رمضان کیوں؟ رمضان پر مضمون - طلبہ و طالبات کے لیے
کامران غنی صبا، صدر شعبہ اردو نیتیشور کالج، مظفرپور
رمضان کی آمد آمد ہے۔ اکثر کسی خاص یوم (Day) یا تیوہار کے موقع پر طلبہ و طالبات اُس خاص دن کے تعلق سے جاننے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اسی نقطۂ نظر سے یہ مضمون قلم بند کیا جا رہا ہے۔
رمضان کے معنی:
رمضان کا مادہ ’رَمَضَ‘ ہے جس کا مطلب ’سورج کا شدت کے ساتھ ریت پر چمکنا ‘ہے۔اس مہینہ کو رمضان کا نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ جب اس مہینہ کا نام رکھا گیا اُس وقت شدید گرمی کا موسم تھا۔ (مجمع البحرین: جلد 2،صفحہ:223)
روزہ کا مقصد:
اسلام کے تمام احکامات و عبادات کا اولین مقصد انسان کے اندر ’تقویٰ‘ کی صفت پیدا کرنا ہے۔ البتہ اسلامی احکامات و عبادات میں اتنی حکمتیں پوشیدہ ہیں کہ انہیں سمجھنے میں بعض دفعہ صدیاں گزر جاتی ہیں۔ روزہ کے تعلق سے ارشاد باری تعالی ہے:
ترجمہ: ائے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی(پرہیز)گار بن جائو۔‘‘(البقرہ183)
تقویٰ کیا ہے:
تقوی کی تعریف خود قرآن کریم میں ہی موجود ہے۔ اختصار میں سورۃ البقرہ کی ہی ابتدائی آیات سے ’تقویٰ‘ کا مطلب سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ترجمہ: اس کتاب میں کوئی شک نہیں۔ متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔ جو بغیر دیکھئے ہوئے ایمان لاتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔(سورۃ البقرۃ ۔ آیت 2-3)
اس آیت کی رو سے متقیوں کی تین صفتیں بتائی گئی ہیں:
(1) غیب پر ایمان لانا: آیت کے اس حصہ کے تعلق ’عقیدہ ‘ سے ہے۔ یعنی بغیر کسی چون و چرا کے اللہ کو،اس کے فرشتوں کو ،اس کی کتابوں کو، اس کے رسولوں کو ، اللہ کی طرف سے لکھی گئی تقدیر کو اورموت کے بعد کی زندگی کومان لینا۔
(2) نماز قائم کرنا: آیت کے اس حصہ کا تعلق ’عبادات ‘ سے ہے۔ یعنی اللہ کی رضا اور اس کی خوشونودی کے لیے اپنا سرِ نیاز اس کے احکامات کے آگے جھکا دینا۔
(3) اللہ کی طرف سے عطا کردہ رزق سے خرچ کرنا: آیت کے اس حصہ کا تعلق ’معاملات‘ یعنی Social Values سے ہے۔ یعنی بندگانِ خدا کے ساتھ کس طرح پیش آیا جائے؟ غریب، مسکین اور پریشان حال بندوں کے دکھ درد میں کس طرح شامل ہوا جائے۔
اب ہم پھر سے اُس آیت کی طرف چلتے ہیں جس میں روزہ کی غرض و غایت ’تقویٰ‘ بتائی گئی تھی۔ : ائے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی(پرہیز)گار بن جائو۔‘‘(البقرہ183)۔
اس آیت اور سورۃ البقر ۃ کی ابتدائی دو آیات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ روزہ کا مقصدہمارے ایمان (عقیدہ ) کو مضبوط کرنا، عبادات کی رغبت پیدا کرنا اور سماجی زندگی کو خدا کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق گزانے کے لیے تیار کرنا ہے۔
آئیے روزہ کے ان تینوں مقاصد کو مزید گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
ایمان کی مضبوطی: بغیر دیکھے اورچون و چرا کیے بغیر اللہ کو اس کے تمام اختیارات اور حکمتوں کے ساتھ مان لینا ہی اصل ایمان ہے۔ انسان خواہ علم کی کتنی ہی اعلیٰ و ارفع منزلوں تک کیوں نہ پہنچ جائے، اللہ کی تمام حکمتوں کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ہماری بہتری اسی میں ہے کہ اللہ کے تمام احکامات کوپہلے تو بغیر کسی دلیل اور توجیح کے قبول کر لیں، پھر اپنے علم اور عقل کے مطابق ان احکامات کے اندر پوشیدہ مصلحتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ روزہ کے تعلق سے جدید سائنس نے جتنے حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں، انہیں آج سے کچھ سال قبل تک سمجھ پانا ممکن نہیں تھا۔ طبی نقطۂ نظر (Medical Pont of View) سے روزہ کتنا مفید ہے، اسے سمجھنا ہے تو ’’یوٹیوب‘‘ پر غیر ملکی ڈاکٹروں کے کئی ویڈیوز دیکھے جا سکتے ہیں۔ امریکی ڈاکٹر پائول براگ(Paul C Bragg)(پیدائش 1895، وفات:1976) نے اپنی کتاب The Miracle of Fasting میں روزے کے جسمانی، ذہنی اور روحانی فوائدپر انتہائی تفصیل اور سائنسی استدال کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ طوالت کے پیش نظر مثال سے گریز کر رہا ہوں۔ پائول براگ نے اسی کتاب میں گاندھی جی کی تحریک کا تجزیہ کرتے ہوئے گاندھی جی کا ایک قول نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اُن کی کامیابی کا اصل راز ’ورت‘ یعنی روزہ میں ہی مضمر تھا۔گاندھی جی کا قول نقل کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
All the vitality and energy I have comes to me,because my body is purified by fasting.– Gandhi
مصنف نے اس کے علاوہ بھی کئی بڑی اور کامیاب ترین شخصیات کی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ تاریخ کی بیشتر بڑی شخصیات کی کامیابی کا اصل راز اس نکتے میں پوشیدہ ہے کہ انہوں نے اپنی بھوک پر قابو رکھا۔
عبادات کی رغبت: ایمان لانے کے بعد اسلام کا دوسرا بڑا تقاضا اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت ہے۔ عبادت جسم کے چند اشاروں اور رسومات کا نام نہیں ہے۔ عبادت ’’عبد‘‘ سے مشتق ہے۔ جس کے معنی آخری درجے کی عاجزی و انکساری ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ’عبادت‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’عربی زبان میں عبودۃ، عبودیہ اور عبدیہ کے اصلی معنی خضوع اور تذلل کے ہیں۔یعنی تابع ہو جانا، رام ہو جانا، کسی کے سامنے اس طرح سپر ڈال دینا کہ اس کے مقابلہ میں کوئی مزاحمت یا انحراف و سرتابی نہ ہو، اور وہ اپنے منشا کے مطابق جس طرح چاہے خدمت لے ۔‘‘(قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات)
رمضان در اصل تربیت (Training) کا مہینہ ہے۔ اسی لیے اس مہینہ میں کثرت سے عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔عبادت کا مطلب عام طور سے نماز، روزہ، حج ، زکوٰۃ و، جہاد غیرہ سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ عبادت کا مفہوم بہت ہی وسیع ہے۔ پیارے نبیﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:
جس مسلمان نے بھی درخت لگایا یا کھیتی کی پھر اس درخت یا کھیتی سے چڑیا یا انسان یا جانور کھائے تو یہ ضرور اس کی طرف سے ’صدقہ ‘ہوگا۔
آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ:مسکین اوربیوہ کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والے کا مرتبہ خداکی راہ میں جہاد کرنے والے، روزہ دار اوررات میں نماز پڑھنے والے کے برابر ہے۔
ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ میں تم کو نفل روزہ و نماز اور صدقہ سے بھی بڑھ کردرجہ کی چیز نہ بتاؤں۔صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ ضرور ارشاد فرمائیں۔ آپ نے کہا : وہ ہے آپس کے تعلقات کا درست کرنا۔
سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات میں چونکہ اختصار کے ساتھ ایمان کی تین بنیادی علامتیں بتائی گئی ہیں۔ اس لیے عبادات کا ذکر کرتے ہوئے ’ام العبادات‘ نماز کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں بھی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ نماز دن بھر میں پانچ بار فرض ہیں۔ یعنی دن بھر میں کم از کم پانچ بار ہمیں اپنی بندگی اور عاجزی کا ثبوت پیش کرنا ہے۔ نماز کے علاوہ اور کوئی ایسی عبادت نہیں ہے جس کے لیے اس طرح وقت متعین ہے۔ زکوٰۃ کبھی بھی دی جاسکتی ہے۔ خدمت خلق کے لیے بھی کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ اسی طرح دوسری عبادات بھی ہم اپنی سہولت اور سامنے والے کی ضرورت کے مطابق کسی بھی وقت انجا م دے سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے لوگ صدقہ خیرات کرنے اور سماجی و فلاحی کاموں میں تو پیش پیش رہتے ہیں لیکن نماز کے معاملہ میں ان کے یہاں وہ اہتمام نہیں پایا جاتا جس کا تقاضا قرآن اور احادیث مبارکہ میں بار بار کیا گیا ہے۔ شادی بیاہ اور تقریبات کے موقع پر، کالج اور یونیورسٹیوں میں، دفتر میں، دورانِ سفر نماز کا قضا کر دینا یا چھوڑ دینا ، ہماری تساہلی کو ظاہر کرتا ہے۔
سماجی زندگی میں خدائی احکامات پر عمل آوری: تقویٰ کا تیسرا بڑا تقاضا سماجی زندگی میں خدائی احکامات پر عمل آوری ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ وہ صرف ہم سے عبادات کا ہی تقاضا نہیں کرتا بلکہ معاشرے میں رہتے ہوئے، معاشرے کے تقاضوں کو بھی پورا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ روزہ میں ایک بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ روزہ کی حالت میں بھوکے پیاسے رہ کر ہمیں اپنے معاشرے میں رہنے والے ایسے بے شمار لوگوں کی حالت کا اندازہ ہوتا ہے جو غربت و افلاس کی وجہ سے کئی کئی وقت بھوکے رہتے ہیں۔ ہم اخبارات ، ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا پر غربت و افلاس کی وجہ سے خود کشی کی خبریں دیکھتے ہیں۔ کئی علاقوں کی سروے رپورٹ دیکھ کر افسوس کا اظہار کرتے ہیں لیکن ہم اس کیفیت کا اندازہ اسی وقت صحیح طور پر کر سکتے ہیں جب ہم خود اس حالت سے گزر کر دیکھیں۔ روزہ کی حالت میں کئی گھنٹوں تک بھوکے پیاسے رہ کر ہمیں یہ احساس بخوبی ہو جاتا ہے کہ بھوک و پیاس ہی وہ بنیادی عوامل ہیں جو ہمارے معاشرے میں جرائم کو جنم دیتے ہیں۔
رمضان کے اثرات کو دیگر مہینوں میں کیسے قائم رکھیں:
جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ رمضان دراصل تربیت(Training) کا مہینہ ہے ۔ یہ تربیت اسی وقت کامیاب سمجھی جا سکتی ہے کہ رمضان کے بعد دیگر مہینوں میں بھی اس کے اثرات ہماری زندگی میں نظر آئیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ رمضان کی ٹریننگ کے اثرات ہمیشہ ہماری زندگی میں قائم رہیں تو ان چند نکات کو پیش نظر رکھا جا سکتا ہے:
٭ دورانِ رمضان ہمیشہ یہ خیال رکھا جائے کہ ہم تربیت کے مرحلے سے گزر رہے ہیں اور رمضان میں کی گئیں عبادات اور اعمال کو بعد کے مہینوں میں بھی قائم رکھنا ہے۔
٭ جس طرح رمضان کے مہینہ میں کالج، یونیورسٹی، کوچنگ اور ملازمت(Job) میں رہتے ہوئے بھی ہم نے نماز اور خاص طور سے باجماعت نماز کے لیے وقت نکالے تھے، رمضان کے بعد بھی جہاں تک ممکن ہو سکے نماز باجماعت کا اہتمام کیا جائے۔
٭ رمضان کے بعد بھی تلاوت قرآن کا اہتمام کیا جائے۔ کوشش کریں کہ روزانہ کم سے کم ایک رکوع ہی سہی ترجمہ کے ساتھ پڑھا جائے۔ ترجمہ کا انتخاب آپ اپنی پسند اور سہولت کے مطابق کر سکتے ہیں۔
٭ کم از کم ہر مہینہ میں ایک دن روزہ رکھنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے لیے اتوار یا چھٹی کا دن منتخب کیا جا سکتا ہے۔ اگر گرمیوں کے دنوں میں روزہ رکھنا دشوار معلوم ہو تو سردی کے موسم میں ایک دو روزے رکھے جا سکتے ہیں۔
٭ ہفتہ میں کم سے کم ایک دن کسی ایک وقت کسی غریب پڑوسی کی دعوت کی جائے، اگر یہ ممکن نہ ہووالدین کی اجازت سے کسی غریب کے گھر کھانا پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔
٭بھوک صرف کھانے کی ہی نہیں ہوتی۔ بہت سے ذہین بچے والدین کی معاشی حالت (Economical Condition) ٹھیک نہیں ہونے کی وجہ سے اپنا تعلیمی سفر بیچ میں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے بچوں کی تعلیمی کفالت یقینا ایک طالب علم تو نہیں کر سکتا۔ آپ اس بات کا خیال رکھ سکتے ہیں کہ آپ کی جماعت میں اگر کوئی طالب علم معاشی تنگی کا شکار ہے۔ اس کے پاس ضرورت کی کتابیں، نوٹس، کاپیاں وغیرہ نہیں ہیں، تو آپ دوستوں کی مدد سے اُس کی مدد کرنے کی کوشش کریں۔
٭ رمضان کے علاوہ عام دنوں میں بھی قیام الیل (رات میں اٹھ کر نفل نماز پڑھنا) کی کوشش کریں۔ شروع میں آپ اس طرح کر سکتے ہیں کہ جس دن نصف رات میں کسی ضرورت کے تحت آپ کی آنکھ کھل جائے تو اسی وقت وضو کر کے کم سے کم دو رکعت نفل نماز ضرور پڑھیں۔
جس طرح رمضان میں آپ کی زندگی ایک اصول اور Routine کے مطابق گزر رہی تھی، عام دنوں میں بھی اپنے وقت کا صحیح استعمال کرنے کی کوشش کیجیے۔