ذات پر مبنی مردم شماری | Caste Based Census in Bihar
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
حکومت بہار نے مرکزی حکومت کے انکار کے باوجود بہار میں ذات کی بنیاد پر مردم شماری کا فیصلہ اپنے صرفہ سے لے لیا- تیاری پوری ہو گئی- خاکے بنائے گیے- اس مردم شماری میں بہار کے اڑتیس اضلاع کے پانچ سو بلاک کے 2.58 کروڑ گھروں تک سروے کنندگان پہونچیں گے اور 12.27 کروڑ لوگوں کی گنتی کا کام ذات کے اندراج کے ساتھ کیا جائے گا- یہ دو مرحلوں میں مکمل کیا جائے گا۔
پہلا مرحلہ 7 جنوری سے 21 جنوری 2023 کو اختتام پذیر ہوا- اس میں مکانات کی گنتی کی گئی- ان پر نمبر لگائے گیے اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ باہر سے دکھنے والے ایک مکان میں کتنے خاندان رہ رہے ہیں- ان کا گارجین کون ہے اور اس خاندان میں کتنے لوگ ہیں-
دوسرا مرحلہ یکم اپریل سے 30 اپریل 2023 تک چلے گا- اس میں خاص طور سے ذات پر مبنی اعداد و شمار کو ڈیجیٹل انداز میں جمع کیا جائے گا- اس کام کے لیے بہار سرکار نے پینتیس (35) لاکھ ملازمین کو ٹریننگ دے کر تیار کیا ہے- مردم شماری کرنے والوں کے اوپر بڑی تعداد میں سوپر وائزر اور نگراں بنائے گیے ہیں اور ضلع مجسٹریٹ کو نوڈل افسر کی ذمہ داری دی گئی ہے تاکہ یہ کام سلیقہ سے اختتام تک پہونچے۔
پہلے مرحلہ کے کام کی تکمیل پر مردم شماری کرنے والوں نے کچھ پریشانیوں کی رپورٹ بھی سرکار کو دی ہے۔ مثلا ایک آدمی کا مکان دیہات میں بھی ہے اور شہر میں بھی- اگر دونوں جگہ ایک ہی آدمی کے نام اور خاندان کا اندراج کیا جائے تو اعداد و شمار میں غیر معمولی اضافہ ہو جائے گا- شہر میں ایک عمارت میں بہت سارے فلیٹس ہیں، جن کے مکیں مالک مکان نہیں، کرایہ دار ہیں- ظاہر ہے کرایہ دار کا جہاں اپنا مکان ہوگا وہاں کا پتہ دے گا- مالک مکان بھی اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کرایہ دار کا نام اس مکان کے مکیں کے طور پر درج ہوجائے، کیوں کہ بعد میں وہ جب سرکار کے رکارڈ کا حصہ بن جائے گا تو مالک مکان کے لیے دشواریاں کھڑٰی ہو سکتی ہیں- ایک مسئلہ خالی پڑے مکان اور مذہبی عبادت گاہوں کا بھی ہے- خالی پڑے مکان کی ملکیت جس کی ہے اس کا نام ذکر کیا جائے تو کئی جگہ اندراج ہونے کی وجہ سے صحیح اعداد و شمار تک پہونچنا دشوار ہوگا- مسجد، مندر اور مذہبی مقامات کی عمارتوں پر مسجد، مندر کا اندراج کافی ہے، لیکن بعض سروے کنندہ ان مقامات کا اندراج نہیں کر رہے ہیں، جو بعد میں دشواری کا سبب ہو سکتا ہے- اعلیٰ افسران ان معاملات و مسائل پر غور و خوض کر رہے ہیں اور توقع کی جاتی ہے کہ اس سلسلے میں واضح ہدایت دوسرے مرحلے کے شروع ہونے کے پہلے سروے کنندگان تک پہونچ جائے گی۔
سروے کے بعد ایک مرحلہ ان اعداد شمار کے جمع کرنے اور تجزیہ کے بعد نتیجہ تک رسائی کا ہوگا۔ اس کام کے لیے ایک ماہ یعنی 31 مئی 2023 تک کا وقت مقرر کیا گیا ہے- یہ سارے مراحل کے مکمل ہونے میں عدالت کا فیصلہ بھی رکاوٹ بن سکتا ہے کیوں کہ اعلیٰ ذات کے لوگوں کی طرف سے اس سروے کے خلاف درخواستیں عدالت میں زیر غور ہیں اور عدالت نے اگر روک لگادی تو اس کام کو پایہ تکمیل تک پہونچا نا ممکن نہیں ہو سکے گا۔
عدالت کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں آئی تو حکومت کو کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، کیوں کہ اس مردم شماری کے لیے جدیو ارکان پارلیامنٹ نے وزیر داخلہ کے توسط سے وزیر اعظم کو اس سلسلے میں مکتوب روانہ کیا تھا، لیکن 20 جولائی 2020ء کو مرکزی حکومت نے پارلیامنٹ میں بیان دیا کہ 2021ء کی مردم شماری ذات کی بنیاد پر نہیں ہوگی- پھر 23 اگست کو تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کی ملاقات وزیر اعلیٰ کی قیادت میں وزیر اعظم سے ہوئی- اس ملاقات میں بہار سے بی جے پی کے وزیر معدنیات جنک رام نے بھی نمائندگی کی تھی، لیکن وزیر اعظم اپنی جگہ اٹل رہے- انہوں نے بہار ہی نہیں مہاراشٹر اسمبلی کی پاس شدہ تجویز کو بھی یہ کہہ کر رد کر دیا کہ دستور میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
اس سے قبل 2010ء میں پارلیامنٹ میں ذات کی بنیادپر مردم شماری کا سوال اٹھا تھا- اصولی طورپر حکومت نے اسے مان بھی لیا تھا، لیکن یہ مردم شماری معاشی طور پر کمزور طبقات کے حوالہ سے کرائی گئی جس کے اعداد و شمار آج تک عام نہیں کئے گئے-
وزیر اعظم نریندر مودی نے 2017ء میں روہنی کمیشن کی تشکیل کی- کمیشن نے پایا کہ دو ہزار چھ سو تینتیس (2633) پس ماندہ برادری میں سے ایک ہزار (1000) کو منڈل کمیشن کی سفارش کا فائدہ نہیں ملا ہے- اس کمیشن نے 27 فی صد رزرویشن کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
ذات کی بنیاد پر مردم شماری کا کام برانوے (92) سال قبل 1931ء میں ہوا تھا- اس کے مطابق ہندوستان میں اونچی ذات کے برہمن 7ء2، بھومی ہار 9ء2، کائستھ 2ء1 کل تیرہ (13) فی صد تھے، اوسط معیار کی آبادیوں میں یادو 0ء11، کوئری1ء4، کرمی 6ئ3، بنیا6ء0 کل3ء19 فی صد ہوا کرتے تھے- پس ماندہ برادری میں بڑھئی0ء1، دھانک8ء1، کہار7ء1، کانو6ء1، کمہار3ء1، لوہار3ء1، حجام6ء1، تتوا6ء1، ملاح6ء1، تیلی8ئ2 فی صد تھے۔ ایک فی صد سے نیچے رہنے والی پس ماندہ برادری 1ء16، درج فہرست ذات1ئ14، درج فہرست قبائل 1ء9، مسلمان5ئ12، فی صد، اس فہرست میںدرج ہوئے تھے، منڈل کمیشن نے ذات کی بنیاد پر مردم شماری نہیں کرائی تھی، البتہ ہندوستان کی مجموعی آبادی پس ماندہ طبقات کا تخمینہ باون (52) فی صد لگایا تھا، جسے27 فی صد رزرویشن دیا گیا تھا۔
ذات پر مبنی مردم شماری اگر ایمانداری سے کی گئی اور کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں برتا گیا تو اس کا فائدہ پس ماندہ طبقات کو ہوگا- محروم طبقات کی پہچان ممکن ہو گی اور سرکاری منصوبوںکی تیاری میں اس سے مدد ملے گی اور اگر سرکار کی یہ کوشش کامیاب ہوگئی تو بہار پورے ملک کے لیے رول ماڈل بن جائے گا، اور نتیش کے اس اعلان کو تقویت ملے گی کہ جو ہم پانچ سال قبل سوچتے ہیں، پورا ملک اس تک پانچ سال بعد پہونچتا ہے۔