کوچنگ اور ٹیوشن انڈسٹری Coaching and tution industry
ملک میں تعلیمی اداروں کی کمی نہیں ہے- ایک اندازے کے مطابق اس وقت پورے ملک میں تنتیس ہزار (33000) سے زائد پلے اسکول، پندرہ لاکھ سے زیادہ سرکاری اور پرائیوٹ اسکول، ایک ہزار سے زائد یونیورسٹیاں، کئی ہزار مدارس ہماری تعلیمی ضرورتوں کو پوری کرنے کے لئے قائم ہیں۔ آزادی کے بعد طلبہ و طالبات انہیں اداروں سے کسب فیض کرکے بڑی بڑی جگہوں پر فائز ہوئے اور ملک کی ترقی کو رفتار دینے کا کام کیا- پھر ان اداروں میں وہ مستعدی باقی نہیں رہی- اساتذہ سے تدریس کے علاوہ غیر تدریسی کام لیے جانے لگے-
سرکاری افسران کے یہاں کم و بیش ہر روز میٹنگ کے نام پر حاضری دی جانے لگی- مکان شماری، مردم شماری، انتخابات بلکہ جانور شماری کا کام بھی ان سے لیا جانے لگا- بحالیاں صلاحیتوں سے زیادہ تعلقات کی بنیاد پر ہونے لگیں- پرچے لیک ہونے کی روایت عام ہوئی او ر موٹی رقم دے کر جوابات آسانی سے فراہم کیے جانے لگے تو اساتذہ کی دلچسپی پڑھانے سے کم، افسران کو خوش کرنے سے زیادہ رہنے لگی-
نااہلِ اساتذہ کی ایک پوری کھیپ بحال ہوگئی، جسے ایم ایل اے کا فل فارم اور ملک کے بڑے عہدوں پر فائز لوگوں کے نام تک یاد نہیں۔
دوسری طرف بحالیوں کے لیے مقابلہ جاتی امتحانات ہونے لگے- جن بچوں نے کچھ پڑھا ہی نہیں یا انہیں پڑھایا نہیں گیا، ایسے بچوں کے لئے مقابلاتی امتحان نکالنا آسان نہیں رہا- اس صورت حال کی وجہ سے اس سوچ نے رواج پالیا کہ اگر اونچے خواب اور بہترین ملازمت کے حصول کی خواہش کو حقیقت کا رنگ دینا ہے تو ان تعلیمی اداروں سے باہر الگ سے پڑھنا ہوگا، جہاں پڑھ کر صلاحیت جیسی بھی ہو، اپنے اونچے ہدف تک پہونچنا ممکن ہوسکے گا۔ اس سوچ نے دھیرے دھیرے آزادی کے کم و بیش تیس سال بعد کوچنگ انڈسٹری اور ٹیوشن کلچر کو رواج دیا۔
آج اس انڈسٹری سے فائدہ نہ اٹھایا جائے تو لوگ مالی اعتبار سے غریب سمجھتے ہیں اور ایسے بے شمار لوگ مشورہ دینے آجاتے ہیں کہ زندگی میں بچے کو آگے بڑھانا ہے تو کوچنگ کرائیے اور ہر موضوع کے لئے الگ الگ ٹیوشن پڑھانے والا رکھیے۔ اس کا نقصان گارجین کو یہ ہو رہا کہ انہیں اپنے بچے، بچیوں کی اسکول فیس کے ساتھ کوچنگ اور ٹیوشن میں موٹی موٹی رقم دینی ہوتی ہے، جو ان کی یافت کے اعتبار سے بہت زیادہ ہوا کرتی ہے۔
دوسری طرف طلبہ و طالبات پر بستے کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے- انہیں اسکول، کوچنگ اور ٹیوشن تینوں کے ہوم ورک کرنے ہوتے ہیں، جو نفسیاتی تناؤ کا سبب ہوتا ہے۔ کوچنگ انڈسٹری اور ٹیوشن میں فن نہیں پڑھایا جاتا ہے، سوالات حل کرائے جاتے ہیں۔ کتاب کے بجائے گیس پیپر پر توجہ مرکوز کرائی جاتی ہے اور وہ نکات سکھائے جاتے ہیں، جس کی مدد سے امتحان میں کامیابی ہوسکتی ہے۔ بچہ چار سال کی عمر سے ہی اساتذہ اور میڈم کا تختۂ مشق بننے لگتا ہے۔
اس وقت پورے ملک میں کوچنگ انڈسٹری کم و بیش پچیس ہزار کروڑ سالانہ کی ہے اور گذشتہ پانچ سال میں اس میں پنتیس (35) فی صد کا اضافہ درج ہوا ہے- ریاستی سطح پر مغربی بنگال میں نویں سے بارہویں کلاس تک کے نواسی (89) فی صد طلبہ و طالبات کوچنگ اور ٹیوشن سے فائدہ اٹھاتے ہیں- یہ تعداد تمام ریاستوں میں سب سے زائد ہے تری پورہ میں ستاسی(87) فی صد، بہار میں 2ء67، اڈیشہ میں 4ئ63، منی پور میں 7ئ54 فی صد طلبہ و طالبات نویں سے بارہویں تک کوچنگ اداروں سے جڑتے ہیں۔
دوسری طرف ہمارے اسکولوں میں 2020ء میں پارلیامنٹ میں دی گئی اطلاع کے مطابق دس لاکھ چھ ہزار آسامیاں خالی پڑی تھیں، جس کی وجہ سے اسکول میں کار طفلاں تمام ہورہا ہے۔
عالمی سطح پر کوچنگ انڈسٹری سے فائدہ اٹھانے والوں کا جائزہ لیں تو گلوبل ایجوکیشن سینس کی رپورٹ کے مطابق (جو گذشتہ سال شائع ہوئی تھی) جنوبی کوریا میں 8ئ92، ملیشیا میں83 اور جاپان میں 70% فی صد طلبہ و طالبات کوچنگ انسٹی چیوٹ سے وابستہ تھے اور 2022ء تک کوچنگ انسٹی چیوٹ کا عالمی کاروبار 227 ارب ڈالر تک پہونچ گیا تھا۔ یہ بہت بڑی رقم ہے- دنیا کے صرف باون (52) ممالک ایسے ہیں جن کی گھریلو آمدنی 227 (DGP) ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ ان کے علاوہ سارے ممالک کی آمدنی اس سے کم ہے۔
آپ سوچ سکتے ہیں کہ کوچنگ پر کتنی بڑی رقم خرچ کی جارہی ہے۔ پرائیوٹ اسکولوں، میڈیکل اور انجنیئرنگ کالجوں میں ڈونیشن کے نام پر جو نذرانہ دینا ہوتا ہے، وہ اس رقم سے الگ ہے۔
گارجین اقتصادی کمزوری کی وجہ سے یہ رقم فراہم نہیں کر پاتا یا سب کچھ بیچ کر فراہم کر دیا اور لڑکا امتحان میں ناکام ہوگیا، دونوں صورتوں میں طلبہ ناامیدی اور مایوسی کے شکار ہو جاتے ہیں اور اپنی جان دینے کے درپے ہوجاتے ہیں۔ جان دینے کا یہ عمل ہمارے سماج میں خودکشی کے نام سے جانا جات اہے- 1995-2022 تک دو لاکھ طلبہ اس ذہنی تناؤ کی وجہ سے اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ مختلف عمر کے لوگوں میں طلبہ کی خودکشی کا تناسب 2009 سے 2000 تک پانچ فی صد تھا، لیکن 2019ء میں 4ئ7، 2020ء میں 2ئ8 اور 2021ء میں 8% فی صد تک پہونچ گیا تھا- خودکشی کے بڑھتے ان واقعات میں کوچنگ کی موٹی فیس کا نہ جٹا پانا اور امتحان میں ناکامی کو بنیادی سبب قرار دیا گیا ہے۔
دوسرا نقصان اس کوچنگ انڈسٹری سے یہ ہو رہا ہے کہ پرائیوٹ سیکٹر میں خدمات مہنگی ہوتی جارہی ہیں- میڈیکل اور انجنیئرنگ کالج سے پڑھ کر نکلنے والے طلبہ و طالبات صحت اور زندگی کے دوسرے میدان میں جو خدمات دیتے ہیں، وہ انتہائی مہنگی ہوتی ہیں، کیوں کہ انہوں نے بڑی موٹی رقم خرچ کرکے اس عہدہ، منصب اور صلاحیت کو حاصل کیا ہے-
سرکاری محکموں میں رشوت کی گرم بازاری کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ جلد از جلد تعلیم کے نام پر خرچ کی گئی رقم کو حاصل کرلینا چاہتے ہیں، تاکہ ماں بہن کے زیور جو اس تعلیم کے لئے گروی رکھے گیے تھے اس کو چھوڑا سکیں اور زمینوں کے جو پلاٹ بک گئے تھے، اسے زیادہ خرید سکیں- بدعنوانی کے فروغ پانے کا یہ بڑا سبب ہے- اس لیے سرکار اور ماہرین تعلیم کو ایسا میکانزم بنانا چاہیے اور ایسے طریقوں کو رواج دینا چاہیے کہ سب تک تعلیم کم خرچ میں پہونچ سکے۔ ایسے ادارے جو اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے موٹی رقمیں لیتے ہیں- ان پر لگام لگایا جائے- سرکاری تعلیمی اداروں میں تدریسی عملہ سے غیر تدریسی کام نہ لیا جائے۔
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ