آتش بیانی | current statement Urdu Medium
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
آتش بازی اور آتش بیانی دونوں پر ہندوستانی عدالت نے بعض شروط وقیود کے ساتھ پابندی لگا رکھی ہے، لیکن نہ تو آتش بازی رک پا رہی ہے اور نہ ہی آتش بیانی، آتش بازی کے اثرات فضائی آلودگی کی شکل میں ہماری زندگی کے لیے خطرات پیدا کر رہے ہیں، اور آتش بیانی نے اس ملک کے ماحول کو نفرت انگیز بنا دیا ہے ، جس سے یہاں کی جمہوریت، سیکولزم اور ملک کی یک جہتی کو نقصان پہونچ رہا ہے ، جس طرح فضائی آلودگی سے سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے اسی طرح نفرت انگیز ماحول میں زندگی گذارنا مشکل ہوتا ہے ۔
خطابت میں جوش بیان مطلوب ہوتا ہے اور عوام بھی ایسی تقریروں سے متاثر ہوتی ہے؛ لیکن اس جوش بیان کا تعلق جب نفرت انگیز مواد سے جڑ جاتا ہے تو وہ آتش بیانی بن جاتی ہے، جس سے خرمن امن و سکون جل کر خاکستر ہو جاتا ہے۔ کرناٹک کے شیو موگا میں بھوپال سے رکن پارلیمان پرگیہ ٹھاکر نے جو تقریر کی وہ اسی ذیل میں آتی ہے- وہ وہاں ”ہندوجاگرن ویدیکے“ کے ایک جلسہ سے خطاب کر رہی تھی، پرگیہ ٹھاکر 2008ء میں مالی گاؤں بم دھماکہ کی خاص ملزمہ ہے، جس میں چھ افراد ہلاک اور ایک سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ وہ خود کو سادھوی کہتی ہے اور یہ کہہ کر وہ ہندوازم میں سادھوی کے تقدس کو پامال کرنے کا کام کرتی رہی ہے-
واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں اب یوگی، سادھو، سادھوی سب نے سیاست میں آکر اقتدار پر اپنی رہبانیت کا” بھوگ“ چڑھا دیا ہے۔
پرگیہ ٹھاکر نے اپنے بیان میں ہندوؤں کو گھروں میں ہتھیار رکھنے کا مشورہ دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ہتھیار ممکن نہ ہو تو اپنے گھروں میں سبزی کاٹنے والے چاقو کی دھار تیز کر الیں ؛تاکہ سبزی کاٹنے کے ساتھ اس سے دشمنوں کا سر بھی کاٹا جا سکے- سب جانتے ہیں کہ پرگیہ جب دشمن کا لفظ استعمال کرتی ہے تو اس کا اشارہ مسلمان اور بعض اقلیتوں کی طرف ہوتا ہے- وہ مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو ابھارنے اور جوش و ولولہ پیدا کرنے کا کام پہلے بھی کرتی رہی ہے- اس کا پارلیامنٹ تک پہونچنا مسلمانوں کے خلاف اسی نفرت پھیلانے کا شاخسانہ ہے- وہ بابری مسجد کو فضلہ، نا تھو رام گوڈسے کو قابل تعریف اور دگ وجے سنگھ کو دہشت گرد قرار دے چکی ہے۔
عدالت کے فیصلے کے مطابق اس قسم کے نفرت انگیز بیانات کا پولیس کو از خود نوٹس لے کر ایف آئی آر درج کرنا چاہیے، لیکن جب پولیس نے از خود نوٹس نہیں لیا تو ترنمول گانگریس کے ترجمان ساکیت گوکھلے اور سیاسی قائد تحسین پونا والا نے کرناٹک پولیس کو باقاعدہ تحریری شکایت کی، لیکن شموگا کے اس پی ، جی کے متھن کمار نے جسمانی طور پر حاضر ہو کر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا، بڑی مشکل سے پرگیہ ٹھاکر کے خلاف ایف آئی آر درج ہو سکا اور اب کرناٹک پولیس نے تحسین پونے والا کو تحقیق میں شامل ہونے کا حکم دیا ہے، دیکھیے آگے آگے ہوتا ہے کیا۔
اس معاملہ میں چوں کہ پولیس نے از خود اس نفرت آمیز تقریر کا نوٹس نہیں لیا ہے اسی لئے یہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی مخالفت اور عدالت کی توہین کے مترادف ہے- اس لیے ہتک عدالت کے قانون کے تحت معزز ججوں کو پولیس کو عدالت میں طلب کرنا چاہیے، کیونکہ اس قسم کے معاملات پر روک عدالت کی سختی سے ہی لگ سکتی ہے- بھاجپا حکومت سے ایسے معاملات میں کوئی توقع رکھنا فضول ہے۔