حضرت مولانا مفتی ثناء الہدیٰ صاحب قاسمی- ایک تبصرہ Mufti Muhammad Sana UL Huda Qasmi biography
✍️محمد عاقب قاسمی خیرآبادی
فاضل دارالعلوم دیوبند
رابطہ نمبر 6387689048
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کچھ لوگوں کو ابتدا ہی سےخداداد صلاحیتوں اور گونا گوں خصوصیات و کمالات عطا فرما دیتا ہے جس کی وجہ سے ایسے حضرات شروع ہی سے ایسے کار ہائے نمایاں انجام دینے کی فکر اور جد و جہد میں لگ جاتے ہیں جو در حقیقت انہیں کا حصہ ہوتے ہیں۔ قابل قدر ہیں ووہ شخصیات جن کو اللہ رب العزت اپنے خزانۂ غیب سے بے مثال محاسن و کمالات عطا کیے ہوں اور وہ رب کریم کے اس عطیہ کی قدر دانی کرتے ہوئے کسی ایک محاذ پر نہیں بلکہ کئی محاذوں پر مصروف عمل ہوں۔
من جملہ خدا تعالیٰ کی ان منتخب شدہ اور چنندہ شخصیات میں سے عہد حاضر کی ایک کثیر االجہات شخصیت امارت شرعیہ پٹنہ بہار کے نائب ناظم ، ہفت روزہ نقیب پٹنہ بہار کے مدیر مسئول، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تاسیسی ، آل انڈیا ملی کونسل نئی دہلی کے رکن ، وفاق المدارس الاسلامیہ بہار کے ناظم ، قوم و ملت کے خادم حضرت اقدس مولانا و مفتی ثناء الہدیٰ صاحب قاسمی مدظلہ العالی بھی ہیں۔
مفتی صاحب جہاں ایک طرف مسند درس و تدریس کے ایک کامیاب ، باکمال لائق و فائق مدرس ہیں تو دوسری طرف میدان خطابت کے شیریں بیاں ، شگفتہ زباں مقرر اور خطیب بھی ہیں۔ آپ اگر صحرائے صحافت کے شہسوار، ماہر ادیب، نامور مؤرخ اور مشہور زمانہ صاحب قلم ہیں تو دوسری طرف ملی، قومی اور سماجی امور کے ایک با صلاحیت اور کامیاب منتظم بھی ہیں۔
حضرت مفتی صاحب کی خدمات اور کارناموں کا اور آپ کی کثیر الجہات شخصیت کا اکابر علماء نامور ادباء اور مشہور شعراء اور دانشوران قوم نے نہ صرف یہ کہ اعتراف کیا بلکہ داد و تحسین کی اور دعاؤں سے بھی نوازا۔
آپ کی ہمہ جہت شخصیت کا تعارف کراتے ہوئے جناب شاہد نظامی صاحب لکھتے ہیں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی ایک عالم دین ، مصلح، اسلامی اسکالر، فقہ وحدیث پر گہری نظر رکھنے والے اردو زبان و ادب کے محقق و ناقد ، اصلاح معاشرہ کے لئے سر گرم عمل ،امارت شرعیہ، جمیعت شباب اسلام، ملی کونسل، انجمن ترقی اردو، نور اردو لائبریری اور مختلف تعلیمی اور ملی اداروں کی خدمات میں کامیاب اور فعال اشتراک عمل کی وجہ سے پورے ہندوستان میں جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ (مولانا مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی شخصیت اور خدمات صفحہ نمبر۹۹)
محمد سلیم رضوی صاحب لکھتے ہیں گزشتہ چند سالوں میں بہار کے مذہبی علمی و ادبی افق پر جو چند قدآور اور بلند آہنگ شخصیتیں نمودار ہوئیں اس میں ایک نام مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کا ہے۔ جن کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ۲۰۰۰ء میں صدر جمہوریہ ہند نے صدارتی ایوارڈ دے کر نہ صرف زرخیز ذہن کو خراج تحسین پیش کیا بلکہ مدارس اسلامیہ کے تعلیمی معیار کو بھی نگاہ اعتبار بخشا۔( حوالہ بالا ص۹۰)
انوار الحسن وسطوی لکھتے ہیں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کا قومی ایوارڈ سے سرفراز ہونا حقیقت میں ان کی ہمہ جہت خدمات کا حقیقت پسندانہ حکومتی سطح پر اعتراف اور ان کی مقبولیت کی دلیل ہے۔ مفتی صاحب متعدد ملی، سماجی، تعلیمی اور ثقافتی اداروں سے منسلک اور ان کے کاموں میں منہمک رہنے کے با وجود کئی درجن کتابوں کے مصنف اور مؤ لف بھی ہیں۔ مفتی صاحب اردو کے پختہ کار ادیب اور مقالہ نگار ہیں۔ ان کے قلم سے مختلف موضوعات پر بے شمار مقالے تحریر ہو کر ملک کے موقر رسالوں کی زینت بن چکے ہیں۔ (حوالہ بالا ص ۷۳)
پروفیسر نجم الہدیٰ صاحب حضرت مفتی صاحب کے وسعت قلم کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں مفتی صاحب کی نگارشات کا دائرہ اتنا وسیع اور متنوع ہے کہ اس میں تحقیق، تنقید ، تاریخ، شاعری، ادب کی نثری اصناف اور علوم دینی کی متعدد شاخیں بالخصوص فقہ و حدیث سب داخل ہیں۔(حوالہ بالاص ۶۴)
مفتی صاحب کے قلم کی جازبیت کا نقشہ ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق صاحب اس طرح بیان کرتے ہیں مفتی صاحب کی عبارت میں ادبیت اور پختگی کے علاوہ علمیت کی چاشنی بھی ملتی ہے۔ موصوف اپنے خیالات اور الفاظ کو اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ پڑھنے والا ادبیت کا مزہ لیتا ہے اور خشک موضوع بھی دل چسپ ہو جاتا ہے۔ اپنی تحریروں سے قوم کو کورانہ اور نمائشی تقلید سے بچانے کے لئے اکثر نہایت پر اثر الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ (حوالۂ بالا ص ۱۳۶)
اکابر علماء اور نامور ادباء کی طرح مشہور شعرائے کرام بھی آپ کی ہمہ جہت شخصیت کا تعارف اپنے کلاموں میں کرتے آئے ہیں۔ چنانچے کامران غنی صبا صاحب نے آپ کی شان میں یہ اشعار لکھے ہیں۔
ہیں علم شریعت کے وہ رازداں
خموشی میں جن کی نہاں داستاں
وہ ہیں عالم با عمل بالیقیں
جنہیں کہئے اسلاف کا جاں نشیں
مفکر، مدبر کہ دانش وراں
سبھی ان کے حق میں ہیں رطب اللساں
مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی صاحب آپ کی مدح سرائی کچھ اس طرح کرتے ہیں۔
لائق صد ستائش ثناء الہدیٰ
میر بزم ادب ہیں ثناء الہدیٰ
وہ محدث، محقق، سخنور بھی ہیں
مرکز علم و فن ہیں ثناء الہدیٰ
ان کی تصنیف ہر فن میں موجود ہے
ہیں سبھی فن میں ماہر ثناء الہدیٰ
انوار الحق داؤد قاسمی کہتے ہیں ۔
آبروئے وطن صاحب فکر و فن
ہیں ثناء الہدیٰ خود میں اک انجمن
حسن نواب حسن مرحوم نے تو بہت ہی خوب کہا ہے۔
یہ ہیں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی
ان کو سننا بھی پڑھنا بھی ہے لازمی
دین و مذہب کے ساتھ ادب کے امیں
ایسا جلدی ملےگا کہاں آدمی
مختصر یہ کہ مفتی صاحب کی خدمات اور کارناموں کا دائرہ نہ صرف درس و تدریس تک محدود ہے بلکہ تبلیغ و تنظیم ، تحریر و تقریر اور تصنیف و تالیف تک پھیلا ہوا ہے۔ بقول مولانا رضوان ندوی آپ کے قلم سے چار درجن سے زائد کتابیں شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں ۔ پیش نظر کتاب یادوں کے چراغ کی تیسری جلد منصہ شہود پر آئی ہے جس میں حضرت نے ان معاصر شخصیات پر اپنے احساسات و تاثرات کو قلم بند کیا ہے جو سب زیر خاک جا چکے ہیں۔ ان میں کچھ بزرگ بھی ہیں کچھ خورد بھی ، عالی جناب اور عالی مقام شخصیتیں بھی ہیں ، کچھ ایسے بھی ہیں جن کو یاد رکھنے والے مفتی صاحب جیسے چند با وضع و با وفا اس دنیا میں رہ گئے ہیں۔ اس طرح اس مجموعے میں ہر رنگ اور ہر میدان کے لوگ ہیں۔اسلئے مفتی صاحب نے ان اصحاب کے وہی پہلو بیان کیے ہیں جو پسندیدہ اور قبول عام کے مستحق ہیں۔ اس لحاظ سے کتاب کی ایک تاریخی حیثیت بھی ہو گئی ہے ان میں متعدد ایسے نام بھی ہیں جن کی یاد اس مجموعے کے ذریعے باقی رہے گی۔ کتاب کے آغاز میں مصنف نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ یہ کتاب جو ابھی آپ کے ہاتھوں میں ہے ان میں بہت سارے نامور حضرات کی کتاب زندگی کو مختصر خاکوں کی شکل میں پیش کیا گیا ہے ۔ بعض گمنام لوگوں کے بھی اوراق حیات کو پلٹا گیا ہے تا کہ عام لوگوں کی زندگی میں جو روز مرہ کے معاملات و مشاہدات ہیں ان سے بھی سبق حاصل کیا جا سکے۔
اس مجموعہ میں ڈاکٹر قاسم خورشید صاحب کا پرمغز مقدمہ مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی ’’آدھی ملاقات ‘‘اور ’’یادوں کے چراغ کی روشنی میں‘‘ کے عنوان سے بڑا ہی گراں قدر ہے۔ جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مفتی صاحب متعدد شخصیتوں کے حصار میں رہے ان کے اثرات بھی قبول کئے اور بڑی بات یہ ہےکہ جس شخص سے رشتہ قائم کیا پوری شدت کےساتھ نبھاتے بھی رہے اور مستقل یادوں کے چراغ روشن کرتے رہے۔ ہنوز یہ سلسلہ قائم ہے۔ (یادوں کے چراغ ص۱۱)
اسی لئے جب بھی کسی ممتاز شخصیت کے سانحہ ارتحال کی خبر گردش کرتی ہے مفتی صاحب کا قلم حرکت میں آ جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا شبہ ہونے لگتا ہے کہ گویا مضمون پہلے سے تیار تھا۔ یہ ان کے کمال درجے کی فنی مہارت کی علامت ہے۔
بہرحال زیر تبصرہ کتاب کے بیشتر سوانحی خاکے ہفتہ وار نقیب کے علاوہ دوسرے جرائد و رسائل کی زینت بن چکے ہیں جنہیں اب کتابی صورت میں طبع کر دیا گیا ہے۔ مصنف نے کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا ہے باب اول میں علماء و مشائق کے احوال و آثار کا تذکرہ ہے ان میں حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ سمیت ۳۲؍اصحاب فضل و کمال کا تذکرہ ہے۔ باب دوم میں شعراء ،ادباء، سیاستداں اور ماہرین تعلیم کی ادبی فکری اور عملی کارناموں کو بیان کیا گیا ہے۔ باب سوم میں چار بھولے بسرے لوگوں کو شریک اشاعت کیا گیا ہے اور آخری باب میں داغ ہائے سینہ کے عنوان سے مفتی صاحب نے اپنے والد ماجد حاجی محمد نور الہدیٰ رحمانی اور برادر اکبر ماسٹر محمد ضیاءالہدیٰ رحمانی کی سیرت اور کردارو عمل پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اس طرح یہ مجموعہ ہر لحاظ سے قابل دید اور سیرت و سوانح سے دل چسپی رکھنے والوں کے لئے تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔
اخیر میں ڈاکٹر ثوبان فاروقی صاحب کی دعا کو نقل کرکے مقالہ ختم کرتا ہوں۔خدا کرے ان کا احساس تشنگی کبھی زائل نہ ہو ان کی روح یوں ہی مضطرب و بیقرار رہ کر نئے نئے آفاق کی جستجو میں سرگرداں رہے۔ ان کے دل کی آگ امت مسلمہ کے قلوب و اذہان کو عزم و یقین کی قندیل سے ہمیشہ روشن کرتی رہے۔
میری دعا ہے کہ مفتی صاحب کی ذات بابرکات تادیر قائم و دائم رہے کہ انہیں دیکھ کرامت کے اکابر و اسلاف اور صاحبان دعوت و عزیمت کی یاد تازہ ہوتی رہے۔ آمین۔(مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی شخصیت اور خدمات ص۶۹)