زکوٰۃ: اسلام کا اہم رکن | zakat Islam ka rukn zakat Kya hai
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ (9431003131)
اسلام کا نظام معیشت عدل و انصاف پر مبنی ایسا کامل و مکمل نظام ہے، جس کی نظیر دنیا کے کسی قدیم و جدید نظام میں نہیں ملتی۔ یہ نظام خشک و بےجان نظریات پر مبنی نہیں، بلکہ اس کی جڑیں دل و جذبات سے لے کر عمل تک اور معاشرہ کی نچلی سطح سے لے کر اوپری سطح تک پیوست ہیں، جس میں جبر و استبداد اور ظلم و جور کی کوئی گنجائش نہیں-
اسلام پہلے انسانی زندگی پر احکم الحاکمین کا دبدبہ قائم کرتا ہے اور اس کے احسانات یاد دلاتا ہے اور انسانی ذہنوں میں یہ راسخ کرتا ہے کہ تمہارے پاس جو مال و دولت ہے وہ سب رب العالمین کا عطیہ ہے- یہ مال در حقیقت اللہ تعالی کا ہے جو بطور امانت تمہارے سپرد کیا گیا: (وَآتُوْ ھُمْ مِنْ مَالِ اللّٰہِ الَّذِیْ اٰتٰکُمْ) (النور:۳۳) اور اللہ کے اس مال میں سے انہیں دو جو اس نے تمہیں عطا کیا؛ لیکن اسلام انسانوں کو اپنے مال و متاع کی مالکیت سے کمیونزم کی طرح محروم بھی نہیں کرتا ہے- اسی لئے اللہ تعالی نے مال و دولت کا انتساب بار بار انسان کی طرف کیا ہے؛ تاکہ انسان کی خود اعتمادی اور جذبہئ مسابقت نہ صرف یہ کہ محفوظ رہے بلکہ پر وان چڑھتا رہے-
ارشاد باری ہے:(اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ أمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ) (البقرہ:۷۶۲) جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
اسلا م کے عادلانہ نظام معیشت کے بہت سارے حصے ہیں؛ لیکن ان میں اہم ترین شعبہ زکوٰۃ ہے- یہ اسلام کا تیسرا رکن اور اہم ترین فریضہ ہے- اس کی اہمیت کا اندازہ محض اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں ایک دو جگہ نہیں بلکہ ۲۸ مقامات پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا ذکر آیا ہے-
(أقِیْمُوْ االصَّلوٰۃَ وآتُو الزَّکَوٰۃ) سے پورا قرآن بھرا ہوا ہے۔ قرآن کریم میں مسلمانوں کے جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں، ان میں (یُوْتُوْنَ الزَّکَوٰۃَ) بار بار آیا ہے۔ اس موضوع پر احادیث حد تواتر تک پہنچ چکی ہیں، اور امت کا اس پر اجماع ہے کہ زکوٰۃ نماز کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ دین کا خلاصہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ہے- پہلے کا عنوان نماز ہے اور دوسرے کا زکوٰۃ۔ ان کی بھر پور انداز میں تکمیل کے بعد ہی اقامت دین کا تصور کیا جا سکتا ہے؛ بلکہ ایک روایت میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ زکوٰ ۃ نہ دینے والوں کی نماز بھی مقبول نہیں ہوتی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:(لا یقبل اللہ تعالی صلوٰۃ رجل لا یودی الزکوٰۃ حتی یجمعھما فإن اللہ تعالی قد جمعھما فلا تفرقوا بینھما (کنز العمال: ۳/۵۲)کہ اللہ تعالی اس شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتا- یہاں تک کہ وہ ان دونوں کو جمع کرے یعنی نماز اور زکوٰۃ دونوں ادا کرے- اس لئے کہ اللہ تعالی نے نماز اور زکوٰۃ کو ایک ساتھ بیان فرمایا ہے۔
زکوٰۃ کا مقصد یہ ہے کہ زکوٰۃ دینے والا اپنے نفس کو بخل، خود غرضی، انانیت، فقراء کی حق تلفی اور قلب کی قساوت سے پاک و صاف کر کے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: (خُذْ مِنْ اَئمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا) (توبہ: ۳۰۱) آپ ان کے مالوں سے صدقہ لے لیجئے- آپ اس کے ذریعہ انہیں پاک و صاف کر دیں گے۔ ا س کا مقصد یہ بھی ہے کہ فقراء و ضعفاء اور حاجت مندوں کی حاجت رسی کی جائے، جس کی وجہ سے پاکی و نورانیت اور خیر و برکت کا ظہور ہوگا۔
(مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضَاً حَسَناً فَیُضَاعِفُہُ لَہُ اَضْعَافَاً کَثِیْرَۃً) (البقرۃ: ۵۴۲) کون شخص ہے جو اللہ کے لئے قرض حسن (زکوٰۃ یا صدقات) دیتا ہے؛ تاکہ اللہ تعالی اس کو اس شخص کے لئے بہت زیادہ بڑھانے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہر شخص کے پاس اپنی لازمی ضرریات کی تکمیل کے لئے کچھ نہ کچھ مال ہو۔ معاشرے میں کوئی بھوکا یا ننگا نہ رہے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (إن اللہ فرض علی الأغنیاء فی أموالھم بقدر ما یکفی فقرائھم وإن جاعوا وعرووج دو فیمنع الأغنیاء و حق علی اللہ أن یحاسبھم یوم القیٰمۃویعذبھم علیہ)۔ کہ اللہ تعالی نے مالدار لوگوں پر ان کے مال میں اس انداز سے زکوٰۃ فرض قرار دیا ہے، جو فقیروں کے لئے کافی ہو جائے- اب اگر فقراء، بھوکے، ننگے رہتے ہیں یا تکلیف میں رہتے ہیں تو یہ مالدار لوگوں کے زکوٰۃ نہیں ادا کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اللہ تعالی کا حق ہے کہ وہ قیامت کے دن ان سے محاسبہ کرے اور زکوٰۃ نہیں ادا کرنے پر عذاب دے۔
زکوٰۃ کے جو مقاصد و مصالح اور اس کے فوائد ذکر کئے گئے، ان کا حصول اسی صورت میں ممکن ہے جب اس کی وصولیابی اور تقسیم کے لئے ایک جماعتی نظام موجود ہو- اس لئے کہ فرضیت زکوٰۃ کے احکام و مصالح کی عمارت اسی پر کھڑی ہے۔ جس طرح نماز، روزہ اور حج میں اجتماعیت کی روح کارفرما ہے کہ نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا ہے- روزہ کی فرضیت پوری دنیا کے مسلمانوں پر ایک ہی مہینے میں ہے- مناسک حج کی ادائیگی بھیڑ و ازدہام، دشواری و پریشانی کے باوجود چند مخصوص ایام ہی میں کرنی ہے-
ٹھیک اسی طرح زکوٰۃ بھی ایک اہم ترین عبادت ہے اور اس کے لئے بھی اسلام نے ایک اجتماعی طریقہ کار مقرر کیا ہے کہ امیر کے تحت بیت المال قائم ہو- وہ لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرے اور مستحقین تک باعزت طریقے پر پہنچائے- جیسا کہ اللہ تعالی نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے فرمایا: (خُذْ مِنْ اَمْوالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُ ھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھا) (التوبہ: ۳۰۱) کہ اے پیغمبر آپ مسلمانوں کے مالوں سے صدقہ وصول کیجئے- اس کے ذریعہ ان کو پاک اور مزکی بنائیے۔ یہ آیت کریمہ واضح طور پر اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ صاحب نصا ب مالداروں سے زکوٰہ وصول کیجئے؛ یعنی زکوٰۃ کی وصولی امام کے ذریعہ ہو امام و امیر کے تحت حسب مصالح زکوٰۃ کی رقم مصارف زکوٰۃ میں صرف ہو اور ”خذ“ میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کیا گیا ہے وہ ”خطاب مواجہہ“ ہے چناں چہ علامہ نووی شارح مسلم تحریر فرماتے ہیں:(وخطااب مواجھۃ للنبی صلی اللہ علیہ وسلم وھو جمیع امتہ فی المراد سواء) (نووی:۱/۸۳)اور خذ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو خطاب ہے وہ ”خطاب مواجہہ‘‘ ہے، اسلئے حکم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت دونوں شامل ہیں۔
زکوٰۃ کے اجتماعی نظام سے زکوٰۃ کی وصولی زیادہ سے زیادہ مقدار میں ہو سکے گی۔ اور زیادہ سے زیادہ ضرورت مند افراد کا تعاون ممکن ہو سکے گا۔
لوگوں کا تعاون ان کی ضرورت کے لحاظ سے ہوگا۔ محتاج اور ضرورت مند لوگ سوال کرنے کی ذلت سے بچ سکیں گے۔ زکوٰۃ کی رقم کوڑیوں میں بٹنے کے بجائے حسب ضرورت لوگوں کو ایک جگہ سے مل جائے گی- ان لوگوں تک بھی زکوٰۃ پہنچ جائے گی جن کی زبانیں حیا و خوداری کی و جہ سے بند رہتی ہیں- انفرادی زکوٰۃ کی مقدار، تقسیم کے بعد اتنی کم ہو جاتی ہے کہ وہ کسی غریب شخص کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں کر سکتی-
زکوٰۃ کا اجتماعی نظام
زکوٰۃ کا اجتماعی نظام اس ضرورت کو پورا کرتا ہے اور گدا گری کا خاتمہ کرتا ہے۔
حجۃ الاسلام ابو بکر جصاص رازی ؒ اپنی کتاب احکام القرآن میں لکھتے ہیں:”خُذْمِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً“ کی آیت اس امر پر تدلالت کرتی ہے کہ زکوٰۃ کی وصولی کا حق امام کو ہے اور بلا شبہ جن پر زکوٰۃ فرض ہے اگر وہ خود مساکین کو دے دیں گے تو یہ جائز نہ ہوگا- اس لئے کہ زکوٰۃ کی وصولی کا حق امام کے لئے ثابت و قائم ہے۔ لہذا صاحب زکوٰۃ کو امام کے اس حق کو ساقط کرنے کا کوئی اختیار نہیں- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانوروں کی زکوٰۃ کے لئے عاملین کو بھیجا کرتے تھے اور حکم فرماتے تھے کہ ان کی زکوٰۃ ان کی جگہ پر جا کر لیا کریں اور یہی حکم پھلوں کی زکوٰۃ کا ہے؛ بقیہ رہ گئی سونے، چاندی، دراہم و دنانیر کی زکوٰۃ تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی خدمت میں داخل کی جاتی تھی۔ پھر حضرت عثمان غنی نے ایک مرتبہ خطبہ دیا کہ یہ زکوٰۃ کا مہینہ ہے، جس پر قرض ہو وہ اپنے قرض کو ادا کرے پھر باقی مال کی زکوٰۃ ادا کرے- حضرت عثمان غنیؓ نے ارباب مال کو اختیار دیا کہ وہ زکوٰۃ مسکینوں کو ادا کریں۔ (احکام القرآن: ۳/۵۵۱) علامہ ابن الہمام حنفی لکھتے ہیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں خلیفہ اس پر قائم رہے۔ جب حضرت عثمان ؓکا زمانہ آیا اور لوگوں کا تغیر ظاہر ہونے لگا تو انہوں نے خیال کیا کہ لوگوں کے پوشیدہ مالوں کا خفیہ طریقہ سے پتہ لگانا مناسب نہیں- اس لئے انہوں نے اس مال کی ادائیگی ان کے مالکان کے سپرد کر دی اور صحابہ نے بھی اس مسئلہ میں ان سے کوئی اختلاف نہیں کیا۔ اس کی حیثیت امام کے حقِ وصول کو باقاعدہ ساقط کر دینے اور گزشتہ حکم کو منسوخ کر دینے کی نہیں تھی۔ (فتح القدیر: ۱/۱۱۳)
اس تفصیل سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ زکوٰۃ کا مزاج اور شرعی تقاضہ ہے کہ وہ بیت المال میں جمع کی جائے اوران خلفاء و امراء کے سپرد کی جائے جو اس کے منتظم و ذمہ دار ہیں۔ چنانچہ اسلامی خلافت اپنے درجات کے تفاوت کے باوجود برابر زکوٰۃ کی تحصیل اور اس کی تقسیم کا عمل انجام دیتی رہی۔ خلافت عباسیہ کے آخری دور تک یہ صورت حال بر قرار رہی- بالآخر آہستہ آہستہ آنے والی مختلف حکومتوں نے اس نظام کی پابندی کو ختم کر دیا- اس کے نتیجے میں تمام اسلامی ملکوں میں سخت انتشار برپا ہوا- مسلمان شریعت اسلامی کی برکتوں سے محروم ہوتے چلے گئے اور اسی کی سزا ہے کہ آج ان کو ظالمانہ سرمایہ داری، پُر فریب سوشلزم اور انتہا پسندانہ وغیر متوازن کمیونزم کا مزا چکھنا پڑ رہا ہے۔
یہ ایک بڑی سچائی ہے کہ اسلام کا کامل تصور بغیر جماعت اور امارت کے ممکن نہیں- زندگی کے ہر شعبہ میں ایک مسلمان کے لیے اجتماعیت سے محرومی اور انتشار میں مبتلا رہنا بہت بڑا نقصان اور دینی و دنیوی خسران کا سبب ہے۔
اسی لئے حضرت عمر ؓ نے فرمایا: (لا اسلام الا بجماعۃ ولا جماعۃ إلا بامارۃ) جب جماعت اور امارت قائم ہوگی تو ان شاء اللہ پوری امت پر اللہ کی خاص رحمت کا نزول ہوگا-
ارشاد نبوی ہے: ید اللہ علی الجماعۃ۔
لہذا وہ علاقے اور خطے جہاں اسلامی نظام امارت قائم نہیں، وہاں کے مسلمانوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ نظام امارت قائم کریں اور اپنے میں سے کسی ایک لائق شخص کو امیر منتخب کرلیں، جیسا کہ علامہ ابن نجیم مصری نے لکھا ہے: (اما فی بلاد علیھا ولاۃ الکفار فیجوز للمسلمین إقامۃالجمعۃ والأعیاد ویصیر القاضی قاضیا بتراضی المسلمین ویجب علیھم طلب وال مسلم)۔
جب امارت شرعیہ قائم ہو جائے جیسا کہ الحمد للہ صوبہ بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ وغیرہ میں قائم ہے تو اس کے تحت فوری طور پر بیت المال کا شعبہ قائم کیا جائے، جس میں کام کرنے والے عاملین کی ایک بڑی تعداد ہو۔ وہ لوگوں سے زکوٰۃ اور دیگر صدقات واجبہ مثلا عشرہ وغیرہ وصول کریں اوربیت المال کے ذریعہ اسے اس کے صحیح مصارف میں خرچ کیا جائے۔
زکوٰۃ کی تقسیم کہاں کی جائے:
زکوٰۃ کا مصرف کیا ہے؟ اور زکوٰۃ کی تقسیم کن لوگوں کے مابین ہونی چاہئے اس کے لئے خود اللہ تعالی نے سورہ برأۃ میں واضح حکم نازل فرمایا:ارشاد ہے(اِنَّمَا الَّصَدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالمُوَئلَّفَۃِ قُلُوْبِھِمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْن السَّبِیْل فَرِیْضَۃً مِنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمُ‘ حَکِیْمُ‘) (توبہ: ۰۶) صدقات واجبہ تو صرف غریبوں، محتاجوں اور ان کارکنوں کے لئے ہیں، جو اس کام پر مقرر ہیں- نیز ان کا جن کی دلجوئی مقصود ہے اور صدقات کو صرف کیا جائے- گردنوں کے چھڑانے میں اور قرض داروں کے قرضہ ادا کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کی امداد میں، یہ فرض ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ بڑا علم والا، بڑا حکمت والا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ صدقات کرنے والے کو اختیار نہیں کہ اپنی پسندیدگی سے اس کیلئے مصرف تجویز کرے اور اس میں خرچ کرے؛ بلکہ اللہ تعالی نے اس کے لئے خود مصرف مقرر فرمادیا ہے اور طے فرما دیا ہے کہ ان مدات کے سوا ان کو دوسری جگہ خرچ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ آیت میں کل آٹھ مصارف بیان ہوئے، یہ منصوص مصارف، زکوٰۃ کے حکم کے ساتھ دائمی ہیں؛ البتہ مؤلفۃ القلوب کے بارے میں اکثر علماء، ائمہ اور فقہاء کا خیال ہے کہ اسلام کی اشاعت اور غلبہ کی وجہ سے اب ان کے حصہ کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس سلسلے میں قاضی ابو بکر ابن العربی وغیرہ کی رائے یہ ہے کہ اگر اسلام کو غلبہ و اقتدار حاصل ہو تو ضرورت نہیں، لیکن اگر اس کی ضرورت محسوس کی جائے تو ان کو اسی طرح دینا چاہئے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیتے تھے۔۔ قاضی ابو بکر کی اس رائے کو علامہ مناظر احسن گیلانیؒ، مفکر اسلام مولانا الحسن علی ندویؒ اور دیگر علماء نے پسند فرمایا ہے۔
مدارس اسلامیہ میں زیر تعلیم طلبہ بالاتفاق زکوٰۃ کا مصرف ہیں، بعض علماء انہیں ابن سبیل میں اور بعض انہیں فی سبیل اللہ یا فقراء و مساکین میں داخل مانتے ہیں۔ ان طلبہ کے لئے ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مدارس اسلامیہ کی طرف سے زکوٰۃ کی وصولی کا انتظام ہوتا ہے- زکوٰۃ کی وصولی کا کام مدرسہ کے اساتذہ، سفراء اور مبلغین انجام دیتے ہیں؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کا نوے فیصد حصہ مدارس پر خرچ ہوتا ہے اور مدارس کا اتنا عظیم ڈھانچہ زکوٰۃ و صدقات کی رقم پر ہی اصلاً قائم ہے۔ اور بلاشبہ یہ مدارس دین کے مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں؛ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مدارس کا منتشر طور پر زکوٰۃ وصول کرنا اور اس کے لئے نت نئے طریقے اختیار کرنا، کمیشن وغیرہ پر چندہ کروانا، شریعت اسلامیہ کی روح سے ہم آہنگ نہیں ہے؛ لہذا جن صوبوں میں امارت شرعیہ کا نظام قائم ہے اور اس کے تحت بیت المال ہے۔ ان صوبوں کے مدارس کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنا انسلاک بیت المال سے کریں- اگر یہ ممکن نہ ہو تو امیر شریعت کی طرف سے انہیں باضابطہ رقم کی وصولی کی اجازت دی جائے اور وہ اس کی آمد و خرچ کاحساب بیت المال میں داخل کریں- اگر ایسی صورت ہو جائے تو زکوٰۃ وصول کرنے والے سفراء و محصلین ”عاملین علیھا“ کے مصرف میں داخل ہو سکتے ہیں۔ لیکن کمیشن پر چندہ کرنا بہرصورت ناجائز رہے گا۔ جن صوبوں میں نظام امارت قائم نہیں ہے، ان میں اس نظام کو قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، جب تک یہ نظام قائم نہ ہو جائے ارباب مدارس اس علاقے کے اربابِ حل و عقد کے مشورے سے اس کام کو کر سکتے ہیں، یا اس کے لئے کوئی انجمن، تنظیم وغیرہ بنائی جا سکتی ہے جو صالح و بہترین افراد پر مشتمل ہو اور زکوٰۃ کو اس کے صحیح مصرف میں خرچ کر سکے۔ آج مختلف ناموں سے غیر معتبر تنظیموں کے قیام کا ایک فیشن سا چل پڑا ہے، جو اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کر کے امراء سے رقمیں حاصل کرتے ہیں اور من مانے طور پر جائز و ناجائز مصارف میں اسے خرچ کرتے ہیں۔ ایسی انجمن، تنظیم اور فاؤنڈیشن کی قطعا حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔ ورنہ زکوٰۃ کے اجتماعی نظام کی جو روح ہے، وہ ختم ہو کر رہ جائے گی اور وہ انفرادی نظام کی طرح ہو جائے گا۔