مدارس میں غیر مسلم بچوں کی تعلیم Madaris mein gair Muslim bacchon ki taleem
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اکثر و بیشتر مدارس اسلامیہ میں مسلم طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کرتے ہیں، لیکن کئی مدارس آج بھی ایسے ہیں، جہاں غیر مسلم طلبہ باقاعدہ پڑھتے ہیں اور اس بنیاد پر ان کا داخلہ نہیں روکا جاتا کہ وہ غیرمسلم ہیں- اس سلسلے میں ہماری سوچ یہ ہے کہ علم ایک نور ہے اور اس نور سے سب کے قلوب کو منور ہونا چاہیے۔ ماضی میں کئی غیرمسلم قائدین نے مدارس اسلامیہ سے کسب فیض کیا، مثال کے طور پر ڈاکٹر راجندر پرشاد کا نام لیا جا سکتا ہے۔ ان کی ابتدائی تعلیم استاذ مولوی ہی تھے، جنہوں نے انہیں اردو، فارسی اور ہندی کی تعلیم دی- ڈاکٹر راجندر پرشاد دستخط بھی کبھی کبھی اردو میں ہی کیا کرتے تھے۔ راجہ رام موہن رائے اور ڈاکٹر سچید انند سنہا نے بھی مدرسہ میں تعلیم پائی تھی۔ آج بھی مدرسہ اسلامیہ شمس الہدٰی میں غیر مسلم طالب علم داخلہ لیتا ہے اور داخلہ ٹیسٹ میں کامیاب ہونے کے بعد اس کا داخلہ بآسانی ہو جاتا ہے۔
بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے امتحانات میں غیرمسلم طلبہ و طالبات کی شرکت آج بھی ہوتی ہے- کئی بار تو ٹوپر بھی وہ بن جاتے ہیں- اعلیٰ نمبرات کا حصول بھی ان کے لیے دشوار نہیں ہے۔
لیکن اب بھاجپا حکومت میں قدریں بدل رہی ہیں- ان کی سوچ یہ ہے کہ چوں کہ مدارس میں مذہبی تعلیم دی جاتی ہے، اس لیے غیرمسلم بچوں کو وہاں سے نکال کر اسکولوں میں داخل کرانا چاہیے تاکہ وہ مذہب اسلام سے متاثر نہ ہوسکیں۔ پہلے مرحلہ میں یہ کام اترپردیش میں محدود پیمانے پر شروع ہوا ہے، لیکن یہ شوشہ کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال (NCPCR) کا چھوڑا ہوا ہے- اس نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام صوبوں کے چیف سکریٹری کو خط لکھا ہے کہ ”ایسے مدارس جو سرکار سے منظور شدہ ہیں یا انہیں سرکاری امداد ملتی ہے، وہاں پڑھنے والے غیر مسلم طلبہ کی نشان دہی کر کے ان کو وہاں سے نکال کر تعلیم کے حقوق کے ضابطوں کی پابندی کرنے والے عام اسکولوں میں داخل کرایا جائے۔“ یہ خط 8 دسمبر 2022ء کو جاری کیا گیا تھا۔
اس خط کے ملتے ہی اترپردیش کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال حرکت میں آگیا اور اس کے ایک رکن ڈاکٹر سچیتا چترویدی کے بقول: اترپردیش میں ایسے تمام مدارس کی نشان دہی کی جارہی ہے جہاں غیرمسلم طلبہ زیر تعلیم ہیں- انہیں مدارس سے نکال کر عام تعلیمی اداروں میں داخل کرایا جائے گا۔ مدرسہ ایجوکیشن کونسل اترپردیش نے بھی اس پر تشویش کااظہار کیا ہے اور کمیٹی برائے تحفظ حقوق اطفال کو ایک خط لکھ کر اس پر نظرثانی کی گذارش ہے- کونسل کی دلیل یہ ہے کہ مدارس میں صرف مذہبی تعلیم نہیں دی جاتی ہے وہاں تو عصری علوم کے نام پر این سی ای آر ٹی کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، جسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
پھر یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ کمیشن نے یہ خط صرف مدارس کے لئے کیوں بھیجا؟ کیا وہ مدارس کو مشکوک کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو اسے سنسکرت اور مشنری اسکولوں، گروکل اور پاٹھ شالاؤں سے مسلم بچوں کو نکال کر عام اسکولوں میں داخل کروا نا چاہیے،
ظاہر ہے یہ کام اس کے بس کا نہیں ہے۔ دوسرے مذاہب کے بچے وہاں بھی عیسائی تہذیب و ثقافت سے متاثر ہو رہے ہیں اوران کے عقائد میں تبدیلی آرہی ہے- صحیح بات یہ ہے کہ تعلیم کو مسلم اور غیرمسلم دائرے میں بانٹنا انتہائی مذموم ہے۔ اس سے دوسرا بڑا نقصان یہ ہوگا کہ شروع سے ہی بچوں میں مذہبی خلیج بڑھتی جائے گی اور ان کے ذہن میں مسلمانوں سے نفرت کی بیج پہلے دن سے داخل ہوجائے گی اور جب یہ نسل بڑی ہوگی تو بچپن میں دل و دماغ میں پروان چڑھنے والا نفرت کا یہ کونپل تناور درخت بن جائے گا- اس وقت محنت کے دروس، سیکولر اور جمہوریت کی تبلیغ اس نسل کے لئے بے معنی ہوکر رہ جائے گی اور پھر جو کچھ ہوگا اس کو سوچ کر دل ابھی سے کانپ جاتا ہے۔