سپریم کورٹ نے راستہ نکالا
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
یکساں شہری قانون کی تیاری اور اس کے نفاذ کےلئے بھاجپا اور اس کی حلیف پارٹیوں کی طرف سے آوازیں اٹھتی رہی ہیں- اس معاملہ پر مخالفت کی وجہ سے مرکزی حکومت اب تک اس طرف قدم آگے نہیں بڑھا سکی ہے- اس کے باوجود اتراکھنڈ اور گجرات سرکار نے یکساں شہری قانون نافذ کرنے کا نہ صرف اعلان کیا، بلکہ طریقۂ کار کی تیاری اور اس کے نفاذ کے امکانات کا جائزہ لینے کےلئے کمیٹی بھی تشکیل دی-
اس واقعہ کے بعد انوپ برن والا نے مفاد عامہ کی ایک عرضی داخل کر اس پر روک لگانے کی مانگ کی، کیوں کہ دفعہ 44 جس کے سہارے یکساں سول کوڈ لانے کی بات کی جاتی رہی ہے- وہ مرکزی حکومت کا معاملہ ہے اور پورے ہندوستان کے لئے ہے- ریاستوں کو ایسے معاملے میں انفرادی طور پر کوئی فیصلہ لینے کا حق نہیں ہے-
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی قیادت میں دو نفری کمیٹی نے انوپ برن والا کی عرضی کو یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ یہ قابل سماعت نہیں ہے۔ اس لیے کہ دستور کی دفعہ 162 ریاستوں کو یہ حق دیتی ہے کہ، وہ اس قسم کی کمیٹیوں کی تشکیل کرسکتی ہے اور اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔
عدالت کے اس فیصلہ سے ریاستوں میں یکساں شہری قانون کی تیاری اور نفاذ کے منصوبوں کو تقویت ملے گی- ابھی دو ریاست نے یہ کام شروع کیا ہے- دھیرے دھیرے بھاجپا اقتدار والی تمام ریاستوں میں اس کام کے لئے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی اور 2024ء کے الیکشن میں بھاجپا کے پاس یہ اہم مُدّا ہوگا- رائے دہندگان کو بتایا جائے گا کہ اب کے اگر بھاجپا اقتدار میں آئی تو پورے ملک میں یکساں قانون نافذ ہوگا اور وہ قانون یقینی طور پر ہندو میتھالوجی پر مبنی ہوگا۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو مختلف مذاہب کے لوگوں میں ایسی بے چینی پیدا ہوگی، جسے طاقت کے بل پر ختم نہیں کیا جاسکے گا، پھر ملک میں نفرت کی سوداگری شروع ہوگی جس میں اقلیتوں کے لئے جینا انتہائی دشوار ہوگا اور یہ ملک کی سا لمیت کے لئے بھی سخت نقصان دہ ہوگا۔