ڈاکٹر مقبول منظر کی حالات زندگی | مقبول منظر کی شاعری | Maqbool Manzar ki Halaat e Zindagi
ناقد، محقق، مبصر، قلم برداشتہ محرر اور خوش فکر شاعر ڈاکٹر مقبول منظر کا یوم ولادت
اصل نام- مقبول احمد خان
قلمی نام- مقبول منظر
مقام پیدائش- ڈالٹن گنج، پلامو، جھارکھنڈ
والد- جناب رب الحسن خان ابن عبداللطیف خان
والدہ- انیس النفاطمہ بنت عمر خان
شریک حیات- شبنم نگار بنت عبد الرشید خان
تعلیم _ ایم اے (اردو) پی ایچ ڈی
ملازمت- صدر شعبہء اردو، جی- این- ایس- ایم کالج گڑھوا، پلامو، جھارکھنڈ
موضوع تحقیق- "اردو زبان و ادب کے فروغ میں پلامو کا حصہ"( رانچی یونیورسٹی رانچی)
آبائی وطن- مقام سلگس، تھانہ- پانکی، پلامو، جھارکھنڈ
تصنیفات- انوار معرفت (نعتیہ مجموعہ) 1993ء
چھاؤں مرے حصے کی ( غزلیں) 2017ء
روشن دریچے ( غزلیں) 2021ء
زیر ترتیب- برف کے شعلے (غزلیں)
کچھ بات ہے ضرور ( مضامین)
سوندھی خوشبو (دوھے)
موہنی- ( ماہئیے)
دھوپ کے سائے تلے-( غزلیں)
تری یاد کا گھنا سایا ( غزلیں، نظمیں، دوھے)۔ ( دیوناگری)
ڈاکٹر مقبول منظر کی شاعری
ڈاکٹر مقبول منظر کا نام دنیائے شعر و ادب میں تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ آپ کی شاعرانہ صلاحیتوں سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ علامہ نادم بلخی کے حلقۂ تلامذہ میں رہ کر آپ نے عروض و بلاغت کی باریکیاں سیکھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی غزلوں میں فنی پختگی کے ساتھ ساتھ تمام شعری و فکری محاسن بھی جلوہ گر ہیں۔ شاعری کی تقریباً تمام اصناف پر آپ نے اپنے رشحات قلم کا جادو جگایا ہے اور کامیاب بھی رہے ہیں۔ جہاں آپ نے غزلیں کہی ہیں، وہیں نعت رسول مقبولﷺ بھی بڑی عقیدت و محبت میں ڈوب کر کہی ہیں اور اپنے لئے توشہء آخرت جمع کر لیا ہے۔ پابند اور آزاد نظموں میں بھی آپ نے اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔ دوھا نگاری جو ایک مشکل صنف شاعری ہے، یہاں بھی آپ پیچھے نہیں رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ماہئیے، ہائیکو اور دیگر عصری اصناف پر بھی آپ نے بہت کچھ لکھا ہے۔ نثر کی دنیا میں بھی ڈاکٹر مقبول منظر کثرت سے مضامین سپرد قلم کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دنیائے علم و ادب میں اپنے نام کی صورت مقبول خاص و عام ہیں۔
مقبول منظر کی شاعری سے چنندہ اشعار
🌹🌹 منتخب اشعار🌹🌹
گرچہ یادوں نے بہت حوصلہ افزائی کی
ہجر جاناں کا مگر دل پہ اثر تھا، سو رہا
کاوش ہماری چھوٹی سی لیکن ہے کام کی
پتھر کو بخش دی ہے زباں اور کچھ نہیں
پرواز کی قوت اسے ہرگز نہ ملے گی
ہوگا جو تن آسانی میں مشہور پرندہ
پھولوں میں دلکشی ہے نہ سبزے میں تازگی
یارب ہے کس عذاب کا سایا زمین پر
وہ سربلند زمانے میں ہو گئے بیشک
جو سر جھکا کے ترے آستاں سے گزرے ہیں
ضرور ماں کی دعا کا ہیں سر پہ تاج لئے
جو مشکلوں میں بھی راہ اماں سے گزرے ہیں
اسی نے بخشی سماعت کو لزت شیریں
بہ شکل اردو جو شیریں زبان سے گزرے
چہرہء حالات سے کچھ فکر افشا ہی نہیں
آمد طوفاں کی سب کو جان کاری ہے تو ہے
بے بصر والوں کو حاصل ہو نہیں سکتا عروج
آنکھ والوں کو بھی جس منظر نے اندھا کر دیا
وہ تازہ ہواؤں سے بھی کیا لطف اٹھائے
جو گھر کے دریچے ہی نہیں کھول رہا ہے