امجد اسلام امجد کی حالات زندگی | امجد اسلام امجد کی ادبی خدمات | Amjad Islam Amjad ki Halaat e Zindagi
مشہور شاعر، ڈرامہ اور کالم نگار امجد اسلم امجد کا گذشتہ دنوں 10 فروری 2023ء بروز جمعہ لاہور میں انتقال ہو گیا- انہیں سونے کی حالت میں دل کا دورہ پڑا اور صبح وہ اپنے بستر پر اس حالت میں پائے گئے کہ ان کی روح قفص عنصری سے پرواز کر چکی تھی- انہوں نے اپنے پیچھے ایک لڑکا علی ذیشان اور دو لڑکیوں کو چھوڑا۔ وہ ستارہ امتیاز سے 1968ء میں، حسن کار کردگی ایوارڈ سے 1987ء اور نگار ایوارڈ سے دو بار نوازے جا چکے تھے- اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے ایوارڈ، اعزاز و انعامات ان کی جھولی میں آ گرے تھے۔ ان میں 23 دسمبر 2019 ء کو ترکی کا اعلی ثقافتی اعزاز نجیب فاضل انٹر نیشنل کلچر اینڈ آرٹ ایوارڈ بھی شامل ہے۔
امجد اسلام امجد کی پیدائش 4/ اگست 1944ء کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر لاہور میں ہوئی- 1967ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو میں کیا- 1968ء سے ۱1975ء تک ایم اے او کالج لاہور کے شعبہ اردو میں تدریسی خدمات انجام دیں- 1975 میں وہ پنجاب آرٹ کونسل کے ڈپٹی ڈائرکٹر بنائے گئے، لیکن 1990ء میں پھر سے ایم اے او کالج واپسی ہوئی اور شعبہ تدریس سے منسلک ہو گئے۔
وہ پاکستان ٹیلی ویزن سے منسلک ہوتے ہوئے چلڈرن کمپلکس کے پروجیکٹ ڈائریکٹر بھی تھے، ان تمام مشغولیات کے باوجود انہوں نے پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔
امجد اسلام امجد کی ادبی خدمات
امجد اسلام امجد نے ادبی دنیا میں شاعر، ڈرامہ نگار اور نقاد کی حیثیت سے خوب نام کمایا- وارث، دن اور فشار ان کے مشہور ڈرامے ہیں- ان کا شعری مجموعہ برزخ، ذرا پھر سے کہنا، ساحلوں کی ہوا-
زندگی کے میلے میں اور جدید عربی نظموں کے تراجم عکس اور افریقی شعرا ء کی نظموں کا ترجمہ کالے لوگوں کی روشن نظمیں کے نام سے شائع ہو کر مقبول ہوئے۔ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ تاثرات کے نام سے منظر عام پر آیا۔
امجد اسلام امجد نے ڈرامہ نگاری میں اپنی مہارت کے جو نقوش چھوڑے ہیں وہ برسوں دیکھنے والے کے ذہن سے محو نہیں ہوں گے۔
امجد نے جمالیاتی شاعری کے حوالہ سے اپنی شناخت بنائی اور یہی ان کی شاعری کے میدان میں شہرت کا سبب بنی- ان کی نظموں میں جو صوتی ہم آہنگ، تازہ کاری، توانائی اور فکری تنوع ہے، اس کی مثال نایاب تو نہیں کم یاب ضرور ہے۔ ان کی شاعری کے قدرداں عوام اور خواص دونوں تھے، کیوں کہ وہ روز مرہ پیش آنے والے واقعات سے شاعری کا مواد حاصل کرتے تھے اور اسے فلسفہ بنائے بغیر پیش کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ ان کی شاعری نے ایک نسل کی فکری آبیاری کی۔
امجد اسلام امجد کی ادبی اسلوب
پاکستانی ٹیلی ویزن کے لیے انہوں نے کئی کامیاب سیریز لکھے، جن میں دہلیز، سمندر، رات، وقت اور اپنے لوگ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ امجد اسلام امجد در اصل اس وقت پاکستانی ادب کا چہرہ تھے- ایک ایسا چہرہ جس کو پاکستان سے باہر مختلف اصناف ادب میں خدمت کی وجہ سے وقار و اعتماد حاصل تھا- وہ معروف بھی تھی اور مقبول بھی- انہوں نے ادب کی دنیا میں بہت لوگوں کو آگے بڑھایا-
وہ باصلاحیت لوگوں کی قدر کرتے اور ان کے بس میں جس قدر ہوتا آگے بڑھانے کی کوشش ہی نہیں جتن بھی کیا کرتے تھے۔ آج کے اس دور میں جب بیش تر بڑے برگد کا پیڑ بنے بیٹھے ہیں‘ ان کے زیر سایہ کوئی تناور درخت نہیں اگ نہیں سکتا- وہ اپنی ہی سونڈ زمین میں گاڑنے پر یقین رکھتا ہے- ایسے میں امجد اسلام امجد کا یہ طریقہ کار قابل ستائش بھی تھا اور لائق تقلید بھی۔
امجد اسلام امجد مجلسی آدمی تھے- ان کی گفتگو برجستہ اور بذلہ سنج ہوا کرتی تھی- انہیں مجلس کو قہقہہ زار بنانا بھی خوب آتا تھا- انہیں اپنے فن اور مقبولیت پر غرور بھی نہیں تھا- وہ ہر اہل قلم کی قدر کرتے تھے اور اپنے سے چھوٹوں کی عزت کرتے تھے- یہ عزت اور پذیرائی کا سلسلہ خورد نواز ی کے آخری مرحلہ تک جا پہونچتا تھا۔
ہندوستان، پاکستان کے درمیان سرحدی خلیج کی وجہ سے میرا ان سے ملنا کبھی نہیں ہوا- ہندوستان مختلف موقعوں سے ان کا آنا ہوا؛ لیکن ان مواقع کا استعمال ملاقات کے لئے میں نہیں کر سکا، البتہ ان کی تخلیقات کو مختلف رسائل و جرائد میں پڑھتا رہا- اس سے ان سے ایک ذہنی قربت سی ہو گئی تھی- ان کے بعض اشعار نے اس قدر متاثر کیا کہ وہ آج بھی ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ ہیں- ان کے انتقال کی خبر سن کر وہ سب نہاں خانوں سے باہر آنے کے لئے بے چین ہیں-
کچھ آپ بھی پڑھ لیجئے؛ کیونکہ شاعر پر کوئی تحریر نمونہ کلام کے بغیر ادھوری رہ جاتی ہے-
امجد اسلام امجد کے یہ اشعار ان کی ذہنی رو اور عصری حسیت کے عکاس ہیں۔
میرے کاسہ شب و روز میں کوئی شب ایسی بھی ڈال دے
سبھی خواہشوں کو ہرا کرے سبھی خوف دل سے نکال دے
امجد کی ذہنیت کو سمجھنے کے لئے اس شعر کو بھی پڑھئے۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرز منافقت
دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں
دھوپ آنکھوں تک آجائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں
واقعہ یہ ہے کہ امجد اسلام امجد کا اس دنیا کو چھوڑ جانا شعر و ادب، ڈرامے اور کالم نگاری کا بڑا نقصان ہے-۔
اللہ جب کسی کو اٹھاتا ہے تو اس کی تلافی کی شکلیں پیدا کرتا ہے۔ علم و ادب تنقید کے میدان میں آج کل جو ادباء اور اہل قلم سرگرم ہیں وہ اس کی تلافی بھی کریں گے۔ اللہ رب العزت امجد اسلام امجد کی مغفرت فرمائے اور ان کے گناہوں کو معاف فرمائے‘ اب یہی دعا ان کے لئے مفید اور کارگر ہے۔ ہم نے دعا کردیا آپ بھی کردیجئے۔
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ