بِکتا انسان | انسانوں کی تجارت | bikta insan Urdu Medium
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اللہ رب العزت نے انسان و جنات کو اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا اور واضح طور پر قرآن کریم میں تخلیق انسانی کے اس مقصد کو بیان بھی کر دیا- آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا کہ پوری دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے پیدا کیے گیے ہو،
مطلب یہ ہے کہ تم اپنی بندگی، حسن کارکردگی سے اپنی آخرت بنا سکو، اور دنیا جسے آخرت کی کھیتی سے تعبیر کیا گیا ہے- اس کھیتی میں اعمال حسنہ کی ایسی فصل اُگاؤ کہ جنت کے حسین مکانوں کے مکین بننے کی اہلیت و صلاحیت تم میں پیدا ہو جائے۔
کچھ دنوں تک یہ دنیا اسی رخ پر چلتی رہی- پھر ہمارے ذہن و دماغ اعمال و کردار پر مادیت کا غلبہ ہو گیا- نفع نقصان کا معیار اخلاق و کردار کے بجائے جائز و ناجائز طور پر مال و دولت کا حصول بن گیا، چنانچہ بیش تر لوگوں کے نزدیک یہ دنیا آخرت کی کھیتی کے بجائے ایک بازار بن گئی- ایسا بازار جس میں سب کچھ بکتا ہے- یہاں احساسات و خیالات مشاہدات و تجربات، جذبات و کمالات سب بک رہے ہیں-
حقوق بک جاتے ہیں- پڑوس بک جاتا ہے- پوزیشن بک جاتی ہے- ماں کا رحم اور انسان کا جسم بک جاتا ہے-
تلک جہیز کی رسم، کرائے کی کوکھ، طوائفوں کے کوٹھے اور چکلے یہ سب منڈیاں ہی تو ہیں اور اب دنیا اس قدر گر چُکی ہے کہ اسے انسانوں کی خرید و فروخت میں بھی کوئی عار اور شرم نہیں ہے۔
آسٹریا کے دار الحکومت ویانا میں اقوام متحدہ کا ایک ذیلی دفتر ہے، جس کا کام منشیات اور جرائم کی روک تھام کے لیے کوشش کرنا ہے- اس کا مختصر نام UNODC ہے- اس نے انسانی تجارت کے کئی سالوں کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں- اس کے مطابق 2016ء میں 25/ ہزار افراد انسانوں کی تجارت کرنے والے گروہ کے ہتھے چڑھ گیے اور ان کی خرید و فروخت مکمل ہو گئی-
دنیا کے ایسے پینتالیس ممالک جو اس قسم کے اعداد و شمار جاری کرتے ہیں- ان کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی تجارت کے اس کام میں 2011ء سے 2016ء تک 39 فی صد کا اضافہ ہوا-
جرمنی میں جرائم کی تحقیقات کرنے والے ادارہ بی کے اے (BKA) کے سروے کے مطابق صرف جرمنی میں 2017ء میں 671 /افراد کی انسانی تجارت کی گئی جو 2015ء کے مقابلے 25/فی صد زیادہ تھی۔
انسانوں کی اس تجارت میں مال و متاع کے طور پر فروخت کی جانے والی 60/ فی صد خواتین یا بچیاں ہوتی ہیں، جن کا اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جنسی استحصال کیا جاتا ہے- ان سے جسم فروشی کرائی جاتی ہے- بقیہ چالیس فیصد نا بالغ لڑکے، مہاجرین اور تارکین وطن یا غربت و افلاس کے مارے لوگ ہوتے ہیں، جن کو مختلف کاموں میں استعمال کیا جا تاہے۔
چھوٹے بچے کو جنسی تلذذ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے- بڑے لوگوں کے اعضاء فروخت کردیے جاتے ہیں- ان سے غلاموں کے انداز میں کام لیا جاتا ہے- جبری مشقت پر مجبور کیا جاتا ہے اور ایک بڑی تعداد کو ہاتھ پاؤں سے مفلوج بنا کر گدا گری کے پیشے سے لگا دیا جاتا ہے- بِکنے والے انسان کی پوری زندگی عذاب بن جاتی ہے- اب وہ چاہ کر بھی راہ فرار اختیار نہیں کر سکتا۔
اسلام کے نزدیک اس قسم کی تجارت کی قطعا گنجائش نہیں ہے؛ کیوں کہ اسلام کی نظر میں انسان معظم و مکرم ہے- اللہ رب العزت نے اسے دوسرے تمام مخلوقات پر فضیلت دی ہے- وہ خلقی اعتبار سے بھی حسین صورت، معتدل جسم و مزاج اور متوازن قد و قامت کی وجہ سے دوسری تمام مخلوقات پر فضیلت رکھتا ہے-
عقل و شعور، نطق و گویائی اس پر مستزاد ہے- اس کی غذا بھی دوسروں سے الگ مرکبات سے تیار ہوتی ہے، جب کہ دوسری مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت نہیں دی ہے- وہ بے زبان ہے اور اپنی غذا خود تیار کرنے پر قدرت نہیں رکھتا-
شہوات و خواہشات تمام حیوانات میں ہیں- لیکن عقل و شعور کے ذریعہ اسے قابو میں رکھنا صرف انسان ہی کے بس کا ہے- اس لیے وہ سامان تجارت نہیں بن سکتا؛ بلکہ اس کے کسی جز، خون، چمڑا، بال، ہڈی، گوشت کی تجارت نہیں کی جا سکتی- چہ جائے کہ پورے انسان کی تجارت کی جائے-
یہ حکم زندہ، مردہ سب کے لیے ہے- وہ جس طرح زندگی میں قابل اکرام و احترام ہے- اسی طرح مرنے کے بعد بھی محترم ہے، اسی لیے اس کے ساتھ کوئی ایسا کام نہیں کیا جا سکتا جو زندوں کے ساتھ ہم نہیں کر سکتے- یہی وجہ ہے کہ اس تجارت کو روکنا بہت ضروری ہے، تاکہ انسانی اکرام و احترام کو باقی رکھا جا سکے۔