیا وہ خدا کے نزدیک بینا ہے اور وہ شخص جس نے غفلت اور جہالت کی تصویر پیش کی اور حق کا مسلسل انکار کرتا رہا وہ خدا کے نزدیک نابینا ہے۔ جس طرح دن اور رات میں واضح فرق ہے اسی طرح ان دونوں فریقوں کے مابین بھی واضح فرق ہے، بینا اور نابینا کبھی یکساں نہیں ہوسکتے۔ "بھلا وہ شخص جو تمہارے رب کی جانب سے نازل کردہ {کتاب} کو حق مانتا ہو بھلا اس جیسا کیسے ہوسکتا ہے جو اندھا ہو، نصیحت تو عقلمند ہی قبول کرتے ہیں۔" یعنی جو عقل و خرد سے کام لے گا وہ قرآن کی حقّانیت تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ {الرعد 19}
خدشات، موہوم مستقبل، خطرات اور پریشانیوں سے نجات کے لیے انسان دنیا کی حرص کرتا ہے، روزی روٹی، آشیانہ اور حوائجِ زندگی سے بےفکر ہونے کے لیے زمین جائداد اور مال و دولت جمع کرتا ہے۔ وہ یہ تمام چیزیں حاصل کر بھی لیتا ہے مگر خدشات، موہوم مستقبل، خطرات اور اختلاجِ قلبی اب بھی اپنی جگہ باقی رہتے ہیں۔ روزانہ ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں کہ فلاں مشہور شخصیت نے خود کشی کرلی حالانکہ ان کے پاس دنیا کی وہ تمام چیزیں موجود تھیں جس کا ہر انسان محض خواب ہی دیکھ سکتا ہے آخر کیوں؟ اس کی وجہ دل کی بےسکونی اور بےاطمینانی ہے۔ دل کا اطمینان ایسی چیز ہے جسے دنیا بھر کی دولت کے عوض بھی خریدا نہیں جاسکتا اور جس کا دل مطمئن ہوجائے وہ جھونپڑیوں میں بھی ایسی زندگی بسر کرتا ہے کہ قصرِ شاہی کے مکیں اس کے دل میں جھانک سکے تو عش عش کرنے لگے۔ قرآنِ کریم نے دل کی دوا ذکرِ الٰہی تجویز کی ہے، معرفتِ خداوندی اور ذکرِ الٰہی سے بےچین و مضطرب دلوں کو قرار نصیب ہوتا ہے۔ {الرعد 28}
سردارانِ مکّہ کو اس بات کا یقین ہوچکا تھا کہ محمدؐ' نبیِّ آخرالزماں ہے مگر اپنی چودھراہٹ کے چھن جانے کے خوف سے وہ اسلام کی حقانیت قبول نہ کرتے تھے اور دوسری وجہ ضد اور عناد تھی۔ استہزاء کی غرض سے آئے دن وہ عجیب و غریب مطالبات کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کہنے لگے اگر واقعی یہ قرآن حق ہے تو یہ مکّہ کے پہاڑ دور دور ہوجائے تاکہ ہم کھیتی باڑی کرسکے، زمین کا فاصلہ مختصر ہوجائے تاکہ ہم آسانی کے ساتھ شام و یمن کا سفر کیا جاسکے یا مردے زندہ ہوجائے جیسے حضرت داؤدؑ، سلیمٰن اور عیسیٰؑ کے واقعات سے علم ہوتا ہے کہ ایسا ممکن ہے۔ ان کے جواب میں فرمایا کہ اگر ایسا قرآن اتار بھی دیا جاتا جس کے ذریعہ پہاڑ چلتے پھرتے، زمین پھاڑ کر رکھ دی جاتی یا مردے بول اٹھتے (تب بھی یہ لوگ ایمان قبول نہ کرتے) کیوں کہ اپنے عناد و سرکشی کے سبب یہ لوگ ہدایت سے یکسر محروم کردیے گئے ہیں۔ {الرعد 31}
شیطان' انسان کا کھلا دشمن ہے جو دن رات انسان کو گمراہ کرنے کی تدبیروں میں لگا رہتا ہے، آگے پیچھے دائیں بائیں ہر سمت سے حملے کرتا ہے۔ نفس کے غلام انسان' اس کے بچھائے جالوں میں پھنستے ہیں، فریب میں مبتلا ہوتے ہیں اور رحمٰن کی نافرمانی کرتے ہیں۔ بروزِ قیامت جب تمام مکلفین کے حق میں جنّت دوزخ کا فیصلہ کردیا جائے گا تو شیطان جہنمیوں کو مخاطب کرکے کہے گا "اللّٰہ نے تم لوگوں سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے میں جو وعدہ کیا اس کی خلاف ورزی کی" یعنی اللّٰہ کا وعدہ حشر نشر، جنّت دوزخ اور حساب کتاب سے متعلق بالکل درست تھا میں نے تمہیں اس فریب میں مبتلا کیا کہ یہ سب افسانوی باتیں ہیں، موت آئے گی اور سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ "میرا تم پر کوئی زور نہ تھا، میں نے تو بس گناہ کی دعوت دی سو تم نے قبول کرلی لہذا اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو" یعنی گناہ کو انجام دینے کے سلسلے میں' مَیں تمہارا شریک نہ تھا لہذا اب اپنے کیے کا مزہ خود چکھو۔ اس طرح شیطان' انسانوں کے شرکیہ اور کفریہ اعمال سے براءت کا اظہار کردے گا۔ {ابراھیم 22}
اعدائے اسلام کی زندگی' گناہ و عصیاں میں گزرتی ہے مگر اس کے باوجود ان پر نعمتیں اترتی ہیں، عیش و آرام اور آسائش کا سامان نصیب ہوتا ہے، وہ خوشحالی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اپنے پیارے نبیؐ اور مومنین کی دلجوئی کے لیے پروردگار کہتا ہے "ظالموں کے کرتوتوں سے اللّٰہ کو بےخبر نہ سمجھو!" یعنی اللّٰہ تعالیٰ ان کی تمام حرکتوں اور شرارتوں سے واقف ہے، ابھی انہیں ڈھیل دے رہا ہے اس دن تک جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ عذابِ الٰہی کے وقت ان کی وحشت کا یہ عالم ہوگا کہ سر اٹھائے بھاگیں گے، نگاہیں جمی رہ جائیں گی اور دل بدحواس ہوگا۔ جب بھی نفس گناہ پر ابھارے اس آیت کو یاد کرلینا چاہیے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللّٰہ انسانوں کے اعمال سے غافل و بےخبر نہیں۔ {ابراھیم 42}
یہودیوں کے یہاں خدا کی کتاب توریت موجود تھی اور نصاریٰ کے پاس انجیل! اسی سبب انہیں اہلِ کتاب کہا گیا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں لوگوں کو حفاظتِ کتابُ اللّٰہ کی ذمّےداری عطا کی تھی مگر ان لوگوں نے بدترین خیانت کا مظاہرہ کیا۔ اپنی من مرضی کے مطابق تحریف کرنے لگے، علماءِ اہلِ کتاب' زبانیں مروڑ مروڑ کر اپنی طرف سے جملوں کا اضافہ کرتے اور لوگوں کو یہ باور کراتے کہ وہ کتاب اللّٰہ کی تلاوت کررہے ہیں، غرض کتابِ الٰہی کو ظالموں نے بازیچۂِ اطفال بنا کر رکھ دیا تھا نعوذ باللہ من ذلک۔ قرآن مجید میں کوئی انسان یا شیطان چاہ کر بھی تحریف نہیں کرسکتا۔ نہ کوئی آیت و کلمے کا اضافہ ممکن ہے اور نہ ہی کوئی آیت و کلمے کو حذف ہی کیا جاسکتا ہے کیوں کہ قرآن کی حفاظت کی ذمّےداری اللّٰہ تعالیٰ نے خود لی ہے فرمایا "بیشک ہم نے ہی ذکر {یعنی قرآن مجید} اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔" قرآن کریم کو محفوظ طریقے پر امین و مطاع فرشتے کے ذریعہ اتارا گیا، نبیؐ کے سینے میں محفوظ کردیا گیا اور پھر آپ سے صحابہ کرام نے یاد کیا بعد ازاں آج تلک ایک سلسلہ ہے جو درمیان میں کہیں بھی منقطع نہیں ہوا۔ حفظِ قرآن' دراصل حفاظتِ قرآن ہی کا ظاہری سبب اور ذریعہ ہے جو خاص اللّٰہ کی عطا ہے ورنہ عام طور پر انسانوں کو ایسی ضخیم کتاب حفظ کرتے ہوے نہیں دیکھا گیا۔ {الحجر 9}