زاویہ نظر پر میری نظر Zaviya Nazar Par Nazar URDU Medium
✍️فرید بلگرامی خیرآباد سیتاپور
آج ہمارے پیش نظر جناب مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی کتاب زاویہ نظر ہے- کتاب سے پہلے صاحب کتاب کی بات ہو جائے- محترم مفتی صاحب مشہور عالم دین، نائب ناظم امارت شرعیہ، مسلم پرسنل لا بورڈ اور آل انڈیا ملی کونسل کے ممبر، مدرسہ ابا بکر پور کے سابق استاذ اور صاحب طرز قلم کار ہونے کے ساتھ ساتھ ہفت روزہ نقیب کے ایڈیٹر بھی ہیں۔
53 سے زائد کتابوں کا مصنف ہونا کوئی معمولی بات نہیں- بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ مفتی صاحب کا میدان عمل بہت وسیع ہے- وہ بہت نرم دل اور وسیع النظر مصنف ہیں- آپ کی تحریروں سے صاف عیاں ہے کہ مدرسہ و مسجد کی چہار دیواری آپ کے لیے موضوعات کے انتخاب میں رکاوٹ نہیں بن سکی- مسجد کے گنبد و مینار کی بلندی سے آپ بہت دور دیکھتے ہیں۔ عین الحق قاسمی نے آپ کے بارے میں ایک بہتر بات لکھی ہے، وہ یہ کہ
”میرے علم کے مطابق یہ پہلے خوش نصیب صاحب قلم مولوی ہیں، جس کی دانشوری کو مروج حلقہ ادب و دانشوران میں قبولیت حاصل ہے۔“
حلقہ دانشوران میں آپ کو قبولیت حاصل ہونا ہی چاہیے کیوں کہ آپ اعلیٰ ترین کی دینی درسگاہوں سے فراغت حاصل کرنے کے بعد عصری علوم یونیورسیٹی سے حاصل کیا۔ خود پی ایچ ڈی نہیں ہیں لیکن مفتی صاحب کی ادبی خدمات پر تحقیقی کام کر کے راحت حسین نے متھلا یونیورسٹی دربھنگہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر لی ہے۔ خود مفتی صاحب کا کام اس قدر وقیع ہے کہ کسی یونیورسٹی کو ان کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری ضرور دینی چاہیے۔
میں نے مفتی صاحب کی کتاب زاویہ نظر پر تفصیل سے نظر ڈالی ہے- اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ صرف دین و مذہب کے معاملات اور شرعی مسائل بیان کرنے تک محدود نہیں رہے ہیں- آپ نے اپنی کھلی آنکھوں، بلند خیال اور وسعت قلب سے سماج کے ہر پہلو پر خامہ فرسائی کی ہے- آپ حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں- صحافی بالخصوص ایک مدیر کا فرض ہے کہ وہ حالات حاضرہ پر اپنی عقابی نگاہ رکھے- ایک ایڈیٹر کے سامنے خبروں کا خوان سجایا جاتا ہے- اس میں ہر طرح کی خبریں ہوتی ہیں- کچھ اچھی جن کو پڑھ کر ایک گونہ مسرت حاصل ہوتی ہے اور کچھ بہت بری جن کو پڑھ کر دل اداس ہو جاتا ہے- کچھ سے معاشرہ کی اصلاح کی امید کی جا سکتی ہے اور کچھ مخرب اخلاق ہوتے ہیں- ان میں سے انتخاب کرنا ایک دشوار گزار کام ہوتا ہے- اس کام میں اپنی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ سماج کی خواہشات اور قاری کی امیدوں کابھی احترام کرنا ہوتا ہے۔
”زاویہ نظر“ کے مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ قاسمی صاحب ہر بات پر عمیق نظر رکھتے ہیں- ان کے مضامین میں اقتصادی شرح نمو، ان کاؤنٹر۔ جی اس ٹی، داخلی سلامتی، منا بجرنگی، دلت کی بارات، پولی تھین، سول کوڈ، بائی کاٹ، برہمن وادی سوچ، قومی آبادی رجسٹر، تعلیمی نصاب کا بھگوا کرن۔ نیٹ کا نتیجہ، جیسے عنوان کافی تعداد میں موجود ہیں- جن کو پڑھ کر یہ پتہ چلتا ہے کہ قاسمی صاحب کتنے باہوش مدیر اور کتنا وسیع علم رکھنے والے مضمون نگار ہیں۔
اگر میں قاسمی صاحب کے انداز بیان اور عبارت کے مضمرات کا جائزہ لوں تو اس میں ایک درد مند مسلمان کا دل دھڑکتا نظر آئے گا- مثال کے طور پر مفتی صاحب اپنے مضمون بعنوان انتہائی خطرناک میں جو کیرالہ کے سبری مالا مندر میں دس سال سے پچاس سال کی عمر کی لڑکیوں اور خاتون کا داخلہ ممنوع ہونے سے متعلق ہے۔
سپریم کورٹ نے ہر عمر کی خواتین کے لیے مندر کے دروازے کھولنے کا حکم دیا تھا، مگر اس کے برعکس مندر کے کارکنوں نے کسی کو داخل ہونے نہیں دیا۔
اس ضمن میں ایک درد مند مسلمان کا دل یوں ذوفشاں ہوا۔ ”یہ مسلمان اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ہے جو عدالت کے ہر فیصلہ کو قبول کرنے کو تیار ہے، لیکن دوسرا فریق نہ تو آئین کے احترام کا جذبہ رکھتا ہے اور نہ عدالت کے ہر قسم کے فیصلے اس کے لیے حجت اور دلیل ہیں- جب سے حکومت کا شکنجہ عدلیہ پر کسا ہے- فیصلے کی منطق، استدلال کے طریقے اور فیصلوں کی معقولیت میں بڑی تبدیلی آئی ہے- یہ تبدیلی ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
ایسے بے باک اور بہادرانہ جملے ایک نڈر صحافی ہی کہہ سکتا ہے۔
ایک مولوی کا me too جیسے نازک موضوع پر قلم اٹھانا معمولی بات نہیں ہے۔ me too کے معنی ہوتے ہیں ”میرے ساتھ بھی“ اس عنوان کے تحت خواتین اپنے ساتھ ہوئی جنسی ہراسانی کے مسئلے بیان کرتی ہیں- اس الزام کی وجہ سے بہت سی سیاسی شہادتیں بھی ہوئی ہیں- اس مسئلہ کے تمام کوائف بیان کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں۔
ان ساری تفصیلات کے بعد ہمیں اسلامی موقف بھی سمجھنا چاہیے- اسلام کے نزدیک اس قسم کا اعلان قذف اور تہمت ہے- اس میں دو طرفہ سزاؤں کا اہتمام ہے- ثبوت اور شواہد سے الزام ثابت ہو گیا تو مرد سزا کا مستحق ہوگا اور اگر ثبوت اور شواہد سے الزام کا جھوٹا ہونا ثابت ہو گیا تو تہمت لگانے والی عورت کو سزا دی جائے گی۔ خود کشی جیسے حساس اور نازک مسئلہ پر آپ قلم اٹھاتے ہوئے صفحہ قرطاس پر اپنا اشہب قلم یوں دوڑاتے ہیں۔
”خود کشی ایک انتہائی قدم ہے، جو انسان مختلف احوال میں مایوسی کا شکار ہو کر اٹھاتا ہے- کسی کو نوکری ملنے میں مایوسی ہاتھ آئی، کسی کو قرض کی ادائیگی کے لیے رقم کی حصول میں مایوسی کا سامنا پڑا، کبھی امتحانات میں ناکامی سے طلبہ مایوس ہو جاتے ہیں اور کبھی عشق اور محبت میں ناکامی اس کا سبب بنتی ہے۔
قاسمی صاحب اپنے قلم کی جولانئی طبع سے اور اسلامی نقطہ نظر سے ایسے مایوس اور محروم افراد کو راہ دکھاتے ہوئے لکھتے ہیں۔
اسلام نا امیدی کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں امید و توقعات کے چراغ روشن کرنے کی تلقین کرتا ہے- وہ اللہ کی رحمت سے نا امید ہونے کو کفر کے برابر قرار دیتا ہے- اسلام کا عقیدہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر رحم کرنے والا ہے۔ اور حالات کو بدلنے کی قدرت و طاقت اسی کے قبضہ میں ہے۔
626 صفحات کی اس کتاب میں 273 موضوعات پر منتخب مضامین شامل ہیں- صفحہ قرطاس پر یہ مضامین اس طرح کا جمالیاتی نقشہ پیش کرتے ہیں جیسے کہکشاں میں ستارے جڑے ہوں۔
اس کتاب کی بڑی خوبی اور خصوصیت یہ ہے کہ اس کتاب میں املے کی ایک بھی غلطی ٹائپنگ میں نظر نہیں آئی ہے- مطلب یہ ہے کہ اس کی پروف ریڈنگ بہت عرق ریزی سے کی گئی ہے- آج کل اردو کتابوں میں یہ عیب بہت نظر آتا ہے- اس کا ذمہ دار کچھ تو انگریزی کی بورڈ ہے اور کچھ اردو کے وہ لفظ جن کے صوتی اثرات ایک ہوتے ہیں، جیسے ث، س، اور ص سے شروع ہونے والے الفاظ غلط ٹائپ ہو جاتے ہیں، حالانکہ جدید انگریزی جسے امریکن انگلش کہا جاتا ہے وہاں k اور c میں امتیاز باقی نہیں رہا- کافی آپ چاہے k سے لکھیں یا c سے دونوں قابل قبول- مگر اردو میں ص کی جگہ ث استعمال کر دیا اور ”ع“ کی جگہ الف لکھ دیا تو اچھا خاصہ معصوم مکمل طور پر گنہ گار ہو جاتا ہے اور اگر امارت الف کی جگہ ”ع“ سے لکھ دیں تو پوری حکومت ایک چھوٹی سی بلڈنگ میں محدود ہو جائے گی۔
میرے خیال میں یہ کتاب اپنی گوناگوں صفات، ہمہ جہت وسیع النظری اور قابل قدر عنوانات اور اسلام کی چاشنی میں لپٹی ہوئی معلومات کی وجہ سے اہل نظر کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔