سائبر حملے پر مضمون | Essay on Cyber Attacks Urdu Medium
انٹرنیٹ کی سہولت، ڈیجیٹل انڈیا بنانے کی مہم، کیش لیس کا روبار، مختلف ایپ کے ذریعہ رقم کی لین دین، رقم منتقل کرنے کی آن لائن سہولتوں نے جرائم کی دنیا میں ایک اور جرم کا اضافہ کر دیا ہے- یہ جرم ہے سائبر حملہ-
اعداد و شمار کی چوری، بینکوں سے اے ٹی ایم کے ذریعہ لوٹ، فون، موبائل، وغیرہ کا ہیک کر لینا، شاخ در شاخ سائبر حملے کی ہی مختلف قسمیں ہیں- ان حملہ آوروں اور ہیکر کا اپنی مہم میں کامیاب ہوتے رہنا، بتاتا ہے کہ سائبر تحفظ کے معاملہ میں ہم کافی پیچھے ہیں- ہمارے نجی راز کی پرائیویسی معرض خطر میں ہے- سوشل سائٹس سے متعلق ایجنسیاں، کمپنیاں اور ایپس چاہے ہمارے راز کی حفاظت کی جس قدر یقین دہانی کرائیں، سچائی یہی ہے کہ ہم محفوظ نہیں ہیں۔
جن شعبوں پر سائبر حملہ آوروں کی سب سے زیادہ نظر ہے، ان میں بینکنگ، مالیاتی نظام اور بیمہ (BFSI) سر فہرست ہیں-
سرکار نے پارلیامنٹ میں اس حوالہ سے جو تفصیل بیان کی ہے- وہ انتہائی تشویشناک ہیں- ان تفصیلات سے سائبر حملوں کے رفتار پکڑنے کی تصدیق ہوتی ہے- اطلاع کے مطابق جون 2018ء سے مارچ 2022ء تک ہندوستانی بینکوں پر مجرمین کے ذریعہ دو سو اڑتالیس (248) سائبر حملے ہوئے-
اعداد و شمار کی چوری کے یہ واقعات اکتالیس (41) عوامی دوسو پانچ (205) نجی اور دو (2) واقعات غیر ملکی بینکوں کے ذریعہ درج کرائے گیے- چند ماہ قبل اتر پردیش سائبر پولیس نے لکھنؤ کے عوامی کوپریٹو بینک کے کھاتے سے ایک سو پینتالیس (145) کروڑ رقومات کی غیر قانونی طور پر نکالے جانے کا پردہ فاش کیا تھا- اس معاملہ میں کئی تکنیکی ماہرین اور سابق بینک کارکن کی گرفتاری بھی عمل میں آئی تھی- ڈرینک کے نام سے اینڈ رائیڈ میل ویر نے تو حد کر دی کہ محکمہ ٹیکس کا نام لے لے کر اس نے اٹھارہ بینکوں کو نشانہ بنایا۔
اسی طرح ڈارک ویب پر بی ڈین کیش کے نام سے غیر قانونی ویب سائٹ کا پتہ اس وقت چلا، جب ہیکرس نے نوے لاکھ سے زائد افراد کے کریڈٹ کارڈ کی تقسیم، مفت میں اپ لوڈ کر دیا تھا- سنگا پور کی سائبر تحفظ فورم کلاوڈسیک کے نام سے کام کرتی ہے- اس نے گذشتہ سال جاری قرطاس ابیض (حقائق پر مبنی رپورٹ) میں کہا ہے کہ امسال جتنے سائبر حملے پوری دنیا پر ہوئے- ان میں 7.4 فی صد ہندوستان پر کیے گیے- قومی بینکوں، کرپٹو اکسچینج، والٹس، این بی ایف سی (NBFC) کی معلومات کا افشا، کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ غیر قانونی طور پر رقوم کی نکاسی سب ہندوستان میں سائبر جرائم ہی کا حصہ ہیں۔
سائبر مجرمین کے لیے آسان نشانہ درمیانی اور نچلے درجے کے کاروباری ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کے یہاں سائبر حملوں سے تحفظ کا اچھا انتظام نہیں ہوتا-
باخبر ذرائع کے مطابق تینتالیس (43) فی صد سائبر حملے 2022ء میں چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعتوں پر کیے گیے- اپریل سے ستمبر 2022ء کے نصف تک 2.7 لاکھ سائبر کرائم مختلف شعبہ حیات سے متعلق محکموں میں ہوئے- ان میں پٹرولیم بھی شامل ہے- یہ اطلاع 2022ء میں سائبر ایپس کے ذریعہ شائع ایک رپورٹ میں دی گئی ہے- مجموعی طور پر گذشتہ سال ایک کروڑ اسی لاکھ (اٹھارہ ملین) سائبر حملے اور دو لاکھ سائبر سیکوریٹی تھریٹ کے واقعات ہندوستان میں ہوئے۔
ہندوستان میں سائبر حملوں سے محکمہ صحت بھی محفوظ نہیں رہ سکا، اس پر گذشتہ سال انیس لاکھ سائبر حملے ہوئے۔ 23 نومبر 2022ء کو حملہ آوروں نے ملک کے مشہور اسپتال ایمس دہلی پر حملہ کر دیا اور اس کے سارے ڈیٹا کو ہیک کر لیا، جس کے نتیجہ میں اسپتال کے سارے سرور نے کام کرنا بند کر دیا- مریضوں کی پریشانی دور کرنے کے لیے کئی روز تک کمپیوٹر کے بجائے سارے کام ہاتھ سے کرنے پڑے- اس کے باوجود جو اعداد و شمار اور ڈیٹا چوری ہوگیے، اس کی تلافی مشکل قرار پائی- یہ اسپتال ڈیجیٹل کام کرتے ہیں- حملہ آوروں نے اس کی اس صلاحیت پر ہی حملہ بول دیا۔
آئندہ اس قسم کے حملے کثرت سے ہوں گے۔ 5G کے استعمال سے ان واقعات میں اور اضافہ ہوگا- ایک اندازہ کے مطابق 2025ء تک ہندوستان میں اٹھاسی ملین لوگ 5G استعمال کر رہے ہوں گے۔ لیکن صرف پندرہ-سولہ فی صد ہی ایسے ادارے ہوں گے جو ان کو محفوظ رکھنے کی تکنیک سے واقف ہوں گے- ایسے میں سائبر کے تحفظ کے لیے مناسب اقدام کے ساتھ سائبر جرام کرنے والوں کے لیے مضبوط قانون سازی کی بھی ضرورت ہے- حکومت ہند کو ان حملوں سے بچنے کی ضرورت و اہمیت پر کے مدنظر خصوصی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
مفتی محمد ثناء الھدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف