کچھ تو کر خوف خدا دل میں Khaufe khuda Dil mein
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد، شاہ میاں روہوا، ویشالی، بہار
گناہوں سے ہمیں رغبت نہ تھی یارب
تیری نگاہِ کرم کو بھی منھ دکھانا تھا
اسلام نے جس قدر اخلاقی تعلیم دنیا کو دی ہے ایسے عالمگیر اور پاکیزہ اخلاق کسی مذہب نے پیش نہیں کئے- آپس کے حقوق جو اسلام نے بتلائے ہیں ان سے دنیا کے اور کل مذاہب ساکت ہیں اسلام جیسا سچا مذہب اگر دنیا میں رہنے سہنے کے اچھے طریقے کافی طور پر نہ بتلاتا تو یہ اس کا نقص سمجھا جاتا حالانکہ وہ کامل مذہب ہے- کاش مسلمان اس سچے مذہب کا عملی نمونہ بن جائیں اور پبلک کو دکھا دیں کہ دیکھو اسلام یہ ہے تو خلق اللہ حلقہ بگوش ہو جانے میں ذرا بھی تو توقف بلکہ تأ مل نہ کرے نمونۂ اسلام از خود ان کو اپنی مقناطیسی زبردست قوت سے اپنی طرف کھینچ لے مگر یہاں تو مسلمانی در کتاب و مسلمانان درگور کا مضمون ہے۔
ایک وہ مبارک زمانہ تھا کہ مسلمان نہایت مستعدی اور سرگرمی سے احکامِ اسلام کے پابند تھے- ان کے جسموں کو تیروں سے چھلنی بنا دیا جاتا تھا- ان کے اعضاء کو ایک ایک کر کے کاٹ دیا جاتا تھا- انہیں گرم گرم تیل کے کڑھاؤ میں ڈال دیا جاتا تھا- بیچارے دم زدن میں چر مر ہوکر رہ جاتے تھے- دہکتے ہوئے انگاروں پر برہنہ جسم لٹا کر گھسیٹا جاتا بیوی بچے مال دولت عزت آبرو سب خاک میں ملا کر گھر سے بے گھر کر دئیے جاتے تھے- وہ کونسا ظلم تھا جو ان سے اٹھا رکھا جاتا تھا- وہ کون سی سفاکی تھی جو ان پر نہ ہوتی ہو وہ کون سا برا برتاؤ تھا جو ان سے نہ برتا جاتا ہو مگر تا ہم وہ مردانِ خدا احکامِ دین پابندی سے بال برابر نہ ہٹتے یہ ناقابلِ برداشت روز روز کی مصیبتیں یہ روح فرسا نت نئی تکلیفیں بھی ان سے پہاڑ سے زیادہ مضبوط استقلال اور ایمان کو کھو دینا تو کجا ذرہ برابر بھی جنبش نہ دے سکتی تھیں-
اپنی تمام راحتیں ایک فرمان نبوی پر قربان کر دیا کرتے تھے- آج انقلاب زمانہ نے وہ روزبد دکھایا کہ ذرا ذرا سی راحتوں کی خیالی امید پر چھوٹی چھوٹی تکلیفوں کے موہوم خوف سے ایمان فروشی کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں جسے دیکھو نفس کا بندہ جس پر نظر ڈالو تکبر اور خود ستائی کے نشہ میں سرمست ایک ایک فرد ننگ اسلام ہر ایک مجرم و خود کام کہیں رات دن دور شراب ہے کہیں عشق خانہ خراب ہے کسی کی چوری اور زنا کاری میں عمر بسر ہو رہی ہے کسی کی جوۓ اور تماشہ بینی میں ساری رات گزر رہی ہے- کہیں راگ اور باجوں کا شوق ہے کہیں ایذا دہی اور حرام خوری کا ذوق ہے سود تو گویا دل لگی ہے- ہے شراب اور نشے بغیر گویا راحت ہی محال ہے۔
کیا مذہب اسلام کی یہی وہ پاک تعلیم ہے جسے محمد رسول ﷺ لے کر آئے تھے- کیا انہی اخلاق ردیہ و خصائل ذمیمہ کو پھیلانے کے لیے آپ نے دنیا میں طرح طرح کی کوفت اٹھائی تھی روز محشر میں جس وقت ہم احکم الحاکمین کے سامنے کھڑے ہوں گے- اعمال نامے کھلے ہوئے ہوں گے- زمین و آسمان بلکہ خود ہمارے اعضائے جسم ہمارے خلاف گواہی دے رہے ہوں گے-
کل مخلوق ایک ہی میدان میں جمع ہوئی ہوگی- آفتاب تیزی اور تندی کے ساتھ بالکل سروں پر ہوگا- ساتھ ہی جہنم چیختی چلاتی شعلے بھڑکاتی آنکھیں پھاڑے غیظ و غضب کے ساتھ گھور رہی ہوگی- اس وقت ہم باری تعالیٰ کو اپنی ان زشت اعمالیوں کا کیا جواب دیں گے- کیا منھ لے کر اپنے مشفق و شفیق رسول اللہ ﷺ سے شفاعت کی آرزو کریں گے ۔ اس پر فریب دنیا میں پھنس کر آخرت کو فراموش نہ کر دیجئے یہ دنیا تو آخرت کے لئے کھیتی ہے جو یہاں بوؤگے وہ وہاں پاؤگے-
اس کے حاصل کرنے میں اور حاصل ہوجانے کے بعد خدا سے اور قیامت سے غافل نہ ہو جاؤ- اللہ کے رسول کے ان الفاظ کو کبھی نہ بھولو کہ نیکیاں کرو اور پھر بھی خدا سے ڈرو کہ نہ جانیں قبول بھی ہوئیں یا منھ پر مار دی گئیں اور جب یہ ہے تو ہم جیسے لوگوں کو جو نیکیوں سے خالی اور گناہوں سے پر ہیں خداۓ تعالیٰ سے کس قدر ڈرنا چاہیے فرمان قرآن ہے (فاتقواللہ ما استطعتم ) لوگو اپنے مقدور بھر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو-
اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنا اور اس کی نافرمانیوں سے بچنا اسی کا نام اسلام ہے یہ فرماں برداری اور نافرمانیوں سے بچنا اسی وقت ہو سکتا ہے جب انسان کے دل میں خوف خدا ہو خوف اور ڈر ہی انسان کو روکتا ہے سانپ سے ہمیں خوف ہے کبھی اس کے منھ میں انگلی ڈالتے ہوئے کسی انسان کو نہیں دیکھا ہوگا-
شیر سے ڈر ہے کبھی اس کے منھ میں جاتے ہوئے کوئی نہیں دیکھا گیا ہوگا- آگ سے ڈرتے ہیں کبھی اس میں کودتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا گیا- اسی طرح جس دل میں اللہ تعالیٰ کا ڈر ہوتا ہے- وہ کبھی اس کی نافرمانیوں کی طرف رخ بھی نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ اس کی تابعداری میں لگا رہتا ہے۔ یہی خوف خدا ہے-
جس نے صحابہ کرام کے دلوں کو خدا کی طرف مائل کر دیا تھا- مستدرک حاکم میں حدیث ہے کہ ایک نوجوان انصاری کا دل خوف خدا سے لبریز تھا-
عذابوں اور خوف خدا کا ذکر سن کر بہت رویا کرتا تھا- یہاں تک کہ اسے گھر سے نکلنا بھاری ہو پڑا رسول اللہ ﷺ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ خود اس کے مکان پر تشریف لے گئے اور اسے گلے لگایا بس اسی وقت اس کی روح پرواز کر گئی آپ فرمانے لگے اس کے کفن دفن کی تیاری کرو۔
خوف خدا نے اس کے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ہیں۔ لوگ آپ سے کہتے ہیں ہ یا رسول اللہﷺ آپ کے بال تو ابھی سے پکنے لگے فرماتے ہیں مجھے سورہ ہود، سورۂ واقعہ اور سورۂ عم یتساءلون وغیرہ کے زوردار بیانوں اور اس دن کی دہشت و خوف نے قبل از وقت بوڑھا بنا دیا- عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں خدمت مبارک میں حاضر ہوا دیکھا کہ آپ نماز میں مشغول ہیں آنکھوں سے آنسو گر رہے ہیں-
روتے روتے اس قدر ہچکی بندھ گئی کہ گویا چکی چل رہی ہے یا ہانڈی میں ابال آرہا ہے- جب نبی معصوم کے خوف اور ڈر کا یہ حال ہے کہ نہ راتوں کو چین ہے نہ دن کو آرام رخسار مبارک سے آنسو خشک نہیں ہوتے- ڈاڑھی تک تر ہے ہچکیاں بندھ گئی ہیں پھر بھلا ہم تم جیسے سر تا پا گناہوں میں ڈوبے ہوئے معصیت کے پتلوں کو کیا کرنا چاہئے- یہاں رکھا ہی کیا ہے نہ عمل ہیں نہ تقوی خدایا بجز تیری رحمت کے کوئی سہارا نہیں-
اپنے انجام پر غور کرو آخر چار ہاتھ کے تنگ و تاریک گڑھے میں جانا ہے یہ فانی دنیا ختم ہو جائے گی پھر اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے-