شعراء اور مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی | Shora aur Mufti Sanaul Huda Qasmi
✍️انور آفاقی دربھنگہ
ہم جس معاشرے میں اپنے شب و روز گزارتے ہیں- ان میں بے شمار انسانوں سے روزانہ سابقہ پڑتا رہتا ہے- ان سے ملنا جلنا ہوتا ہے۔ ان میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن سے مل کر نہ خوشی کا احساس ہوتا ہے نہ ہی دکھ کا- بس ملے اور پھر جلد ہی ذہن سے ان کا نقش محو ہو جاتا ہے۔ مگر ان ہی میں چند شخصیتیں ایسی بھی ہوتی ہیں، جن کا نقش دل و دماغ پر ہمیشہ کے لئے ثبت ہو جاتا ہے اور جن سے مل کر مسرت کا احساس روشنی کی کرن بن کر دل کے نہاں خانوں کو منور کرتی ہیں-
ایک ایسے ہی نہایت شریف و خلیق شخصیت کا نام مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی ہے۔ مفتی صاحب کے لب و لہجے کی متانت گفتگو میں نرمی اور اپنا پن کی خوشبو ہم جیسوں کو ان کا گرویدہ بنا دیتی ہے۔
مفتی صاحب پر یوں تو بہت سارے ادبا نے خامہ فرسائی کی ہے- ان پر مضامین لکھے ہیں کتابیں بھی لکھی ہیں۔ ان ہی میں مرحوم ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق کا نام نامی بھی شامل ہے۔ انہوں نے مفتی صاحب پر بعنوان " مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی: شخصیت اور خدمات" جیسی اہم کتاب لکھ کر ایک بڑا کام کیا ہے۔ اس سے مفتی صاحب کی ہمہ جہت شخصیت کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔
مگر اس وقت میری نگاہوں کے سامنے ایک کتاب "مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی: شعراء کرام کی نظر میں" ہے۔
اس کتاب میں شعرائے کرام نے مفتی صاحب کی شخصیت اور ان کی دینی و ادبی ،سماجی و فلاحی خدمات پر بہ زبان شاعری خیالات کا اظہار کیا ہے- ان پر نظمیں لکھی ہیں۔ پیش نظر کتاب ان ہی شعراء کی شعری تخلیقات سے مزین ہے۔ اس کتاب کے مرتب کا نام عبدالرحیم ہے۔ ان کا آبائی وطن برہولیا دربھنگہ ہے۔ وہ درس و تدریس کے پیشے سے منسلک ہیں۔
موصوف عبدالرحیم برہولیاوی کے نام سے ادبی دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ اس سے قبل ان کے مضامین اخبار و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ وہ ایل۔ این ۔ متھلا یونیورسٹی دربھنگہ سے ایم۔ اے م۔ اردو میں سند یافتہ ہیں۔ فی الحال سرائے، ضلع ویشالی ، بہار کے مدرسہ "معھد العلوم الاسلامیہ" میں استاد کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
72 صفحات کی یہ کتاب " مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی :شعرائے کرام کی نظر میں، اسی سال 2022 کے جولائی ماہ میں منصہ شہود پر آئی ہے۔ کتاب کے مرتب " اپنی بات " میں فرماتے ہیں :
"مجھے خوشی ہے کہ ان نظموں کو ترتیب دے کر خاص و عام کے سامنے پیش کرنے کی سعادت میرے حصے میں آئی ہے"۔
یقینا یہ سعادت عبدالرحیم برہولیاوی کے حصے میں آئی ہے۔ اور اس طرح وہ تصنیف و تالیف کی دنیا میں داخل ہو چکے ہیں۔
پیش لفظ ڈاکٹر کامران غنی صبا ( اسسٹنٹ پروفیسر و صدر شعبہ اردو ، نِتیشور کالج مظفرپور نے تحریر کیا ہے۔ اپنے پیش لفظ میں وہ رقم طراز ہیں:
"عبدالرحیم برہولیاوی نے اس کتاب میں شعرائے کے کلام کو جمع کیا ہے ۔جن میں شعراء نے مفتی صاحب کے تئیں اپنی بھرپور عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے اور مفتی صاحب کی علمی، ادبی، مذہبی، سماجی اور فلاحی خدمات کو منظوم خراج تحسین پیش کیا ہے"۔
صفحہ 11 پر "دو باتیں" کے عنوان سے معروف و مشہور شاعر و ادیب عطا عابدی نے اپنی تحریر سپرد قلم کیا ہے۔ ان کی باتیں ان کی بالیدہ فکر و نظر کی عکاس ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
" شخصیت نگاری خصوصا منظوم شخصیت نگاری کے ذیل میں مدح و ستائش کا معاملہ مبالغہ آرائی کے بغیر بہت مشکل بلکہ ناممکن جیسا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شعر توصیف کے باب میں مبالغہ آرائی کو فن کا درجہ حاصل ہے۔ تعریف و توصیف یعنی قصیدہ کے حوالے سے شاعری کی تاریخ میں حقیقت نگاری سے آگے تخیل آفرینی کو جگہ دی گئی ہے۔ یہاں پیش کردہ زیادہ تر نظموں میں تخیل اور حقیقت کے امتزاج سے کام لینے کی اچھی کوشش کی گئی ہے"۔
مذکورہ کتاب میں 33 شعرائے کرام نے مفتی صاحب کی شخصیت اور علمی و ادبی کارناموں پر نظمیں لکھی ہیں- ان شعراء کے نام اس طرح ہیں: محمد انوارالحق داؤد قاسمی، مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی، حسن نواب حسن، عبد المنان ططرز، طارق ابن ثاقب ، کامران غنی صبا، ڈاکٹر منصور خوشتر ،احمد حسین محرم قاسمی ، شمیم اکرم رحمانی، اشتیاق حیدر قاسمی، منصور قاسمی، ذکی احمد زکی، محب الرحمن کوثر، مظہر وسطوی، زماں برداہوی، محمد ضیاء العظیم، محمد مکرم حسین ندوی، ڈاکٹر امام اعظم، عظیم الدین عظیم، کمال الدین کمال عظیم آبادی، وقیع منظر، فیض رسول فیض، ڈاکٹر عبدالودود قاسمی، امان ذخیروی، ولی اللہ ولی، آفتاب عالم آفتاب، یاسین ثاقب، مولانا سید مظاہر عالم قمر، محمد بدر عالم بدر، ثنا رقم مووی' فیاض احمد مضطر عزیزی، عبدالصمد اور تحسین روزی۔
اس شعری حصے کی ابتدا محمد انوارالحق داؤد قاسمی کی نظم" سوانح حیات "سے ہوتی ہے جو 109 اشعار ر پر مبنی ہے۔ پوری نظم میں مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کی زندگی کی پورے طور پر شاعری میں تصویر کشی کی گئی ہے۔ جن میں ان کی پوری شخصیت، علم و ادب، بصیرت و بصارت، ملی و دینی خدمات کو اشعار میں بڑی خوبی سے ڈھالا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں اس نظم سے چند مصرعے۔
ان کی ہے شخصیت اب کثیر الجہات
رب نے بخشی ہے ان میں کچھ ایسی صفات
پر کشش ان کی ہے داستانِ حیات
درد دل سے دیکھاتے ہیں راہِ نجات
مہرباں ان پہ ہے خالقِ ذوالمنن
ہیں ثنا الہدیٰ خود میں ایک انجمن
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب کو 2000ء میں صدر جمہوریہ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ مفتی صاحب نے تعلیمی میدان میں کامیابی کے کئی جھنڈے گاڑے ہیں۔ وہ مختلف درسی و تعلیمی اسناد یافتہ ہیں۔ جن کی مجموعی تعداد 17 ہے۔ لہذا ان معلومات کو مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی نے شعری پیکر عطا کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
وہ محدث محقق سخنور بھی ہیں
مرکز علم و فن ہیں ثناء الہدیٰ
قومی ایوارڈ سے بہرہ ور شخصیت
خوب اچھے معلم ثناءالہدی
سترہ تعلیمی اسناد کے ہولڈر
ہیں مصنف، مولف ثناء الہدیٰ
مفتی صاحب کو کئی مرتبہ بیت اللہ کی زیارت اور حج و عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ ان کے چوتھے حج پر روانگی کے موقع سے حسن نواب حسن (مرحوم) نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے جو نظم لکھی ہے- اس کے تین اشعار پیش خدمت ہیں۔
مبارکباد کا پیش ان کو میں کرتا ہوں نذرانہ
ہے چوتھی بار جن کو حجِ بیت اللہ پر جانا
گئے تھے خادمِ حرمین کی دعوت پہ پچھلی بار
تھا دعوت پر حکومت کی انہیں اعزاز یہ پانا
خدا کو ایسا بھایا اپنے گھر مہمان کا آنا
کہ چوتھی بار بھی اس نے بلایا تو پڑا جانا
عالمی شہرت یافتہ شاعر پروفیسر عبد المنان طرزی نے مفتی صاحب کے لیے تین نظمیں کہی ہیں جن میں مجموعی اشعار کی تعداد 77 ہے۔ ان کے چند اشعار پیش خدمت ہیں
ہو خطابت کے تحریر کا مرحلہ
انفراد اپنا رکھتے ثناء الہدی
جائزہ لیں جو تصنیف و تالیف کا
مرحبا ،مرحبا ، مرحبا ، مرحبا
عالم دین ہیں آپ ممتاز ہی
ہے ادیب اور شاعر بھی ذات آپ کی
یہ نہیں ہیں فقط دو رکعت کے امام
رکھتے ہاتھوں میں شعر و ادب کی زمام
رب سے طؔرزی کی اپنے دعا ہے یہی
سرخرو دو جہاں میں رہیں قاسمی
طارق بن ثاقب پورنوی جہاں بہت نفیس عربی کیلی گرافی پر قدرت رکھتے ہیں وہیں ایک عمدہ شاعر بھی ہیں ۔مفتی صاحب سے ان کے مراسم بہت پرانے ہیں ۔ اپنے خیالات کو شعری پیکر عطا کرتے ہوئے فرماتے ہیں
روشنی پاتا ہے جن سے علم و حکمت کا چراغ
رہبروں کا راہبر فہم و فراست کا چراغ
ضو فگن ہےجن میں تہذیب و ثقافت کا چراغ
آندھیوں سے بجھ نہیں سکتا شرافت کا چراغ
حوصلہ پاتی ہے دنیا آپ کی تحریر سے
دل بدل جاتا ہے اکثر آپ کی تقریر سے
نوجوان نسلوں کے ہر دل عزیز اور نمائندہ شاعر اور اردو کے استاد جناب کامران غنی صبا نے مفتی ثناء الہدی صاحب سے اپنے قلبی تعلق کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔
ہیں علمِ شریعت کے وہ رازداں
خاموشی میں جن کی نہاں داستاں
ہیں جن کے تبسّم میں سنجیدگی
عجب سی ہے لہجے میں پاکیزگی
مفکر مدبر کہ دانشوراں
سبھی انکے حق میں ہیں رطب للساں
دربھنگہ ٹائمز کے مدیر اعلی، شاعر و صحافی اور قومی تنظیم دربھنگہ کے بیوروچیف ڈاکٹر منصور خوشتر نے مفتی صاحب کی خدمت میں شاعری کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار یوں
کیا ہے۔
عالمانہ برد باری ان میں ہے
ہے طبیعت میں بڑا ہی انکسار
وہ بڑے ہمدرد ہیں گر ملک کے
ملتِ اسلامی کے ہیں غمگسار
مختصر لفظوں میں جو خوشتر کہیں
ہے خدا کا فضل ان پر بے شمار
مانو کے ریجنل ڈائریکٹر، معروف و مقبول شاعر و ادیب، صحافی اور تمثیل نو، دربھنگہ کے اعزازی مدیر ڈاکٹر امام اعظم نے چھوٹے بحر میں مفتی صاحب کی شخصیت اور ان کے علم و فن پر خوبصورت انداز میں دعائیہ کلمات کے ساتھ اپنے اشعار میں کچھ اس طرح اظہار خیال کیا ہے ۔۔۔انکے چند مصرعے آپ قارئین کی بصارتوں کی نذر ۔۔۔
مفتی قاسمی صاحب!
آپ کی یہ شخصیت
ہر قدم توانا ہو
اعؔظم اب دعا میری
بار گاہِ رب میں ہو
اس کی یوں قبولیت
خالقِ جہاں کی ہو
ان پہ فضل اور رحمت
عمرِ خِضر پائیں وہ
خدمتِ ادب و دیں
جان و دل سے کر جائیں!
اس کتاب کا اختتام تحسین روزی ، پٹنہ کے کلام پر ہوتا ہے ان کے دو اشعار قارئین کی نذر
علم و ادب کے دین و شریعت کے ہیں منار
روشن ہے با وقار ہے توقیر آپ کی
قلب و جگر میں آج کل ایک روشنی سی ہے
آنکھیں جو پڑھ رہی ہیں تحریر آپ کی
اس کتاب میں مفتی محمد ثناء الہدی صاحب کے لیے کہے گئے شعراء کے اشعار کو جمع و ترتیب کرکے عبد الرحیم برہولیاوی نے مفتی محمد ثناء الہدی صاحب سے قلبی لگاؤ اور محبت و عقیدت کا اظہار بڑے خوبصورت انداز میں کیا ہے جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔