نیپال کی نئی حکومت | نیپال اور ہندوستان کے تعلقات | Relationship between India and Nepal
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف
نیپال میں وزیر اعظم کے طور پر پشپ کمال داہال عرف پر چنڈ نے نئی حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی ہے ، انہوں نے حکومت بنانے کے لیے سابق وزیر اعظم کے پی شرما او لی سے ایک سمجھوتہ کیا ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ڈھائی سال پر چنڈ حکومت میں رہیں گے اور اس کے بعد نیپال میں سی پی ایم+ یو ایم ای کی حکومت بنے گی ، جس کے سر براہ اُولی بھی بن سکتے ہیں۔
پر چنڈ کی بحیثیت وزیر اعظم یہ تیسری تاج پوشی ہے، پہلی بار 2008ء میں وہ وزیر اعظم بنے تھے، لیکن یہ مدت کار صرف ایک سال رہی- دوسری بار 2016ء میں وزیر اعظم بنے، لیکن ایک سال میں ہی وزیر اعظم کی کرسی انہیں چھوڑنی پڑی- اب تیسری باری ہے اور بظاہر سمجھوتے کے مطابق مدت کار ڈھائی سال ہو گی- اس درمیان اتار چڑھاؤ اور اُتھل پُتھل سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا-
ہندوستان میں ہم مایا وتی اور بی جے پی کے درمیان نصف نصف مدت کے لئے اقتدار کے سمجھوتے کے اثر کو دیکھ چکے ہیں- جب مایا وتی نے نصف مدت گذرنے کے بعد اقتدار کی منتقلی سے انکار کر دیا تھا- ہم نے محبوبہ مفتی اور بی جے پی کے بے جوڑ اشتراک کا حشر بھی دیکھا ہے- اس لیے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ پر چنڈ آسانی سے اس سمجھوتہ پر عمل کے لیے تیار ہوجائیں گے- اس قسم کے اشتراک کے پیچھے پر چنڈ کی یہ منشا بھی ہو سکتی ہے کہ ابھی تو خیر سے گذرتی ہے آگے کی خبر خدا جانے۔
پر چنڈ کے اسی خیال کی وجہ سے ان کا وزیر اعظم بننے کا خواب پورا ہوا، ورنہ صحیح اور سچی بات تو یہ ہے کہ نیپالی کانگریس کے شیر بہادر دیو باکو وزیر اعظم ہونا چاہیے تھا، کیوں کہ دو سو پچھہتر (275) ارکان کی نیپالی پارلیمان میں دیوبا کی پارٹی کو نواسی (89) سیٹیں ملی تھیں جب کہ پر چنڈ کی ماؤں وادی کمیونسٹ پارٹی صرف بتیس (32) سیٹیں ہی حاصل کر پائی تھی- انتخاب میں پرچنڈ اور دیوبا کی پارٹی کا اتحاد بھی تھا- پر چنڈ بضد تھے کہ وزیر اعظم وہی بنیں گے اور صدر بھی انہیں کی پارٹی کا ہوگا- یہ بات دیوبا نہیں مان سکتے تھے- اس لیے پر چنڈ اپنے پرانے کمیونسٹ ساتھی اُولی کے گھر پہونچ گیے اور وہاں ان کی دال گل گئی اور وہ وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہو گیے۔
اس واقعہ کو ہندوستانی سیاسی پس منظر میں دیکھیں تو جس طرح مہاراشٹر میں شیو سینا اور بھاجپا نے ساتھ الیکشن لڑا تھا، لیکن کافی اتار چڑھاؤ کے بعد مہا اگھاری وکاس کی حکومت بن گئی اور وہ بھی شیو سینا کے ایک حصہ کی بغاوت کی وجہ سے ٹوٹ گئی- نیپال میں بھی ایسا ہی ہوا کہ الیکشن پر چنڈنے دیو با کے ساتھ لڑا اور حکومت اُولی کے ساتھ بنایا۔
بھارت اور نیپال کا رشتہ
ہندوستان کی طویل سرحد نیپال سے لگتی ہے- پاسپورٹ کے بغیر آمد و رفت کی سہولت کی وجہ سے ہندو نیپال کی عوام کے رشتے ایک دوسرے سے انہتائی مضبوط ہیں اور کہنا چاہیے کہ ان کے درمیان بیٹی، روٹی کا رشتہ ہے، یعنی رشتہ داریاں اور تعلقات خوب ہیں- معاشی اعتبار سے ایک کا دوسرے سے رشتہ بھی مضبوط ہے- حکومتی سطح پر در آمد، بر آمد کا تناسب اس قدر ہے کہ ہندوستان، نیپال کا سب سے بڑا تجارتی شریک ہے-
2021ء میں نیپال جن اشیاء کی سپلائی غیر ملکوں میں کرتا ہے، اس کا 53.1 فی صد ہندوستان کو بر آمد کیا تھا- ہندوستان سے اس نے 68.3 فی صد در آمد کیا تھا۔
1996 سے 2006 تک نیپال خانہ جنگی کا شکار تھا- ہندوستان نے اس بد ترین صورت حال کو درست کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا- نومبر 2006 میں نیپال کی حکومت اور سات ماؤنواز پارٹیوں کے درمیان نئی دہلی میں ایک معاہدہ پر دستخط کے نتیجے میں وہاں پھر سے جمہوری حکومت کے قیام اور استحکام کی راہ ہموار ہوئی تھی اور اس کا سارا سہرا ہندوستان کو جاتا ہے- لیکن پر چنڈ اور اُولی ہندوستان کی اس جد وجہد کو ماضی میں فراموش کرتے رہے ہیں- ان کا جھکاؤ چین کی طرف زیادہ ہے- انہوں نے اپنے سابقہ دور میں ہندوستان کے کالا پانی، لییو لیکھ لمپا دھورا پر اپنا دعویٰ پیش کر دیا تھا اور نیپال کے نقشہ میں ان علاقوں کو شامل کر دیا تھا+ ہند نزاد نیپالی شہری مدھیشی کا معاملہ بھی ان کے دور میں گرمایا تھا- اگر ان کے نظریات میں تبدیلی ہوئی تو ہندوستان سے تعلقات اچھے رہیں گے- اس کی ہمہ جہت ترقی کی راہ ہموار ہو سکے گی اور اگر نیپال نے چین کا رخ کیا تو یقینی طور پر ہندوستان سے تعلقات بگڑ یں گے، کیوں کہ ہند، چین تنازعہ ان دنوں شباب پر ہے اور دشمن کے دوست کو دشمن سمجھنے کی روایت قدیم ہے- اس کا خمیازہ نیپال کو بھگتنا پڑے گا، کیوں کہ چین کی پالیسی ملکوں کو قرض کے جال میں پھنسا کر اسے بے بس کرنے کی رہی ہے+ اسے سری لنکا کے حالات و واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے- ہندوستان سے دوستی نیپال کے لیے ہر حال میں خیر کا باعث ہوگا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا پر چنڈ کو سب سے پہلے مبارک باد دینے کی یہی معنویت ہے۔