چارۂ کار پر مضمون | چارہ کار کیا ہے؟ | Essay on Chara Kar in Urdu Medium
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
ملک کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے چارہ کار کیا ہے؟ یہ ایک سوال ہے؛ جو آج ہر سطح پر ایمان والوں کے درمیان اٹھ رہا ہے، لوگ ان حالات کو خطرناک سمجھ رہے ہیں اور اسے ہندوستان میں مسلمانوں کی بقا سے جوڑتے ہیں، عام لوگوں کو بھی حالات کی سنگینی کا احساس ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اب تک یہ بات نہیں سمجھ پائے کہ اصل خطرہ حالات سے نہیں ہے، بلکہ ہماری بے حسی سے ہے، دین کے معاملے میں اب بھی ہمارے اندر تبدیلی نہیں پائی جا رہی ہے ، کاروبار دنیا حسب سابق جاری ہے اور سوائے خوف ودہشت کے ہمارے اعمال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ، حالاں کہ حالات میں سدھار عمال وحکام کے بدلنے سے نہیں، اعمال کے بدلنے سے ہوگا ، انابت الی اللہ اور دین پر مضبوطی سے کاربند ہونا وہ نسخہ کیمیا ہے، جو احوال وکیفیات کے بدلنے میں ہر دور میں معاون ومددگار رہا ہے، دلوں کو بدلنے والی ذات اللہ کی ہے اور اس کی مرضی ہو تو سب کچھ منٹوں میں نہیں سکنڈوں میں بدل جائے گا، ضرورت اللہ کو راضی کرنے کی ہے اور اس کی خفگی والے کاموں سے بچنے کی ہے ۔
اپنے غیر مسلم بھائیوں تک فکری اور عملی طور پر اسلام کا پیغام پہونچانا بھی اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ہمیں انہیں ہر سطح پر یہ باور کرانا ہوگا کہ ہمارے وجود سے اس ملک کی سر سبزی وشادابی ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں ہم اس ملک کے لیے مفید رہے ہیں، اس ملک پر جب مسلمانوں کی حکومت تھی تو یہ ملک اس دور کے اعتبار سے تیزی سے ترقی کر رہاتھا ، عظیم ہندوستان کا جو تصور آج پایا جاتا ہے اس کی داغ بیل مغلیہ دور حکومت میں پڑی تھی ، انگریزوں نے جتنے بڑے ہندوستان پر جبرا قبضہ کر لیا تھا ، اتنا بڑا ہندوستان تو آج بھی نہیں ہے، آزاد ہندوستان، پورا پورا ہندوستان باقی نہیں رہا ، اس ملک کی جتنی تاریخی عمارتیں ہیں، جن پر ہندوستان ناز کرتا ہے اور جو پوری دنیا میں ہندوستان کی شناخت اور پہچان کا سبب ہیں، وہ سب مسلمانوں کی دین ہیں، تاریخ کو دیومالائی روایت سے تبدیل نہیں کیا جا ئے اور غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو ہر پڑھا لکھا آدمی اس کی تائید پر خود کو مجبور پائے گا۔
ہمیں انسانی بنیادوں پر خدمت خلق کے کام کو مزید آگے بڑھانا چاہیے، امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ خدمت خلق سے دل پر اور تعلیم سے دماغ پر قبضہ ہوتا ہے، موجودہ عدم رواداری کے ماحول میں اسلامی تعلیمات اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہم انسانی بنیادوں پر خدمت کرکے نفرت کے اس ماحول کو بدل سکتے ہیں، یہ ہمارے لیے اور ملک کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا، یقینا مقابلہ جن لوگوں سے ہے وہ سخت دل ، جابر وظالم اور انسانیت کے احترام سے عاری لوگ ہیں، لیکن جب پتھر پر مستقل پانی پڑتا رہے تو وہ گھس جاتا ہے اور کبھی پتھر میں سوراخ کر دیتا ہے توبھلا حسن اخلاق اور اچھے کردار سے ان کے دلوں پر دیا جانے والا دستک رائیگاں کیسے جا سکتا ہے۔اللہ رب العزت نے پتھر کی صفت بیان کی ہے کہ بعض پتھروں سے تو نہریں بہہ نکلتی ہیں اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض اللہ کے ڈر سے گرپڑتے ہیں۔ (البقرة : ۴۷) اس لیے ان سخت دل لوگوں سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور ان پر دعوتی محنتیں جاری رہنی چاہیے، اس دعوت کو مؤثر بنانے کے لیے حسن اخلاق کی بھی ضرورت ہے۔
برادران وطن کے ذہن کو جس چیز نے سب سے زیادہ خراب کیا ہے ، وہ فرقہ پرست طاقتوں کا یہ پروپیگنڈہ ہے کہ ہم ان کے دشمن ہیں، اور ہمیشہ ان کو نقصان پہونچانا چاہتے ہیں، یہ جھوٹ اتنی بار بولا گیا ہے کہ ہمارے غیر مسلم بھائیوں کو سچ معلوم ہونے لگا، حالانکہ ہم تو تمام انسانوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت مانتے ہیں، فرق یہ ہے کہ ہم اس دعوت پر لبیک کہہ کر قبول کرنے والے لوگ ہیں، جب کہ ہندوستان کے دیگر مذاہب کے لوگ امت دعوت ہیں، یعنی ان تک اسلام کا پیغام، دین کی دعوت پہونچانا، ہماری ذمہ داری ہے ، دونوں جب ایک نبی کی امت ہیں تو اس میں نفرت کا گذرہوہی نہیں سکتا،کیوں کہ ہم کسی سے نفرت کرکے اس تک دین کی دعوت پہونچا نہیں سکتے ، دعوت کا یہ کام محبت کی بنیاد پر ہی کیا جا سکتا ہے، اور اس جذبہ اور سوچ کے ساتھ ہی ممکن ہے کہ ہمارے دوسرے بھائی بھی جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں، اس کے لیے تو محبت ہی محبت کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔