آزادی رائے پر مضمون | اظہارِ خیال کی آزادی پر مضمون | اظہار رائے کی آزادی پر مضمون
ہندوستانی سیاست اور ذرائع ابلاغ میں ان دنوں اظہار رائے کی آزادی پر کھل کر بحث ہو رہی ہے- عالمی تنظیم آر اف اس نے اپنی سالانہ رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ ہندوستانی پریس کی آزادی میں مسلسل گراوٹ آرہی ہے- ایک امریکی صحافی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں رییل جرنلزم (حقیقی صحافت) کا دور ختم ہو چکا ہے- امریکی صحافی کا یہ قول حقیقت سے انتہائی قریب ہے-
ہندوستان میں آج میڈیا بکا ہوا ہے اور بیش تر قابل ذکر صحافی کی ایک قیمت سیاسی پارٹیوں نے لگا رکھی ہے- پرنٹ میڈیا کے مالکان کی وابستگی کسی نہ کسی سیاسی پارٹی، نظریات اور رجحانات سے ہے- اس صورت حال میں قلم وہ نہیں لکھتا جو اسے لکھنا چاہیے، بلکہ وہ لکھتا ہے جو اس سے لکھوایا جاتا ہے-
ایسے میں اظہار رائے کی آزادی کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے- ماضی قریب میں جن صحافیوں نے اپنی بولی نہیں لگنے دیا، انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے-
شجاعت بخاری، گوری لنکیش، نریندر دابھولکر، ڈاکٹر ایم ایک کلبرگی اور ڈاکٹر پنسارے بک نہیں سکے تو انہیں دوسری دنیا کی راہ دکھا دی گئی ہے- پرسون واجپئی، سمن واجپی، اکار پٹیل، ابھیشار اور رویش کمار جیسے چند صحافیوں پر سوشل میڈیا ذاتی حملے اور کردار کشی کرتا رہا ہے- رویش کمار کو این ڈی ٹی وی چھوڑ دینا پڑا- جس طرح ان کے خلاف نفرت کی فضا پیدا کی جا رہی ہے اس میں کیا بعید ہے کہ کسی دن ”بانگ آید کہ فلاں نہ ماند“
یہ اس ملک کا المیہ ہے کہ میڈیا یہاں پرغیر ذمہ دارانہ انداز میں کام کرتا رہا ہے-
اظہار رائے کی آزادی کی اہمیت
کبھی اس نے اظہار رائے کی آزادی کے نام مذہبی مسلمات اور اقدار پر حملے کیے اور کبھی وہ حکومت کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح ناچتا رہا- اب صحافت میں غیر جانب دارانہ نظریات اور حقائق کی پیش کش کی بات عنقا ہے، حالاں کہ ہم تو غیر جانب دار ہونے کو بھی صحیح نہیں سمجھتے-
ہمارا نعرہ تو یہ ہونا چاہیے کہ ہم غیر جانب دار نہیں حق کے طرف دار ہیں، البتہ حق کی تعیین پروپیگنڈے، نعرے بازی اور جملے اچھالنے سے نہیں، انتہائی گہرائی اور گیرائی، پس و پیش حقائق و مشاہدات کی روشنی میں کرنا چاہیے، ورنہ کوئی بھی صحافی بڑی آسانی سے یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم فلاں پارٹی کی حمایت اس لیے کرتے ہیں کہ اسے حق سمجھتے ہیں- اسے حق سمجھنے کی ان بنیادوں پر بھی روشنی ڈالنی چاہیے، جس کی وجہ سے وہ اسے حق سمجھتا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ سب حکومت میں ہو رہا ہے-
بنگال کی ممتا بنرجی بھی اس معاملے میں کچھ کم نہیں ہیں- ممتا کی پہلی حکومت میں ایک کارٹون بنا کر پوسٹ کرنے پر شانتی نکیتن کے ایک پروفیسر کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا اور ضمانت پر رہائی کے بعد گھر میں گھس کر ممتا کے چاہنے والوں نے اس کی جم کر پٹائی کی تھی- لوک سبھا چناؤ کے موقع سے ممتا کے ایک کارٹون بنانے والے کو پولس نے گرفتار کر لیا تھا- بڑی مشکل سے ہائی کورٹ سے ضمانت ملی تھی- اڈیشہ اور تمل ناڈو کی حکومتیں بھی اس معاملہ میں پیچھے نہیں ہیں۔
ملک سے باہر نکلیں تو برما، پاکستان اور اسرائیل سے صحافیوں پر ظلم و جور کی خبریں آتی رہی ہیں- ان حالات میں صحافیوں کا دم خم کمزور پڑتا جا رہا ہے اور وہ لوگ جو ظلم و جبر کے خلاف سینہ سپر ہو جایا کرتے تھے اور قلم کی ساری سیاہی استعمال کر لینا اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے ان کے حوصلے ٹوٹ رہے ہیں-
پرکھادت، ساگر یکا، گھوش، سوامی ناتھن، جیسے صحافی اور مضمون نگار کے الفاظ، جملے اور تعبیرات میں اب وہ دھار نہیں ہے جس سے باطل کے ایوان میں لرزہ طاری ہوتا تھا- آپ خوب جانتے ہیں کہ دھار ایک بار کند ہو گئی تو اس کا صیقل کرنا آسان نہیں ہوتا-
اظہار رائے کی آزادی کا محاسبہ
ایسے میں دو طرفہ محاسبہ کی ضرورت ہے- حکومت اور ان کے کارندوں کو میڈیا کے تئیں اپنے رویہ پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور میڈیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جمہوریت کا یہ چوتھا ستون پابند سلاسل سیم و زر ہو گیا تو اس کی اہمیت و افادیت ہی نہیں، قدر وقیمت بھی ختم ہو جائے گی اور جب بھی ان سلاسل سے نکلنے کی کوشش کی جائے گی صحافی حضرات کو سخت آزمائش سے گذرنا ہوگا- کبھی آزمائش کا یہ سلسلہ جسم و جان تک پہونچے گا اور کبھی اس کا اختتام ابدی نیند پر بھی ہو سکتا ہے۔
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ